گائوں کے ایک مولوی صاحب نے اپنے جمعہ کے خطاب میں حاضرین کو چوری کے خلاف بڑا زبردست درس دیا اور بتایا کہ چوری حرام ہے اور ایک بڑا گْناہ ہے۔ کوئی ایک گھنٹے کی تقریر کر کے موصوف جب گھر پہنچے تو بیگم سے کھانے کی فرمائش کی۔ بیگم نے کھانا پیش کیا تو مولوی صاحب پلیٹ میں مْرغی کا سالن دیکھ کر کہنے لگے ''میں نے تو تمہیں اتنے پیسے نہیں دیے تھے کہ مْرغی پکائی جا سکے، یہ کیسے پکی؟‘‘ بیگم بولی: ''کسی محلے دار کی مْرغی خود ہی ہمارے صحن میں آ گْھسی تھی میں نے پکڑ کے پکا لی‘‘۔ یہ سن کر مولوی صاحب غْصے میں آ گئے اور چیخ کر بولے: ''تم نے چوری کی مْرغی پکائی ہے، بدبخت شرم نہیں آئی تمہیں چوری کرتے ہوئے، ابھی میں لوگوں کو چوری نہ کرنے کا درس دے کر آیا ہوں اور آگے میرے ہی گھر میں حرام مْرغی پکی ہوئی ہے، اٹھا لو اسے میں نہیں کھائوں گا یہ چوری کا مال‘‘۔ بیوی ڈرتے ڈرتے کھانا اْٹھا کر لے گئی۔ مولوی صاحب نے رومال کندھے سے اتار کر چارپائی پر پٹخا اور لیٹ گئے۔ کچھ دیر بعد جب بھوک نے زور پکڑا تو سرکار کے پیٹ میں ان کے غصے سے دبک کر بیٹھے ہوئے چوہوں نے اٹھ کر ناچنا شروع کر دیا۔ مولوی صاحب کو ''ناچ گانے‘‘ سے بھی سخت نفرت تھی‘ فوراً چوہوں کے رقص کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے‘ اور بیگم کو آواز دی، بیگم صاحبہ حاضر ہوئیں تو فرمایا کہ ''ہنڈیا میں جو نمک مرچ اور لہسن پیاز ڈالا تھا وہ تو اپنے گھر کا تھا ناں؟‘‘ بیگم نے بتایا: ''جی ہاں وہ تو ہمارا اپنا تھا‘‘... کہنے لگے: ''چلو پھر بوٹی مت ڈالنا، مجھے شوربے کے ساتھ روٹی دے دو‘‘... بیگم نے کانپتے ہاتھوں سے ہنڈیا اْٹھائی اور پلیٹ میں شوربہ ڈالنے کی کوشش کرنے لگی۔ اچانک ایک بوٹی بھی پلیٹ میں گِر گئی۔ بیگم گھبرا کر پلیٹ سے بوٹی اْٹھانے لگی تو مولوی صاحب یک دم بولے: ''جو خود آتی ہے اْسے آنے دو‘‘...
ہمارے ہاں اوّل تو اب کْرسیوں پر براجمان لوگوں میں ایمانداری نظر نہیں آتی‘ اگر کْچھ ایماندار ہیں تو ان میں زیادہ تر ''مولوی مْرغی خور‘‘ جیسے ہیں۔ عوام بھی اس کی اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اکثر دفاتر میں اب ''مْرغی‘‘ خود ہی گْھس جاتی ہے، اور وہ حلال ہی سمجھی جاتی ہے، اسے کھانے میں شرمندگی محسوس نہیں کی جاتی اور یہ اکثر معروف ایمان دار افسروں کا بھی وتیرہ بن چکا ہے۔ بلکہ یوں کہئے کہ ایسے لوگ اب ''شْرفا‘‘ کی فہرست میں ہی گِنے جاتے ہیں... مکمل ایمان دار‘ جو مْرغی اندر گْھسنے ہی نہیں دیتا‘ اسے تو اب پاگلوں میں شمار کیا جاتا ہے اور وہ اپنے ساتھیوں کے غْصے اور مذاق کا شِکار بھی ہوتا ہے...
مْعاشرے میں گْناہ یا غلطی کا پھیلنا زوال کا باعث نہیں بنتا؛ البتہ گْناہ کو گْناہ نہ سمجھنا زوال کا سبب بنتا ہے۔ ہمارے ہاں ہر طرف غلط کو صحیح ثابت کرنے کے لئے پْرزور بحث مباحثے جاری ہیں بلکہ اس کام کے لئے اب ہم سب اکٹھے ہو جاتے ہیں، اس کا مْظاہرہ آج کل سیاسی حلقوں میں نمایاں ہے کہ اِکّا دْکّا چھوڑ تمام سیاسی پارٹیاں کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف کارروائی کرنے والی اسٹیبلشمنٹ اور نیب کے سامنے کھڑا ہونے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ہوبہو یہی صورت حال عوام کی ہے، معاملہ بینکاری کا ہو یا نجکاری کا، ٹیکس کی ادائیگی ہو یا بجلی اور گیس کی چوری چکاری... جو ''مْرغی‘‘ ہمارے گھر میں داخل ہو جائے ہم اسے مْکمل اپنی ملکیت جانتے ہیں، اسے حلال سمجھ کر ہڑپ کر جاتے ہیں۔ رشوت کا بازار ایک عرصہ سے اس قدر گرم ہے کہ اب عوام اس ''مولوی‘‘ پر اعتبار ہی نہیں کرتے جو ''مْرغی خور‘‘ نہ ہو... لوگ ''مْرغی‘‘ دے کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔
چند سالوں میں ''کوڑیوں‘‘ سے ''کروڑوں‘‘ کے مالک بننے والے حساب دینے کے لئے تیار نہیں۔ گھر سے اربوں روپے برآمد ہونے کی وجہ سے فرار ہونے والے عوام پر اپنے ''بے گھر‘‘ ہونے کا احسان چڑھا رہے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بڑے بڑے بیوروکریٹ گھر پر آرام کرنے کی بجائے اپنی ''شرافت‘‘ کی وجہ سے ''انگریزی سڑکوں‘‘ پر کھجل ہو رہے ہیں...
اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے والے اِن لوگوں میں اکثریت اْن کی ہے جو کہتے ہیں کہ ''جو بوٹی خود آتی ہے اسے آنے دو‘‘... مگر دنیا میں تو شاید ہم مل جْل کر اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کر لیں گے، وہاں کیا ہو گا جہاں ہمارے ہاتھ، پاؤں‘ آنکھیں‘ پیٹ اور زبان خود بول اٹھیں گے کہ ''مرغی چوری کی تھی‘‘۔