"SAC" (space) message & send to 7575

کہانی گئی مُک تے کِلّا گیا ٹُھک!

بچپن میں ہمارے بڑے ہمیں بہلانے کے لئے کہانی سنایا کرتے تھے یا کوئی خیالی کہانی گھڑی جاتی تھی‘ ہم کھلی آنکھوں سے سننا شروع کردیتے۔ہمارے اوپر غنودگی طاری ہونے تک اس کہانی کو طول دیا جاتا اور جب آنکھیں مکمل بندہو جاتیں تو کہانی سنانے والا ان الفاظ پر ختم کرتا ''کہانی گئی مُک تے کِلا گیا ٹُھک‘‘۔
وطنِ عزیز میں ہر چند سال کے بعد یہ ''کہانی ڈالی جاتی‘‘ ہے۔اپنے اپنے علاقے کے ''بڑے‘‘عوام کو الیکشن کمپئین کے نام پر خیالی کہانی سنانا شروع کرتے ہیں۔ عوام کی آنکھیں بند ہونے تک اس کہانی کو طول دیا جاتا ہے اور پھر عوام کی آنکھیں بند ہو نے کے بعد دماغوں میں ِکلاّ ٹھونک دیا جاتا ہے‘ ایسا کِلّا کہ جس کی وجہ سے اگلے الیکشنوں تک آنکھیں بند ہی رہتی ہیں۔ یہ عجیب کہانی ہے۔ اس سے عوام کی آنکھیں تو بند ہو جاتی ہیں مگر ''خواص‘‘کی کھل جاتی ہیں۔ عوام کو اپنے ساتھ ہونے والا برا سلوک نظر آنا بند ہو جاتا ہے اور ''خواص‘‘کو اپنا مطلوبہ مقصد ''اچھا‘‘نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ عوام کی آنکھیں کھلتے ہی....پھر الیکشن... پھر کہانی.... پھر کِلّا...
مجموعی طور پر بلدیاتی الیکشن میں منتخب ہونے والے لیڈران کو دیکھیں تو بآسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا انتخاب کرتے ہوئے ہماری آنکھیں واقعی بند ہوتی ہیں۔ ان لیڈران میں صادق و امین تو ناممکن ، ملک و قوم سے محبت کرنے والوں کی تعداد بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ ستم بالائے ستم‘ ان فاتحین میں چور ، ڈاکو اور قبضہ گروپوں کے ایسے لوگ بھی سامنے آتے ہیں جو اپنی انہی کالی کرتوتوں کی وجہ سے تھانے کچہریاں بھگت چکے ہوتے ہیں ۔ایسے کئی لوگوں کی نشاندہی میڈیا نے ان پر فتح کے پھولوں کی بارش ہوتے ہوئے کی۔ 
ایک طرف عوام کی اس قدر کمزور سیاسی بصیرت اور دوسری طرف ہم روزانہ ہر محلے‘ ہر گلی اور ہر تھڑے پر سیاسی ورکشاپیں کھلی ہوئی دیکھتے ہیں ۔ان ورکشاپوں کے مستری ایسے ''اُستاد‘‘ ہیںکہ ہر ایک نے بڑی سے بڑی گاڑی کھڑی کی ہوتی ہے۔ کوئی زرداری کا بونٹ کھول کر ورکشاپ کے چھوٹوں کو لیکچر دے رہا ہوتا ہے اور کوئی ''اُستاد‘‘ نواز شریف کو جیک لگا کر نیچے گھسا ہوتاہے۔ کسی ورکشاپ میں عمران خان کی ''ڈینٹنگ پینٹنگ‘‘ ہو رہی ہوتی ہے اور کسی استاد کے ہتھے ق لیگ ''ہائیبرڈ‘‘ (جو پٹرول کے ساتھ ساتھ بیٹری پر بھی چل لیتی ہے ) چڑھی ہوتی ہے۔ کسی کے پاس پانچ منٹ کھڑے ہونے پر یہ یقین ہو جاتا ہے کہ اس سے سیانا کاریگر شہر میں کوئی دوسرا نہیں....اگلی ورکشاپ میں پہنچیں تو اس کا مستری ذہین اور پچھلا بیوقوف لگنے لگتا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک ''سیاسی مستری‘‘ ہیں ہم....مگر افسوس کہ عین موقع پر ہمارے ''شعور کے ٹول باکس‘‘ میں سے اِن گاڑیوں کو صرف ''نمبر پلیٹ‘‘ لگانے کے لئے ٹھیک نمبر کی چابی نہیں نکلتی..... اگر چابی صحیح نکل آئے تو ہم نمبر پلیٹ غلط لگا بیٹھتے ہیں....جب غلط نمبر یا بغیر پلیٹ کے گاڑی ''سارجنٹ‘‘کے ہتھے چڑھ جائے تو وہ سڑک سے نیچے اتار لیتا ہے.... اور بحث شروع کر دیتے ہیں (''سارجنٹ‘‘ کے ساتھ نہیں،گاڑی میں بیٹھی ہوئی سواریوں کے ساتھ).... پھر سفر رک جاتا ہے، پھر منزل دور ہو جاتی ہے۔
کیا ایسی لا حاصل بحث سے ہم اپنا سفر جاری رکھ پائیں گے؟ کیا جو مسافر اپنے اپنے سفر پر رواں دواں ہیں یا پھر ٹھکانوں تک پہنچ چکے ہیں ‘ ہم ان سے کچھ سیکھیں گے؟
فرمانِ علی ؓہے کہ '' خاموش رہنے والا پاتا ہے‘ بولنے والا کھو دیتا ہے‘‘۔اور خاص طور پر سیاسی بحث مباحثے میڈیا کا کام ہوا کرتا ہے‘ عوام کا نہیں۔ ذرا غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر ترقی یافتہ قوم عام زندگی میں کس قدر خاموش ہے اور ہم لوگ سڑک پر اکیلے جا رہے ہوں تو اونچے سُروں میں گانا شروع کر دیتے ہیں ، گا نہ سکیں تو بے سُرے ہارن بجانے لگتے ہیں۔
ترقی کے لئے خاموشی اختیار کرنی پڑے گی۔ اپنے اپنے سیاسی شعور کو سینوں میں بند رکھنا پڑے گا اور اس کے اظہار کے لئے الیکشن کا انتظار کرنا پڑے گا، پھر ووٹ ڈالتے ہوئے اپنے اپنے ذہنوں کو ذاتی مفادات ،فرقہ پرستی اور برادری ازم کی زنجیروں سے آزاد کرنا پڑے گا۔ ہم وقت سے پہلے ایک دوسرے کو ملکی ترقی کی منزل کے راستے سمجھا رہے ہوتے ہیں اور گاڑی پر چڑھنے کے لئے عین اسٹیشن پر کھڑے ملکی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات کا ٹکٹ لے لیتے ہیں۔ ہمیں اپنی ذہنی حالت سڑکوں پر بھی نظر آتی ہے، ہم کسی ٹریفک سگنل پر رکنا نہیں چاہتے‘ اگر رک جائیں تو بے چین ہو رہے ہوتے ہیں ‘رفتار کی حدیں پھلانگتے ہوئے ہر شخص ایسے جا رہا ہوتا ہے جیسے کسی ہسپتال میں مریض کو خون دینے پہنچنا ہے لیکن یہی لوگ سیدھا گھر پہنچ کر چارپائی پر ایسے گرتے ہیں جیسے موٹر سائیکل کندھوں پر اٹھا کر پیدل آئے ہوں!
تقریروں سے تبدیلی نہیں آئے گی اور نہ ہی دھرنے،جلسے جلوس کچھ بدلیں گے۔ تبدیلی کے لئے ہمیں اپنے آپ کو تبدیل کرنا پڑے گا... ''جیسی قوم ہو گی ویسے ہی حکمران ہوں گے"۔ ان بلدیاتی نمائندوں نے بھی وہی کچھ کرنا ہے جو دیگر پچھلے پینسٹھ سالوں سے کرتے چلے آ رہے ہیں یعنی ماموں ، چاچوں ، چیلوں ، چمچوں کو نالیوں ، گلیوں اور سڑکوں کے ٹھیکے دئیے جائیں گے‘ چار پیسے کمائیں گے .... اللہ اللہ خیر سلا:
اگلے کُٹی جان فقیرا پچھلے پُٹی جاندے نیں
کُٹن پُٹن والے دونویں موجاں لُٹی جاندے نیں 
بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے یہ نظم پچاس سال پہلے لکھی تھی اور آج بھی صورتحال ایسی ہی ہے‘ پہلے قوم کوسدھرنا پڑے گا... ورنہ پھر الیکشن.... پھر کہانی....پھر کِلّا.... 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں