پولیو اور علمائے اسلام کی رائے

دنیا بھر میں مسلمان اس وقت جن مصائب کا شکار ہیں ان میں پولیو کا مرض بھی شامل ہے۔ یہ بھی ایک مصیبت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ پوری دنیا میں صرف تین اسلامی ممالک ایسے ہیں جن میں یہ مرض اب تک باقی ہے۔ ایک زمانے میں یہ مرض دنیا کے مختلف ممالک میں پایا جاتا تھا جن میں امریکہ، برطانیہ، یورپی ممالک اور ہندوستان بھی شامل ہیں لیکن ان ممالک نے اس مرض پر قابو پانے کے لیے دن رات تگ و دو کی اور آج اس مرض سے پاک ہو چکے ہیں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان، افغانستان اور نائجیریا میں یہ مرض ابھی بھی باقی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) اور یونیسف (UNICEF) جیسے ادارے اس مرض کے خاتمے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اسی مقصد کے تحت بچوں کو ویکسین دی جاتی ہے۔ علمائے اسلام بھی اس کام میں ان کی معاونت کر رہے ہیں لیکن بعض عناصر جہالت کی وجہ سے یا کسی اور مقصد کے تحت ان کوششوں میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ دوا لینے کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات بڑی واضح ہیں اور پولیو ایک ایسا مرض ہے کہ اگر ایک بار لاحق ہوجائے تو پھر اس کا علاج ممکن نہیں رہتا۔ اللہ کریم نے قرآن پاک میں بھی کہا ہے کہ اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے ہلاک نہ کرو۔ ان حالات میں جبکہ یہ معلوم ہو کہ اگر ہم نے دوا نہ دی تو ہمارا بچہ ایسے مرض کا شکار ہو جائے گا جس سے وہ ساری عمر معذوری کی زندگی گزارے گا‘ اس کو دوا نہ دینا‘ اس کو ویکسین کے قطرے نہ پلانا شرعی، قانونی اور اخلاقی طور پر درست نہیں ہے۔ بعض مسلم ممالک میں پیدا ہونے والی اس صورتحال پر عالم اسلام کی عظیم یونیورسٹی جامعہ الازہر کے شیخ نے کہا‘ اب ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ: ’’ہم نے ذہنی اور جسمانی طور پر ایک صحت مند امت بننا ہے یا ذہنی اور جسمانی لحاظ سے معذور امت‘‘۔ جو لوگ بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلانے دیتے ان کو بھی اس بات پر غور کرنا چاہیے۔ جہاں تک اس اشکال کا تعلق ہے کہ اس میں کچھ حرام مادے استعمال ہوتے ہیں تو قاہرہ (مصر) میں چھ‘ سات مارچ کو ہونے والی عالم اسلام کی علماء کانفرنس میں دارالعلوم حقانیہ کے مہتمم اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا سمیع الحق، راقم الحروف، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری حنیف جالندھری اور پاکستان علماء کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد محمود قاسمی کے سوالات کے جواب میں عالم اسلام کے طبی ماہرین نے اس بات کو واضح کیا کہ پولیو کے قطروں میں کوئی حرام مادہ موجود نہیں ہوتا۔ اسی طرح ان رہنمائوں کی توجہ پر WHO اور عالم اسلام کے زعماء نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے عمل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اس کا پولیو ویکسین کی مہم سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن پھر بھی اس طرح کے عمل سے انسانی خدمت کرنے والوں کے لیے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ بہت ہی افسوسناک ہیں اور یہ کہ ہم سب ان کے اس عمل کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ کانفرنس میں علما نے جن نکات پر اتفاق کیا وہ درج ذیل تھے: 1۔علماء اور شرکاء نے اتفاق کیا کہ مسلم اُمہ پولیو کے جراثیم کی موجودگی کی وجہ سے ایک بڑے خطرے میں مبتلا ہے۔ 2۔اس امر کی مذمت کی گئی کہ اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے پولیو مہم کے حوالے سے غلط تاثرات پھیلائے جا رہے ہیں۔ 3۔2014ء کے اختتام تک پولیو سے پاک امت مسلمہ کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ 4۔اس بات پر اتفاق ہوا کہ تمام مسلمان بچوں کا پولیو سے بچائو ساری امت مسلمہ اور خصوصاً جید علماء اور سیاسی قائدین کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ 5۔اس بات پر اتفاق ہوا کہ تمام مسلمان بچوں کا پولیو سے بچائو تمام مسلم والدین کی مذہبی ذمہ داری ہے۔ 6۔اس بات پر اتفاق ہوا کہ اعلیٰ حکمت عملی اور اتفاق تمام مسلم ممالک میں پولیو کے خاتمے کے لیے ضروری ہے۔ 7۔علماء نے اتفاق کیا کہ مسلمان علماء کرام اور اداروں پر پولیو کے خاتمے کی حمایت کرنے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ 8۔طویل گفت و شنید کے بعد اس بات پر اتفاق ہوا کہ پولیو ویکسین میں کسی قسم کے حرام اجزا شامل نہیں اور یہ کہ پولیو ویکسین ایک انتہائی محفوظ دوا ہے۔ 9۔اس بات پر اتفاق ہوا کہ پولیو ویکسین میں بانجھ پن پیدا کرنے والے کسی قسم کے کوئی اجزا شامل نہیں ہیں۔ 10۔تمام شرکاء نے اتفاق کیا کہ ہنگامی بنیادوں پر پولیو پروگرام اور پولیو ویکسین کے حوالے سے پائے جانے والے شکوک و شبہات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ 11۔شرکاء نے عالمی ادارہ صحت (WHO) اور یونیسف (UNICEF) کی اعلیٰ قیادت کو سراہا اور اس بات پر اتفاق اور بھرپور اطمینان کا اظہار کیا کہ تاریخ میں کبھی کسی بھی سطح پر شکیل آفریدی نے ان اداروں کے ساتھ کام نہیں کیا اور نہ ایبٹ آباد میں ہونے والی کارروائیوں کا اُن کو علم تھا۔ 12۔اس بات کا اجتماعی اعلان کیا گیا کہ محکمہ صحت کے اہلکاروں پر حملے اسلامی تعلیمات کے انتہائی منافی ہیں اور ان کی انتہائی شدت سے مذمت ہونی چاہیے۔ 13۔علماء نے اجتماعی مذمتی قرارداد کے ذریعے صحت کے اہلکاروں کا جاسوسی کارروائیوں میں استعمال غلط قرار دیا اور عالمی ادارہ صحت (WHO) اور یونیسف (UNICEF) سے گزارش کی کہ وہ اقوام عالم تک یہ پیغام پہنچائیں کہ کوئی بھی ملک صحت عامہ کی کارروائی کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہ کرے۔ 14۔ تمام فریقوں کی مشاورت سے ایک خصوصی ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایا جائے جو اسلامی مشاورتی دھڑے کا آئین مرتب کرے ۔ 15۔اسلامی مشاورتی دھڑے کی سربراہی میں قومی اور بین الاقوامی جید علماء کی خصوصی مشاورتی ملاقاتیں بہت جلد تینوں پولیو وبا زدہ مسلم ممالک میں منعقد کی جائیں گی۔ ان ملاقاتوں کا انعقاد حکومتی مشاورت سے کیا جائے گا۔ 16۔ قومی اور بین الاقوامی اسلامی ادارے پولیو کے خاتمے کی مہمات کو کامیاب بنانے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں اور اس مقصد کے لیے تینوں وبا زدہ مسلم ممالک میں خصوصی وفود بھیجیں۔ 17۔اسلام کا نام استعمال کر کے تیزی سے پھیلتی ہوئی افواہوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ سفارش کی گئی کہ جید علماء اور اعلیٰ تکنیکی عہدیداران باریک بینی سے ان کا جائزہ لیں اور ان افواہوں کے حوالے سے اسلامی مشاورتی گروپ کے ساتھ مل کر فوری جوابی لائحہ عمل مرتب کریں۔ 18۔ عالمی ادارہ صحت(WHO) اور یونیسف (UNICEF) مسلم علماء کرام کے تعاون سے تکنیکی معلومات اس ڈھنگ سے فراہم کرے کہ اس سے عوام اور علاقائی مذہبی حلقوں میں پولیو ویکسین سے متعلق شکوک و شبہات کا خاتمہ کیا جا سکے۔ 19۔پولیو ویکسین سے متعلق مناسب معلومات کی تمام آئمہ اور مساجد تک رسائی یقینی بنائی جائے۔ اس مقصد کے لیے تمام ذرائع اور میڈیا سے رابطہ کیا جائے۔ 20۔پولیو سے متعلق فتاویٰ اور معلومات کو والدین اور عوام تک مناسب‘ سہل اور آسان زبان میں پہنچایا جائے۔ 21۔مسلم علماء کرام اور ادارے پولیو پروگرام کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں کہ پولیو مہمات کے دوران متعلقہ کارکنوں کو پولیو وبا زدہ ممالک کے ہر بچے تک رسائی حاصل ہو۔ 22۔اسلامی مشاورتی گروپ تمام مسلم، انسانی حقوق اور پیشہ ورانہ اداروں سے رابطہ استوار کر کے حفاظتی ٹیکوں اور قطروں کے پروگراموں کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ کانفرنس میں عالم اسلام کے قائدین نے متفقہ طور پر عوام الناس سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کو اس موذی مرض سے بچانے کے لیے کسی قسم کے منفی پروپیگنڈے میں نہ آئیں اور اپنے بچوں کو اس موذی مرض سے بچانے کے لیے پولیو ویکسین کے قطرے پلائیں اور پلانے والے عملے سے تعاون کریں۔ یہاں پر دنیائے اسلام کے ان تمام دینی اداروں کے نام دیئے جا رہے ہیں جنہوں نے پولیو کے قطروں کو بچوں کے لیے ضروری قرار دیا اور اس شبہ کا ازالہ کیا ہے کہ ان میں کسی قسم کے غیر اسلامی اجزاء شامل ہیں۔ 1۔امام مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) ‘2۔الازہر الشریف کے امام اعظم ڈاکٹر تنتاوی ‘3۔مہتمم دارالعلوم دیو بند ‘4۔دارالافتاء پاکستان علماء کونسل ‘5۔وزارت عدل، مصر ‘6۔ملائشیا چینی مسلم ایسوسی ایشن‘ 7۔اسلامی نظریاتی کونسل ‘8۔وفاق المدارس العربیہ‘ 9۔دارالعلوم قادریہ، ڈیرہ اسمٰعیل خان‘ 10۔دارالعلوم عربیہ مظہرالعلوم، صوبہ خیبر پختونخوا‘ 11۔شمالی وزیرستان کے علماء‘ 12۔مہتمم الجامعۃ البنوریہ العالمیہ، کراچی ‘13۔الجامعۃ الاسلامیہ، بلوچستان‘ 14۔الجامعۃالعربیہ، کراچی ‘15۔دارالافتاء جامعہ اسلامیہ، عربیہ انوارالعلوم ‘16۔مفتی، جامعہ خیرالمدارس‘ 17۔جامعہ رحمانیہ اہل حدیث ‘18۔مصباح العلوم الجعفریہ‘ 19۔دارالافتاء، جامعہ دارالعلوم، کراچی۔ ان سب فیصلوں اور علمائے اسلام کے فتاویٰ جات کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ پولیو ویکسین معذور نہیں کرتی بلکہ معذور ہونے سے بچاتی ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ دنیا بھر کے اہم ترین دینی ادارے کسی مصلحت یا مفاد کے لیے کسی ایسے عمل کو کرنے کا کہیں جس سے عالم اسلام کے بچے مفلوج ہو جائیں۔ ہمیں یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ پولیو ایک مرض ہے اور اس سے بچائو کی دوا صرف یہ قطرے ہیں۔ جب عالم اسلام کے طبی ماہرین اور علماء اور مفتیان اس بات پر متفق ہیں کہ پولیو کے قطرے بچوں کو پلانا جائز ہے تو اس کے بعد پولیو ورکرز پر حملے اور بے گناہ عورتوں اور بچیوں کو قتل کرنا درندگی نہیں تو اور کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیو کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے اور حکومت پاکستان‘ ملک کی مذہبی اور سیاسی جماعتیں اس بارے میں متفقہ لائحہ عمل اپنائیں کیونکہ اگر ستمبر تک اس معاملے میں پیش رفت نہ ہوئی تو پاکستان ایک نئی مشکل میں پڑ سکتا ہے اور وہ ہو گی پاکستان سے بیرون ملک سفر کرنے والوں کے طبی معائنے کی قرارداد جو اقوام متحدہ کے ذریعے نافذ کی جائے گی۔ اور اس کے منفی اثرات پاکستان کے تمام شعبوں پر پڑیں گے۔ نئی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پولیو کے مسئلے کو اپنے ابتدائی ایجنڈے میں رکھے اور معاملے میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔ (مضمون نگار چیئرمین پاکستان علماء کونسل ہیں)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں