"SAC" (space) message & send to 7575

’’ہونج اندر دا کوڑا‘‘

یا تو قوم اب سیاسی شعور حاصل کرنا چاہتی ہے......
یا پھر بالکل ہی فارغ......
دوسری بات میں مجھے زیادہ جان لگتی ہے‘ اس کی وجہ...... 
تقریباً ہر سیاسی دکاندار روزانہ کسی نہ کسی ''سستے بازار‘‘ میں اپنی سیاسی دکانداری سجا کر بیٹھا ہوتا ہے۔ ''سستے بازار‘‘ کا ذکر میں ان جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں ہونے والی زیادہ تر ''سستی گفتگو‘‘ کی وجہ سے کر رہا ہوں۔ گو ہماری بدنصیبی ہے کہ وطن عزیز میں اب ''سستی گفتگو‘‘ کرنے والا ہی مہنگا سیاست دان یا دانش ور مانا جاتا ہے۔ 
قارئین! ان تلخ حقیقتوں میں اب ایسی تلخی نہیں رہی کہ انہیں ''معافی کے ساتھ‘‘ پیش کیا جائے۔ اب تو لکڑ ہضم‘ پتھر ہضم...... 
ہم وہ قوم ہیں جن کا تیس‘ پینتیس سال ''وحشی جٹ‘‘ ہیرو رہا ہے۔ سلطان راہی بہت بڑا اداکار تھا‘ بیچارہ چیختا مر گیا کہ خدارا میری ان ''وحشی کرداروں‘‘ سے جان چھڑائی جائے‘ مگر فلمی ہدایت کار اسے یہ ہدایت دیتے کہ تمہیں لوگ اسی طرح پسند کرتے ہیں۔ ''لگے رہو راہی بھائی‘‘...... 
سیاسی ہدایت کار بھی اب اپنے اپنے ہیرو کو وحشی جٹ‘ ماجھو‘ حنیفا بابا‘ کالو شاہ پوریا‘ بھولا سنیارا بننے کی ہدایت دے رہے ہیں۔ عوام نے ان بدنام زمانہ بدمعاشوں‘ قاتلوں اور ڈکیتوں کو فلموں میں بطور ہیرو پسند کیا تھا اور اب سیاست اور دانش میں بھی اکثر یہی رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اب سیاست دان اور دانش ور بھی ''گنڈاسے‘‘ لے کر میدان میں آ گئے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ عوام ''گنڈاسا کلچر‘‘ پسند کرتے ہیں۔ جس کے ہاتھ میں گنڈاسا نہیں اس کا کوئی پسند کرنے والا نہیں۔ گفتگو کو فلمی انداز نہ دیا جائے تو لوگ نہیں ٹھہرتے۔ چینل یا جلسہ بدل لیتے ہیں۔ اس لیے اب عوام کا ہاتھ یا پائوں روکنے کے لیے بات ''اوئے‘‘ سے شروع کر کے ''توئے‘‘ پر ختم ہو رہی ہے اور اگر کہیں کسی جگہ ایک آدھ گالی بھی ''فائر‘‘ کر دی جائے تو بلے بلے...... 
قابل صد ''اختتام‘‘ جناب ''شوخے رشیدصاحب‘‘ کی طرف سے کھل کھلا کر گالی گلوچ کرنے کے لیے عورتوں کے بغیر یعنی ''مردانہ جلسہ‘‘ کرنے کی ''تڑی‘‘ بھی لگ چکی ہے اور اکثریت نے بجائے مذمت کے اس تجویز کو سراہا ہے۔ 
ذرا غور تو کریں کہ پچھلی دو تین دہائیوں سے بات ہو کیا رہی ہے؟ ماسوائے گرم انداز اور بے شرم الفاظ کے نیا کیا ہے؟ کسی نے کوئی کام کی بات بھی کی؟ کیا کسی نے ''ایمان‘ اتحاد‘ تنظیم اور یقین محکم‘‘ جیسا کوئی دوسرا سلوگن متعارف کروایا؟ یا اسی پر عمل کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی؟ یا پھر کسی نے ''روٹی‘ کپڑا اور مکان‘‘ جیسا عوامی نعرہ لگایا؟ یا غریب کے لیے لگائے گئے اس نعرے کو پورا کیا؟ کسی نے عوام کا صحت‘ تعلیم یا بھوک جیسا بنیادی مسئلہ حل کیا؟ 
افسوس پچھلے کئی سالوں سے جلسوں‘ جلوسوں اور ایوانوں میں بھی وہی گفتگو ہو رہی ہے جو ہر گرم حمام یا گلی کوچوں میں بیٹھے اکثر ''تھڑیئے‘‘ مقررین کر رہے ہوتے ہیں۔ وہی رونے روئے جا رہے ہیں جو قائد کی وفات سے لے کر آج تک عوام رو رہے ہیں۔ ہر لیڈر عوام کے آنسو پونچھنے کے لیے ''ریشمی رومال‘‘ لہراتا ہے مگر یہ رومال غریب کی ''اکھیوں‘‘ تک نہیں پہنچتا۔ 
پچھلے دنوں ہونے والے جماعت اسلامی کے تین روزہ اجتماع سے امیر جماعت نے بغیر ''گنڈاسے‘‘ کے خطاب کیا‘ جو ہم نے بذریعہ ٹی وی سنا۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک تیز نظر دوست نے کہا ''دیکھو جماعت اسلامی کا شروع سے یہی ایجنڈا ہے جو سینکڑوں مرتبہ قوم کے سامنے پیش کیا جا چکا ہے مگر لوگ اس پر کان نہیں دھرتے کیونکہ انداز مہذب ہوتا ہے لیکن یہی باتیں اب کئی لیڈران ''بدتمیزی کا تڑکا‘‘ لگا کر عوام کے سامنے رکھتے ہیں اور لوگ انہیں ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں اور واہ واہ کر رہے ہیں‘‘۔ 
یعنی قوم کا مزاج ایسا ہو چکا ہے کہ جس میں جتنا زیادہ تکبر‘ رعونت اور اکڑ پائی جائے اُسے اتنا ہی قدآور لیڈر سمجھتی ہے۔ جو زبان کا جتنا ''ڈِھیلا‘‘ ہے اُتنا بڑا مقرر ہے۔ عوام کی اسی پسندیدگی کی وجہ سے اب یہ ''وحشی‘‘، ''بالے‘‘ اور ''مولے جٹ‘‘ انسانوں کو مکھیاں سمجھنے لگے ہیں اور ہم مکھیاں بن بھی چکے ہیں کہ جہاں جتنا زیادہ گند ہو وہاں اتنی ہی زیادہ اکٹھی ہوتی ہیں۔ مساجد خالی اور کوڑے دان بھرے ہوئے...... 
پاکستانیو! 
بدلنے کے لیے بدلنا پڑے گا...... 
ملک کے اندر تبدیلی کے لیے اپنے اندر تبدیلی لانا پڑے گی...... ع 
''باہروں بہاری پھیر نہ کڑیے ہونج اندر دا کوڑا‘‘
باتوں سے بات نہیں بنے گی‘ بات تو باطن صاف کرنے سے بنے گی اور باطن صاف کرنے کے لیے ہجوگوئی چھوڑ کر حق گوئی کی عادت اپنانا ہوگی اور حق گوئی کے لیے بھڑکے ہوئے جذبات کی نہیں خوبصورت اخلاق کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
سنتِ محمدیؐ کی پیروی ہی سے تبدیلی آئے گی۔ ''لیگی‘ تحریکی یا پیپلی‘‘ بننے کی بجائے محمدیؐ بننا پڑے گا۔ زبان کو شیریں کرنا پڑے گا۔ ترش الفاظ توجہ حاصل تو کر سکتے ہیں مؤثر نہیں ہو سکتے۔ 
''بے عمل عالم علم کی بجائے نحوست پھیلاتے ہیں‘‘...... 
''شکر کھانے سے منع کرنے کے لیے خود شکر چھوڑنا پڑے گی‘‘...... 
اور صرف حکمرانوں یا سیاستدانوں کو ہی نہیں‘ ہر فرد کو...... 
پھر تقدیر بدلے گی کیونکہ ع 
''ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں