الیکشن کا کاروبار رواں دواں ہے ۔ اس بازار میں اکثر ''حقِ رائے دہی ‘‘کی خرید و فروخت ہوتی ہے ‘ اور ہم یہ بچپن سے دیکھتے اور سُنتے چلے آ رہے ہیں۔ کُچھ عرصہ پہلے تک اس ما رکیٹ میں دکان دار اور خریدار دونوں ہی ''ٹانویں ٹانویں‘‘نظر آتے تھے ۔ اور اس کی دکانیں بھی کم تھیں۔ سخی لوگ تو حقدار کی جھولی میں ووٹ ڈال دیا کرتے تھے لیکن اکثر ''مفادات،تعلقات اوربرادری ازم ‘‘کے عوض لین دین ہوتا تھا۔ اب زیادہ تر ووٹ کے لئے نوٹ استعمال ہوتا ہے ۔ بالکل اُسی طرح جیسے پہلے نائیلون کے جوتے اور پُرانے لوہے پر پتیسہ مل جایا کرتا تھا مگر یہ رواج آہستہ آہستہ ختم ہوتا گیا۔ ادھر''نائیلون کے جوتوں اور پُرانے لوہے سے ‘‘ووٹوں کی خریدو فروخت بھی تقریباً بند ہو چُکی ہے ۔
اکثر علاقوں سے یہ خبر سننے کو ملی ہے کہ ''ہمارے علاقے کے ایک اُمید وار نے ووٹ خریدنے کے لئے سرِعام یوں پیسے لُٹائے جیسے شادی بیاہ میں دولہے کا نو دولتیا ماما‘ یا چاچا نوٹ لٹاتاہے ۔ دوسری طرف اکثر ووٹروں نے خودی سے نا آشنا بچوں کی طرح پیسے لوٹنے کے لئے گندی نالیوں میں بھی ہاتھ ڈالے ‘‘۔
ووٹ کی قیمت دو سے پانچ ہزار تک سننے کو ملی۔ تگڑے یا زیادہ افراد والے گھروں میں کہیں کہیں موٹر سائیکل بھی لے کر دیئے گئے ۔ ایسا ہی ایک آنکھوں دیکھا واقعہ کچھ یوں ہے کہ تحصیل ڈسکہ کے ایک حلقے میں گھر یلو رنجش کی وجہ سے چچا نے سگے بھتیجے کے مقابل اپنا ڈرائیور کھڑا کر دیا۔ اور مُحترم چچا نے اعلان فرما دیا کہ جس کے گھر میں دس ووٹ ہیں وہ آ کر موٹر سائیکل لے جائے ۔ غرضیکہ جگہ جگہ عوام اپنے مُقدر کا سودا کرتے ہوئے نظر آئے۔
اب تو ہمارے مقدر کے یہ اکثر خریدار خام مال کا ہی سودا کر لیتے ہیں یعنی تیار ووٹ خریدنے کے بجائے دو ٹوک رقم پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور یوں بیٹھتے ہیں جیسے اچار کھانے کے بعد پانی پینے سے ایک دم گلا بیٹھتا ہے۔
اُمیدوں،خواہشوں اور ضرورتوں کا درخت بہت پھیل چُکا ہے۔ کئی موسم گزرنے کے باوجود اس پر پھل نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ وجہ صاف دکھائی دیتی ہے ۔ ہر شخص جانے یا انجانے میں اس درخت کی آبیاری میں کسی نہ کسی طرح کرپشن کا زہر ملاتا چلا جا رہا ہے ۔ جس کی ابتدا ہر الیکشن سے ہوتی ہے اور پھر چل سو چل ... کب خوشحالی آئے گی ؟... کیسے وطنِ عزیز ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا ؟ ...کیا حالات سُدھریں گے ؟... کون قرضوں کی بھیک سے ہماری جان چُھڑاے گا ؟... یہ وطن خزانوں اور نعمتوں سے مالا مال ہے ...یہ دھرتی قُدرتی وسائل سے بھری پڑی ہے ...یہاں کی فِضا سے کائنات کا ہر موسم بغل گیر ہوتا ہے ... اس زمین پر اُگنے والے پھل مُنفرد خوشبو اور بھر پور مِٹھاس سے بھرے پڑے ہیں ...یہاں کے انسان کو طاقت ور ترین اناج مُیسر ہے ... تو پھر کیوں ؟ ... کیوں اس ملک کی اسی فیصد آبادی غُربت اور یاسیت کی چکی میں پس رہی ہے ؟... اس لیے کہ ان نعمتوں کی حفاظت ، افزائش اور تقسیم پر اکثر بے ایمان لوگ تعینات رہے ہیں ... !
مکھیاں اگر مٹھائی پر بیٹھیں تو قصور مکھیوں کا نہیں بلکہ اُس شخص کا ہوتا ہے جو مٹھائی کو ڈھانپ کر نہیں رکھتا۔ اس قوم کی زندگی میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو مکھی کا سا مزاج رکھتے ہیں ۔خدا کی دی ہوئی نعمتوں کا ستیاناس کرنے والے لوگ ...بات اِنہی تک رہتی تو گُزارہ ممکن تھا ‘لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم سب مل جل کر ان مکھی صفت لوگوں کو مٹھائی پر بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ مکھی صفت اقتدار کو ایک مُقدس ذمہ داری نہیں بلکہ مٹھائی سمجھتے ہیں۔ یہی لوگ کسی نہ کسی طور سیاست اور حکومت کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں ... معمولی عُہدوں سے لے کر اہم سیٹوں تک کے خریدار... اور پھر عوام کا خون بیچ کر رقم اکٹھی کرنے والے ... یہی ملت کا مقدر بدلنے میں رکاوٹ ہیں جو ہمارے ہی ووٹوں سے اقتدار کے ایوانوں میں گُھس جاتے ہیں ... انہیں ہم نے ہی روکنا ہے۔ ہم نے ہی اپنے وطن کا مقدر بدلنا ہے... اپنے حقِ رائے دہی کے جائز استعمال سے... اس کا خواب دیکھنے والے نے تو اس کی تعبیر پوری کرنے کا نُسخہ بتا دیا تھا کہ ؎
افراد کے ہاتھو ں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ