''عقل ہووے تے سوچاں ای سوچاں
عقل ناں ہووے تے موجاں ای موجاں‘‘
ویسے تو انسان کی موجوں والی زندگی بچپن ختم ہونے کے ساتھ ہی وِدّیا ہو جاتی ہے اور سوچیں شروع ہو جاتی ہیں مگر...
ہمارے اس پیارے وطن میں بحیثیت قوم ہماری ساری زندگی موجوں میں ہی گزر گئی ہے۔ زندگی امتحانات اور نتائج کا نام ہے۔ موجیں نتائج سے ختم ہو جاتی ہیں... سوچیں شروع ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں یہی موجیں اتنی تیز ہیں کہ اکثر نتائج کو بہا لے جاتی ہیں۔ اس لیے ہم سوچوں سے دور ہی رہے ہیں جب کہ عمر ہماری ستاسٹھ برس ہو چکی ہے۔ اردگرد ہماری عمروں کے ممالک کہاں سے کہاں پہنچ گئے... وہ قومیں جنہوں نے فکر کی... ملک کے بارے میں سوچا... پھر کیا... اور جب کیا جائے تو ہو جاتا ہے... ان کا ہو گیا... ہم نے سوچا... نہ کیا... نہ ہوا۔ اگر سوچا تو ملک کے لیے نہیں... اپنے اپنے لیے... نتیجہ یہی نکلا کہ ملک پیچھے رہ گیا‘ ہم آگے نکل گئے۔ جن کا ہاتھ پڑا وہ امیر سے امیر تر ہو گئے اور ملک غربت کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ اپنی ذات کے بارے میں سوچیں تو غربت بڑھتی ہے اور اگر ملک کے بارے میں سوچیں تو پھر کوئی غریب نہیں رہتا۔ ہم نے آئندہ نسلوں کو وراثت میں ایک طاقتور ملک دینے کی بجائے اپنی اپنی اولادوں کو تگڑی جائیدادیں دینے کے لیے محنت کی... صرف عوام نے نہیں‘ حکمرانوں نے بھی ایسا ہی کیا... صرف اپنا کیا... صرف اپنا سوچا... صرف اپنا... کہ کرسی کیسے مضبوط ہو اور جیب... ملک کی کسی کو پروا نہ ہوئی... طاقت ور افراد سے مضبوط قوم بنتی ہے... علم‘ ارادے اور محبت سے سرشار طاقت ور افراد۔ اسی طرح طاقت ور ا دارے ملک کی مضبوطی ہوتے ہیں‘ حکومتیں نہیں... کیونکہ حکومتیں تو آتی جاتی ہیں‘ ادارے وہیں رہتے ہیں... جسم کی ہڈیاں ہوتے ہیں یہ ادارے... جن پہ ملک کھڑا ہوتا ہے... چلتا ہے... آگے بڑھتا ہے... اس ملک کی ہڈیاں بہت کمزور ہو چکی ہیں... کسی نے ان کی طرف توجہ نہیں دی... ایمان داری کے دودھ کی بجائے بے ایمانی کا زہر پی رہے ہیں ہم... لگاتار... یہاں تک کہ ان ہڈیوں نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا ہے... کھوکھلی ہو گئی ہیں... آوازیں آنی شروع ہو گئی ہیں ان میں سے... مگر ہماری موجیں ختم نہ ہوئیں... حالانکہ ہڈیوں میں سے آوازیں آنے لگیں تو ''موجیں‘‘ ختم ہو جاتی ہیں... مگر ہمارے نتیجے تو موجوں کی نذر ہو جاتے ہیں... ہم اس عمر میں بھی بچے کے بچے... واٹر گن سے کھیل رہے ہیں... ہمیشہ کی طرح... یہ پانی والی بندوق بھی عجب کھلونا ہے... بے ضرر مگر خوفناک... جب ایک بچہ اسے لوڈ کر کے دوسرے کو نشانے پر لیتا ہے تو مصیبت پڑ جاتی ہے... نشانے کی زد میں آیا ہوا کھلاڑی سُکڑ کر ''نکّرے‘‘ لگ جاتا ہے اور اس وقت تک لگا رہتا ہے جب تک فائر ہو نہ جائے... اس فائر کا بظاہر نقصان نہیں ہوتا مگر فائر ہونے تک جان سولی پر لٹکی رہتی ہے... خبر ہونے کے باوجود کہ اس بندوق میں گولی نہیں محض پانی ہے۔ ہم اس سے سخت چالو ہوتے ہیں‘ اس ٹھنڈے بارود سے... خاص طور پر ٹھنڈے موسم میں تو کئی دفعہ فائر لگنے والے کھلاڑی کا اپنا ''فائر‘‘ بھی نکل جاتا ہے۔
موجودہ حکومت میں بھی مسلسل ٹھنڈے حکمران جو بلند بانگ دعووں کے ساتھ گرمی پیدا کرنا چاہتے ہیں‘ ابھی تک ناکام نظر آ رہے ہیں... گو ہماری بدترین حالت کو سنوارنے کے لیے کسی بھی حکومتی ٹیم کی مسلسل اور سالوں کی انتھک محنت چاہیے مگر عوام کے ذہنوں میں انتخابات سے پہلے ''چھوٹے منہ سے لگائے ہوئے بڑے نعرے‘‘ موجود ہیں جو اب ٹھنڈے پڑ چکے ہیں اور ان کی ٹھنڈ سے کپکپی طاری ہے۔ ایسے نعرے تقریباً ایک دہائی پہلے تک فائدہ مند ثابت ہوتے تھے۔ سیاستدان انتخابی مہمات میں ''دبنگ دعوے‘‘ کر کے ووٹ حاصل کر لیتے تھے اور پھر کرسیوں پر براجمان ہونے کے بعد... ع
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
مگر اب ان سیاستدانوں کا دشمن کیمرہ ہمارے ہاں بھی ''ON‘‘ ہو چکا ہے۔ اب حکمرانوں کو اپنے عوام سے کیے ہوئے عہد و پیماں یاد کروانے کے لیے اینکر کو اسی کیمرے کی طرف منہ پھیر کر صرف اتنا عرض کرنا پڑتا ہے کہ ''آیئے آپ کو الیکشن سے پہلے کی گئی آپ کی اپنی تقریر سناتے ہیں‘‘... اور پھر ایک پرانی فلم ''شعلے‘‘ کا ٹوٹا چلتا ہے... اس کے بعد ٹی وی کے اندر بیٹھے ہوئے صاحبِ اقتدار کی آنکھوں اور ٹی وی کے سامنے بیٹھے ''صاحب فراش‘‘ کے منہ سے آگ نکلنا شروع ہو جاتی ہے لیکن جسم دونوں طرف ٹھنڈے...
اسی ''ٹھنڈ ماحول‘‘ میں خان بہادر اپنی دھرنوں اور جلسوں کی پانی والی بندوق لے کر میدان میں ہیں۔ اور ہرچند دن بعد سب کو نشانے پر رکھ لیتے ہیں۔ معلوم ہونے کے باوجود کہ بندوق میں پانی ہے‘ گولی نہیں... ہمارا ''تراہ‘‘ نکل جاتا ہے۔ اور سب سُکڑ کر نکّرے لگ جاتے ہیں... کاروبار زندگی بند... سب اس انتظار میں کہ فائر ہو تو جان چھوٹے... اب تو خان صاحب اگلے کئی نشانوں کا شیڈول جاری کر چکے ہیں... خان بہادر کی دیکھا دیکھی اور بھی کئی کھلاڑی واٹر گن لے کر میدان میں اُتر چکے ہیں۔ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ انہی بندوقوں کی فائرنگ سے ہمارا میلا کچیلا جسم دھو دُھلا کے صاف ستھرا ہو جائے گا۔
دوسری جانب حکومت نے بھی اسی واٹر گن سے عوام کو ''ہینڈز اپ‘‘ کرا رکھا ہے۔ تمام دعوے پانی کے فائر ثابت ہو رہے ہیں۔ اس کا اندازہ اخباروں میں چھپنے والی دو ایک روز پہلے کی اس خبر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ''اوکاڑہ سے مُردہ گدھوں کا گوشت لا کر زندہ دلان لاہور کو کھلایا جا رہا ہے‘‘۔
قارئین! ایک زندگی گزر گئی‘ اس مکروہ خبر کو سنتے اور پڑھتے کہ اس ''زندہ قوم‘‘ کو مردہ گوشت کھلایا جا رہا ہے... گِرج بھی زندہ ہوتی ہے جو صرف مردار کھاتی ہے‘ اُسے شکار کرنے کی ہمت نہیں ہوتی‘ وہ دوسروں کی موت کا انتظار کرتی ہے‘ لیکن ہم تو انسان ہیں ہمیں ہر طرح سے زندگی گزارنے کا شعور دیا گیا ہے‘ فیصلہ تو ہم نے کرنا ہے کہ حلال کھانا ہے یا مُردار...!
یا پھر اس ''واٹر گن گیم‘‘ میں ہی مست رہنا ہے۔