"SAC" (space) message & send to 7575

’’سیٹھ ....یا..... سیٹھی‘‘

''ڈاکٹروں کی ہڑتال، ہسپتال کا گیٹ بند ہونے کی وجہ سے بچہ باپ کی گود میں دم توڑ گیا‘‘۔۔۔۔ ''کھُلے مین ہول میں گرنے والا تین سالہ بچہ ہلاک‘‘۔۔۔۔ بیڈ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے خاتون ہسپتال کے فرش پر ہی دم توڑ گئی‘‘۔۔۔۔۔ ''تیسرے روز بھی گندے نالے میں گرنے والے دو بچوں کی لاشیں نہ مل سکیں، غم زدہ ماں پر مسلسل غشی کے دورے‘‘۔۔۔۔۔''ریلوے لائن عبور کرتے ہوئے ٹرین نے رکشہ کچل ڈالا، رکشہ ڈرائیور سمیت نو معصوم طالب علم ہلاک‘‘۔۔۔۔۔ ''گگو منڈی میں پینے کے گندے پانی کی وجہ سے ہزاروں لوگ ہیپاٹائیٹس میں مُبتلا‘‘۔۔۔۔۔ اور کئی ایک روزانہ ایسی سینہ چیر دینے والی خبریں۔ 
مگر انہیں سن کر نہ کوئی حاکم اپنے محل سے نکل کر اس وارڈ میں پہنچا جہاں ایک ایک بستر پر تین تین مریض کسی مسیحا کی نظر کرم کا انتظار کر رہے ہیں نہ کوئی بابو اپنے ایئرکنڈیشنڈ دفتر سے اٹھ کر دور دراز گائوں کے ان درختوں کے پاس گیا جس کے نیچے بیٹھے غریبوں کے بچے کتابیں کھول کر سبق کی بجائے اپنے ان ساتھیوں کو یاد کر رہے ہیں جو چند دن پہلے سکول کی گرنے والی دیوار کے نیچے آ کر جاں بحق ہو گئے۔ کرکٹ کی بحالی کے لئے اس طرح ہزاروں کی تعداد میں دن رات ایک کرنے والے حکومتی اہلکاروں نے کیا کبھی انسانی جانوں کے بچائو کے لئے ایسی بھاگ دوڑ کی۔۔۔۔ سٹیڈیم کے گرد بار بار چکر لگانے والے اعلیٰ خادم نے کبھی اس طرح ساٹھ ستّر گاڑیوں کے ساتھ ہسپتالوں اور درسگاہوں کے لئے سڑکیں ناپیں۔۔۔۔۔ کیا راولپنڈی کا کوئی شیخ غریب کے دوا دارو کے لئے اس جذبے کے ساتھ لاہور پہنچا جو جذبہ وہ کسی ٹیلی وژن کی رنگینیوں میں بیٹھ کر دکھاتا ہے؟۔۔۔۔کیا اس قوم کی ساری کی ساری عزت کرکٹ کی بحالی میں پنہاں ہے؟۔۔۔۔کیا کرکٹ کی بحالی، قرض سے اس ملک کی جان چھُڑوا دے گی؟ کیا ہم نے لاہور میں فائنل کروا کر دہشت گردی کے دروازے بند کر دیے ہیں ؟ کرکٹ کو پاکستان کی بقا کی جنگ کہنے والوں نے پاکستان کو کرپشن جیسے کینسر سے پاک کر دیا ہے؟
کاش نجم سیٹھی کے حُکم پر حاضر، ہزاروں حکومتی کارندوں میں سے کسی ایک میں سیٹھی صاحب سے اتنے سالوں پر مُحیط ان کے ''کرکٹ راج‘‘ کا حساب مانگنے کی جُرأت ہوتی۔۔۔۔ کاش کوئی پوچھتا کہ حُضور بتائیے تو سہی کہ آپ کے راج میں کرکٹ نے ملک کو کون سے چار چاند لگا دیے؟ بلکہ ہر ٹورنامنٹ میں آپ کے چار چاند کوئی نا کوئی چن چڑھاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ کسی کی ''ذاتی تگ و دو‘‘ سے کوئی لینا دینا نہیں، نہ ''تگ‘‘ سے اور نہ ''دو‘‘ سے مگر مُلکی لوٹ کھسوٹ پر دل خون کے آنسو روتا 
ہے۔۔۔۔ یعنی کس قدر پردہ پوشی سے لوگوں کو بے وقوف بنایا گیا۔۔۔۔ ذاتی کاروبار کو دہشت گردی کا جواب کہہ دیا گیا۔۔۔ ۔پی سی ایل کے نام پر ایک پرائیویٹ کمپنی بنائی گئی جس کے چیف ایگزیکٹو مُحترم سیٹھی صاحب ہیں اور پھر مختلف لوگوں کو اس کی فرنچائز بیچی گئیں۔۔۔۔۔ تمام میچوں کی آمدنی ان لوگوں کی جیب میں اور کروڑوں کی سکیورٹی کا خرچہ سرکاری خزانے سے۔۔۔۔۔!
آسٹریا کے وزیر اعظم سعودی عرب کے دورے پر تھے، ایک نمائش میں عربی گھوڑے کی تعریف کر بیٹھے، دورہ ختم کر کے واپسی کے لئے ایئرپورٹ پہنچے، الوداع کہنے والے ایک ''قطری‘‘ نہیں عربی شہزادے نے وزیر اعظم کو ایئرپورٹ پر کھڑے کنٹینر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں آپ کے پسندیدہ عربی نسل کے پانچ گھوڑے ہیں جو آپ کے ساتھ جائیںگے۔ وزیراعظم آسٹریا نے کہا ''شہزادیو‘‘ میں تو کمرشل فلائٹ میں آیا ہوں، میں آپ کے اس تُحفے کو کیسے لے جائوں گا؟ صاحب عالم نے دور کھڑے دوسرے طیارے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، یہ گھوڑے اس میں آپ کے ہاں پہنچ جائیں گے، آپ بے فکر ہو کر جائیے۔ وزیر اعظم راستے میں
چند گھنٹوں کے ایک ٹھہرائو کے بعد اپنے وطن پہنچے، استقبال کرنے والے ان کے اکلوتے سیکرٹری نے بتایا: ''سرآپ کے نام پر پانچ گھوڑے آئے ہیں‘‘۔ وزیراعظم نے گھوڑوں کا ''تعارف‘‘کروایا۔ ''اوکے سر، مگر ان گھوڑوں کو آئے ہوئے سات آٹھ گھنٹے گزر چُکے ہیں اور یہ ابھی تک بھوکے ہیں، انہیں کچھ نہیں کھلایا گیا‘‘۔۔۔۔ ''کیوں؟۔۔۔۔''جناب کس کھاتے میں کھلائیں؟‘‘۔۔۔۔۔'' ارے میاں یہ سرکاری تحفہ ہے میرا ذاتی تو نہیں!‘‘۔۔۔۔۔''جناب سرکاری تُحفے پر کچھ خرچ کرنا بھی آپ کے اختیار میں نہیں، میں قانون دیکھ چُکا ہوں ، اس کے لیے پارلیمنٹ سے اجازت لینی پڑے گی‘‘۔۔۔۔''چلو پارلیمنٹ میں بھیج دو یہ مسئلہ، مگر اتنی دیر یہ بیچارے بھوکے رہیں گے‘‘۔۔۔۔۔''سر میں قانون پوچھتا ہوں‘‘۔۔۔۔۔''پوچھو‘‘۔۔۔۔۔''سر! مُبارک ہو، آپ کے پاس چوبیس گھنٹے کے لیے حکم کرنے کا جُز وقتی اختیار ہے‘‘۔۔۔۔۔۔''او کے ، جلدی سے ان کو چارا ڈالو اور یہ مسئلہ فوراً پارلیمنٹ میں اٹھائو‘‘۔ اگلے دن پارلیمنٹ میں بحث ہوئی۔''ایسے سرکاری تحفے کا کیا کرنا جس پر عوام کا پیسہ خرچ ہو‘‘۔۔۔۔''وزیراعظم نے اسے کیوں قبول کیا؟‘‘۔۔۔۔۔''تحفے سے انکار بداخلاقی ہے‘‘۔۔۔۔۔''عوام کا پیسہ سرکاری تحفے پر لگانا جُرم ہے‘‘۔۔۔۔''مسئلے کا حل کیا ہے؟‘‘۔۔۔۔۔''ایک صورت میں سرکاری خزانے سے ان پر پیسہ خرچ کیا جا سکتا ہے کہ ان سے عوام کا فائدہ ہو‘‘۔۔۔۔۔ زندہ قوم کا فیصلہ سن لیجیے۔ ان گھوڑوں کو محکمہ پولیس کے حوالے کر دیا گیا اور پولیس کے جوان ان پر سوار ہو کر اپنی عوام کی خدمت کے لیے چل نکلے! 
عمران خان کے تحفظات میں ذرّہ برابر بھی ابہام نہیں کہ اس قدر مُشکل حالات پیدا کرکے ، کثیر سرمائے سے ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کی بھاگ دوڑ کے بعد ایک پرائیویٹ کمپنی کا سطحی میچ کروانا کیا جُرم نہیں؟ کیا ایک صوبے کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ایک پرائیویٹ کمپنی کے سربراہ کے کہنے پر چند سیٹھوں کے لئے اتنا لمبا چوڑا بجٹ خرچ دے، اس کا احتساب ہونا چاہیے، یا پھر حاکم وقت کو اعلان کرنا چاہیے ''یہ ملک یا سیٹھوں کا ہے یا سیٹھیوں کا ‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں