اس سانحہ پر دیر سے نوحہ لکھنے کی معافی چاہتا ہوں۔ دیر کی وجہ بھی یہی المناک حادثہ ہے...
کیونکہ میں اسے ہی تو کہا کرتا تھا ''مجھے ذرا کاپی پنسل تو دینا‘‘...
اور وہ ایک ہاتھ میں کبھی فٹ بال یا کبھی بلا اور گیند اٹھائے دوسرے ہاتھ سے مجھے کاپی اور پنسل پکڑاتا اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہتا کہ ''بابا آپ اب لکھنے بیٹھیں گے اور میں آپ کو ڈسٹرب کروں گا‘ میں باہر کھیلنے کے لیے جا رہا ہوں تاکہ آپ آرام سے لکھ سکیں‘‘...
اُس کی اِس معصوم چالاکی سے میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور وہ اسی کو اجازت سمجھ کر کھیلنے کے لیے گلی میں نکل جاتا ہے۔
... اب وہ میرے پاس نہیں ہے... آج چوتھا دن ہے... میں کسے کہتا کہ ''مجھے ذرا کاپی پنسل تو دینا‘‘...
میں اتنے دن خود یہ کاپی پنسل نہیں لے سکا‘ اس کی وجہ نہ تو پدرانہ عادت ہے اور نہ ہی سُستی... میرے جسم میں جان ہی نہیں... وہ شاید میری بھی جان نکال کر لے گیا...
کئی دنوں کے بعد میں نے کاپی پنسل تو دراز سے نکال لی ہے... جسم سے نکلی ہوئی جان کہاں سے واپس لائوں؟... کیسے لکھوں؟... کیا لکھوں؟... میں اسے کیسے واپس بلائوں؟... اسے کیسے بتائوں کہ وہ مجھے ڈسٹرب نہیں کرے گا... بلکہ مجھے لکھوائے گا... مجھے کیا پتہ کہ کیا لکھنا ہے... وہ مجھے بتائے تو میں لکھوں... میں نہیں جانتا کہ کیا ہوا؟... وہ تو سب جانتا ہے کہ کیا ہوا... اس نے تو اپنی آنکھوں سے اس کربلا کو دیکھا... میں اسے کیسے بلائوں؟
میرے حلق سے آواز ہی نہیں نکل رہی‘ اگر آواز نکلے تو وہ ضرور آئے... کیونکہ وہ بڑا ہی فرمانبردار ہے... میری آواز پر فوراً لپکنے والا... ''جی بابا‘‘ کہنے والا... بابا قربان ہوتا اس پر... اگر وہ آواز دیتا اپنے بابا کو... مگر... اس کے حلق سے بھی آواز ہی نہیں نکلی... وہ خاموش ہو گیا... اپنی ماں پر اپنا خون گرنے کی وجہ سے... چپ کر گیا... اپنے بابا کی جدائی برداشت کر گیا... اپنی دھرتی ماں پر قربان ہو گیا... اللہ کی راہ میں... اللہ کی رضا سے... شہید ہو گیا... کھیلنے کے لیے چلا گیا... جنت کی گلیوں میں...
پیچھے زمین ان معصوموں کے خون سے سرخ ہے... انسانی آنکھ سے انسان کا ہی خون برداشت نہیں ہوتا... وہ جب دیکھتی ہے تو اِسے دھونے کے لیے اُس آنکھ میں پانی اتر آتا ہے... ہر انسانی آنکھ میں مسلسل پانی ہے... کیونکہ چاروں طرف خون ہے... ان دھندلی آنکھوں سے جو مناظر نظر آ رہے ہیں وہ غمزدہ چہروں کو حوصلہ بھی دے رہے ہیں... بیٹھتے دلوں کو سہارا دینے والا منظر تو یہ ہے کہ اس غم میں اپنے پرائے سب برابر کے شریک ہیں... جس سے معصوموں پر حملہ کرنے والے درندوں کو ایک پیغام تو ملا ہے کہ انسان آپس میں جتنا مرضی لڑیں‘ درندگی کے خلاف متحد ہیں... ایک جیسے جذبے کے ساتھ... کسی بابا نے کہا کہ ''یہ بزدلانہ حملہ ہمارے عزم اور ولولے میں دراڑ نہیں ڈال سکے گا‘‘... کسی باپ نے بتایا کہ ''دہشت گردوں نے ہمارے دل کو چھیڑا ہے‘ اب ان سے ہر طرح نمٹیں گے‘‘... تو کوئی ناراض والد خود چل کر غم میں شریک ہو گیا یہ کہتے ہوئے کہ اب مل کر مذمت سے آگے بڑھنا ہو گا...
اور شاید پہلی دفعہ ہر طرف سے ایک ہی آواز سنائی دی کہ اب اس خونی کھیل کو ختم ہونا چاہیے... ہر صورت... ہر قیمت پر...
اس خطرناک صورتحال میں ہمیں اب اپنی آنکھیں فوراً صاف کر لینی چاہئیں‘ دلوں کو مضبوط کرتے ہوئے دوست اور دشمن کی پہچان کرنی چاہیے... دشمن ہمارے اندر بھی موجود ہے اور وہ بیرونی دشمنوں سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہ بیرونی دشمنوں کو سہارا دیتے ہیں... یہاں پہنچ کر ہمارے اوپر حملہ آور ہونے میں ان کے مددگار ثابت ہوتے ہیں... انہیں قابو کرنا کوئی مشکل نہیں‘ بس اس کے لیے آنکھیں کھولنا ہوں گی اور جب ہم آنکھیں کھول لیں گے تو یہ درندے ہمارے قابو میں ہوں گے... یہ اکیلے حکمرانوں کے بس کی بات نہیں‘ اس ڈیوٹی میں ہر شخص کو شریک ہونا پڑے گا...
اور یاد رہے کہ اس ہولناک صورتحال میں سیاست چمکانے والے بھی اس ملک کے‘ ہمارے اور ہمارے بچوں کے دشمن ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں حکومت اور اپوزیشن کا اکٹھے بیٹھنا برداشت نہیں ہوتا‘ کسی بھی صورتحال میں... ایک دوسرے کو آپس میں لڑانا ہی ان کا مقصدِ حیات ہے... ان لوگوں پر بھی اب نظر رکھنا ہو گی... ان غیر ملکی ایجنڈوں پر کام کرنے والوں کا بھی ہمیں ہی محاسبہ کرنا ہو گا...
ملک کی تمام فورسز کے احترام اور قانون پر عملداری کے بغیر ہم اپنے آپ کو کسی صورت بھی محفوظ نہیں رکھ سکتے... کہ یہی ہمارے محافظ ہیں...
لاء اینڈ آرڈر کے ادارے اگر ملکی مفادات پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے رہے تو بات اُن کے بچوں تک بھی پہنچے گی... یاد رکھیے! جانتے بوجھتے اپنے بچوں کی حفاظت کو بیچنا اور کسی کے بچوں پر حملہ آور ہونا ایک جیسا سفاکانہ عمل ہے... کہ بچے تو سب کے سانجھے ہیں...
رہی بات حملہ آور درندوں کی تو انہیں یہ باور ہو جانا چاہیے کہ یہ قوم اس طرح کے بزدلانہ حملوں سے ڈرنے والی نہیں... اس دلیری کا اظہار‘ اس خوفناک حملے میں بچ جانے والا اُس اسکول کا اگر ایک بچہ بھی کرتا ہے تو یہ اُن حملہ آوروں کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ ہے...
ہم موت سے نہیں ڈرنے والے... ہمیں تو عشق ہے قربانی سے... ہم تو وہ ہیں جو ہزاروں سال پہلے اسماعیلی قربانی کی راہ میں رخنہ اندازی کی کوشش کرنے والے کو آج تک... آج تک سنگسار کر رہے ہیں...
اس رُندھی ہوئی آواز کے ساتھ اُن سب اقوام عالم کا بھی شکریہ جنہوں نے ہمارے بچوں کے اس بہشتی سفر پر ہمارے ساتھ مل کر انہیں الوداع کہا...
اور اب ڈاکٹر طاہر شہیر کی زبانی میرے شہید بچے کا ماں کے نام آخری پیغام...
سنو ماں! مجھے تم ڈانتی تھی ناں
میرا سب ناشتہ ویسے کا ویسا لوٹ آتا ہے
تمہارا لاڈلا کچھ بھی نہ کھاتا ہے
ٹفن میرا کبھی خالی نہیں ہوتا
ہمیشہ کھیلنے کو بھوک سے کرتا ہوں سمجھوتہ
ہمیشہ چیک کیا کرتی تھیں تم جونہی میں گھر آتا
تم اکثر روٹھ جاتی تھیں کہ میں اسکول میں کچھ بھی نہیں کھاتا
مگر اماں! تم اس کو آج دیکھو چیک نہیں کرنا...
میری غلطی نہیں اس میں کہ میں نے کچھ نہیں کھایا
میں کچھ کھا ہی نہیں پایا...
مجھے خوراک جو بننا تھا سب ان گولیوں کی جو میرے حصے میں آئی تھیں
مجھے اک بات بتلائو...
مجھے تم جھوٹ کہتی تھیں؟
کیا میں ننھا فرشتہ ہوں؟
فرشتوں سے تو کوئی یوں نہیں کرتا؟
فرشتے مارنے والوں کا اماں دل نہیں پھٹتا؟
کہ ان انسانیت کے قاتلوں کا دل نہیں بھرتا؟
مگر اماں یقین رکھنا
لہو میرا بہاریں کھینچ لائے گا
میری دھرتی کا جوبن لوٹ آئے گا
یہ دھرتی بھی تو ماں ہے
کیا ضروری ہے ہمیشہ والدہ قربان ہو بچوں پہ؟
میں نے اس روایت کو بدل ڈالا ہے اب‘ کہ ماں!
یہاں اولاد دھرتی ماں کی خاطر ہو گئی قرباں