''میں اُسے جب بھی کہتی کہ موبی ناں جذباتی ہوا کر، وہ کہتا کہ امی آپ گھبرایا نہ کریں، موت کا ایک دن مقرر ہے، وہ تو آنی ہے اور مقررہ وقت پر ہی آنی ہے پھر ڈرنا کس بات کا۔۔۔۔۔ موبی میرے پاس تیرے علاوہ ہے کیا ۔۔۔۔امی آپ بس میرے لئے دُعا مانگا کریں۔۔۔۔۔ میرے بچے! میں اپنے رب سے جو مانگتی ہوں وہ صرف تیرے لئے مانگتی ہوں، میں نے تو اپنے لئے بھی مانگنا چھوڑ دیا ہے۔۔۔۔۔ بس آپ پھر گھبرایا نہ کریں۔۔۔۔۔ بیٹا تُو میرا اکلوتا ہے۔۔۔۔۔ امی ایک ہوں یا چار اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ۔۔۔۔۔ یہ جو روزانہ سڑکوں پر مر رہے ہیں یہ بھی تو کسی کے بچے ہیں ناں۔۔۔۔۔ہاں بیٹا، مگر دیکھ ، تیرے بچے ابھی چھوٹے ہیں۔۔۔۔۔امی! آپ ان کے پاس ہیں ناں۔۔۔۔۔ یہی کیا اس نے ، مجھے ان کے پاس چھوڑ کر چلا گیا۔۔۔۔۔‘‘
'' میں اس کے تینوں بچوں کو خود اسکول کالج چھوڑ کر آتی۔۔۔۔۔ سب سے پہلے سب سے چھوٹی کو اسکول اتارتی، پھر سب سے بڑی کو کالج اور پھر درمیان والی کو اسکول۔۔۔۔۔کہتا کہ امی آپ کیوں تکلیف کرتی ہیں، ڈرائیور ہے ناں، وہ خود چھوڑ آئے گا، خود لے آئے گا۔۔۔۔۔ میں کہتی کہ نہیں بیٹا، بیٹیاں ہیں، میں خود جاؤں گی۔۔۔۔۔امی پھر وہی بات۔۔۔۔۔اچھا مُجھ سے قسم اٹھوا لے، میں گاڑی میں بیٹھی رہوں گی، نیچے نہیں اُتروں گی۔۔۔۔۔‘‘
گھر کا سودا سلف بھی میں خود لاتی۔۔۔۔۔امی یہ نوکر کس لئے ہیں، آپ خود سبزی لینے چلی جاتی ہیں۔۔۔۔۔ بیٹا تیرے حلال کے پیسے ہیں، میں خود جاتی ہوں تو کتنے بچا کے لاتی ہوں۔۔۔۔۔امی آپ جاتی ہیں تو مُجھے تکلیف ہوتی ہے۔۔۔۔۔ اب اس نے یہ نا سوچا کہ اس کے جانے سے اس کی ماں کو کتنی تکلیف ہو گی۔۔۔۔۔‘‘
'' چلا تو گیا، مگر کمال کر گیا، اپنا نام سُنہرے حروف میں لکھ گیا۔۔۔۔۔اس نے ایسے ہی جانا تھا۔۔۔۔۔ بڑا جذباتی تھا، وہ تھوڑے وقت میں بہت کُچھ کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔ایک ہاتھ سے کھانا کھاتا اور دوسرے ہاتھ سے فون کان کو لگائے کسی نا کسی کا کام کروا رہا ہوتا۔۔۔۔۔ موبی خُدا کے لئے کھانا تو آرام سے کھا لے۔۔۔۔۔امی کھا رہا ہوں، اگر ساتھ کسی بے چارے کا کام بھی ہو جائے تو کیا بُرا ہے۔۔۔۔۔ دیکھا! جاتے جاتے بھی کتنا بڑا کام کر گیا۔۔۔۔۔ پوری دُنیا کو اپنی پہچان کروا گیا۔۔۔۔۔‘‘
اور سچی بات ہے، مُجھے بھی یہ پہچان ان کی باتیں سُن کر ہوئی کہ جو لوگ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں، ان کی مائیں کتنی کشادہ دل اور بڑے جگرے والی ہوتی ہیں۔ یہ نظارہ میں نے چند دن پہلے اس وقت دیکھا جب میں ڈی آئی جی کیپٹن (ر) مُبین شہید کی والدہ کو پُرسا دینے کے لئے گیا۔ مُجھے یہ احساس ہوا کہ شہید کے گھر میں ماتم نہیں جشن ہوتا ہے۔ جب بھی ماں جی کا آنسو ٹپکا، آنکھ میں جگمگ کرتی روشنی کسی جشن کا منظر پیش کرنے لگی۔۔۔۔۔ جنت میں جشن۔۔۔۔۔!
جب تک نہ جلے دیپ شہیدوں کے لہو سے
کہتے ہیں جنت میں چراغاں نہیں ہوتا
ماں جی کے ماتھے پر سجا ہوا فخر دیدنی تھا۔ ان کا لب و لہجہ دشمن کے لئے شکست فاش کا اعلان تھا۔ میں افسوس کے لئے گیا مگر شہید کی ماں نے مُجھے اپنی خوشی میں شامل کر لیا۔۔۔۔۔!
'' چھوٹی سی عُمر میں ہی مُجھے بہت ساری خوشیاں دے گیا۔۔۔۔۔ میرا بہت خیال رکھا اس نے۔۔۔۔۔ میری اگر طبیعت خراب ہوتی تو گھر سے باہر نہ جاتا۔۔۔۔۔امی انجکشن لگوا لیں پھر آپ جلدی ٹھیک ہو جائیں گی، میں پھر سکون سے باہر جاؤں گا۔۔۔۔۔ وہ جس شان سے گیا مُجھے سکون ہے، یاد تو آتا ہے مگر اس کی فرض شناسی غم کو کو اندر ہی کُچل دیتی ہے۔۔۔۔۔ دُکھ میرے سامنے سر نہیں اُٹھا سکتا، اسے میرے بیٹے کی جُرأت اور بہادری کا اندازہ ہے، اور سب کو معلوم ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہے۔۔۔۔۔‘‘
ایک عرصے سے آئے دن وطنِ عزیز میں ایسے واقعات پیش آرہے ہیں کہ دل دہل جاتا ہے۔ ہر پاکستانی کی طرح میں بھی روزانہ مرتا اور روزانہ جیتا، مگر۔۔۔اب نہیں۔۔۔۔۔اب میں ایک شہید کی ماں سے مل آیا ہوں، اب میرے لئے پاکستان میں زندگی ہی زندگی ہے، کیونکہ ماں جی نے جو آخری فیصلہ سُنایا وہ کچھ یوں تھا: '' پاکستان کی زندگی کے لئے سو مُبین بھی قربان!‘‘
'' وہ مُبین کی نہیں پاکستان کی ماں ہے‘‘!