گزشتہ چند دنوں سے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے بہت سی باتیں سامنے آ رہی ہیں ۔ بعض حقائق ابھی تک صحیح طور پر منظر عام پر نہیں لائے گئے ۔ ضروری ہے کہ ان پر بھی بات کی جائے۔ طالبان کے قطر میں دفتر کھولنے کے حوالے سے ایسے شور مچایا گیا جیسے کوئی انہونی بات ہو گئی ہو،جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ گزشتہ دو سال سے زائد عرصے سے طالبان کے ذمہ داران ،جن کو ملا عمر کا اعتماد حاصل ہے ،قطر میں مقیم تھے اور اسی قطر دفتر کے ذریعے ہی وہ پوری دنیا سے رابطے میں تھے اور ہیں۔امریکہ اور بعض دیگر ممالک نے یہ دفتر قائم کرنے کی کوشش اس وقت کی، جب پاکستان کو شامل کیے بغیر افغانستان کے مسئلے کا حل نکالنے کی کوششوں کا آغاز کیا گیا۔اس سلسلے میں سب سے زیادہ خواہش اور کردار افغان صدر حامد کرزئی اور بھارت کا تھا۔ لیکن اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا کی بروقت کوششوں سے یہ سازش اس انداز میں ناکام ہوئی کہ وہ کرزئی جو اس دفتر کے قیام کا سب سے بڑا حامی تھا،اس کی مخالفت کر رہا ہے اور امریکی اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا راستہ پاکستان کی کوششوں سے ہموار ہوا۔ راقم الحروف اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا کہ تمام معاملات حل ہو گئے ہیں اور اب افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات خوش اسلوبی کے ساتھ چلیں گے ۔ ابتدا ہی میں افغان طالبان کا پرچم اتروانااوران کے دفتر پر سے ان کا نام ہٹوانا،اشارہ ہیں کہ معاملات ویسے نہیں جس طرح سمجھے جا رہے ہیں لہٰذا امریکہ ، پاکستان ، سعودی عرب اور قطر کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ اگر انہوں نے حامد کرزئی کی خواہشات کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے تو پھر وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام ہو چکے ہیں۔ اگر تحریک طالبان افغانستان نے یہی کچھ قبول کرنا تھا تو یہ موقع ان کے پاس بہت پہلے سے موجود تھا حتیٰ کہ حامد کرزئی اعلیٰ ترین وزارتیں اور پختوں ولائیتیں بھی ان کو دینے کے لیے تیار تھے لیکن افغان طالبان نے بارہ سال جدوجہد اس لیے تو نہیں کی کہ وہ پھر حامد کرزئی کے تسلط کو قبول کرلیں۔ملا عمر امارت اسلامی افغانستان کے امیرالمو منین ہیں اور ایک مکمل اسلامی امارت کا قیام (ان کی سوچ کے مطابق) ان کی جدوجہد کی منزل ہے ۔ اقتدار کا حصول یا امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے میز پر بیٹھنا میرے خیال میں ان کا مقصود نہیں ہے ۔ ماضی میں بھی کئی ماہ تک مذاکرات کا سلسلہ خفیہ طور پر چلتا رہا،لیکن اس کا نتیجہ آخر میں کچھ نہ نکل سکا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ طالبان بھی امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے روابط کا اعتراف کر رہے ہیں اور امریکہ نے بھی تسلیم کیا ہے۔اس حوالے سے فضا تیار کرنے میں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی نے جو کردار ادا کیا ،پوری دنیا اس کا اعتراف کر رہی ہے۔یہ اس وقت ممکن ہوا جب دو ماہ پہلے برسلز میں جنرل کیانی، جان کیری اور حامد کرزئی کی ملاقات ہوئی تھی۔حامد کرزئی اقتدار کے ایوان سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔وہ چاہتے یہ ہیں کہ پاکستان ایک بار پھر کسی بھی انداز میں ان کی حمایت کر کے ان کو افغان عوام پر مسلط کر دے لیکن پاکستان اس کے لیے تیار نظر نہیں آتا،نہ ہی پاکستان کو ایسا کرنا چاہیے۔ افغان عوام کو اپنے فیصلے کرنے کا حق ملنا چاہیے اور افغان گروپوں کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے سامنے آنا چاہیے ۔ یہ حقیقت بھی بہت جلد آشکار ہوجائے گی کہ شمالی اتحاد کے بہت سے قائدین اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کے راستے نہ صرف ہموار ہو چکے ہیں بلکہ روابط بھی بہت حد تک آگے بڑھ رہے ہیں اور یہی صورتحال شمالی اتحاد کے قائدین کی پاکستان کے ساتھ بھی ہے ۔اس سلسلے میں فضا ہموار کرنے میں افغانستان میں پاکستان کے سفیر صادق خان کا بہت بڑا کردار ہے ۔ آج حامد کرزئی اور ان کے چند ساتھیوں کے علاوہ پاکستان مخالف قوتیں افغانوں کو پاکستان کے خلاف کھڑا کرنے میں ناکام ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قطر آفس کے افتتاح کے فوراً بعد حامد کرزئی کا بچگانہ رد عمل پوری دنیا کے لیے پریشان کن ہے۔ جب افغان طالبان سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ وہ حامد کرزئی کے ساتھ مذاکرات کیوں نہیں کرتے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ حامد کرزئی کا سرپرست اعلیٰ تو امریکہ تھا ،جس سے ہم بات کر رہے ہیں ۔ امریکہ ہی پاکستان کے تعاون سے کرزئی کو لے کر آیا تھا جب ہماری بات پاکستان اور امریکہ سے ہو رہی ہے تو پھر ہم کرزئی سے کیا بات کریں ؟اُن کا کوئی گروپ تو افغانستان میں موجود نہیں۔ کیا مذاکرات کا یہ سلسلہ آگے بڑھے گایا ختم ہو جائے گا؟اس کا فیصلہ اب امریکہ پر ہے اگر امریکی افغان طالبان کے رہنمائوں ملا فضل، ملا خیر اللہ خیر خواہ ، ملا نوری کو فوری رہا کر دیتے ہیں تو مذاکراتی عمل کسی بھی منزل سے ہمکنار ہو جائے گا لیکن اگر ماضی کی طرح امریکی صرف وعدے کرتے ہیں اور حامد کرزئی کو خوش کرنے کی کوشش میں کوئی ایسا قدم اٹھاتے ہیں،جس سے افغان طالبان کا اعتماد ایک بار پھر متزلزل ہو جائے تو پھر مذاکرات کی میز پر دونوں فریق دوبارہ بیٹھتے نظر نہیں آئیں گے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ پاکستان بار بار افغان طالبان کو راضی کرے ، ان کو مذاکرات کی میز پر بٹھائے اور امریکی ہر بار اُن کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائیں۔ مجھے افغان طالبان کے ایک اہم رہنما کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ہمارے پاس اب اور گنوانے کے لیے کچھ نہیں ہے اور ہم جیت کے قریب پہنچے ہوئے لوگ ہیں لہٰذا مذاکرات میں جلدی ہماری مجبوری نہیں ہے، یہ امریکہ کی مجبوری ہے ۔میں ان لوگوں کی اس سوچ سے ہرگز اتفاق نہیں کرتا جو سمجھتے ہیں کہ موجودہ افغان فورس افغان طالبان کا مقابلہ کر سکے گی۔اگر افغان طالبان کسی معاہدے کے پابند نہ ہوئے تو 2014ء کے بعد موجودہ امریکی تربیت یافتہ فورس ان کے سامنے ریت کی دیوار کی طرح ہو گی جس کو روندتے ہوئے افغان طالبان کابل پہنچ جائیں گے ۔ اس وقت پاکستان کہاں کھڑا ہوگا؟ ہمارے لیے یہ سوچنے کی بات ہے ۔ کیا ہم نے اس بارے میں کچھ سوچا ہے ؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔