مزارات پر حملے ، مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی سازش

عالم اسلام اس وقت ایک اضطرابی کیفیت میں ہے اور یہ اضطراب کم ہونے کی بجائے بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔ چار روز قبل عالم اسلام کے لیے یہ خبر کسی حادثے ، سانحے سے کم نہیں تھی کہ سیدہ طیبہ طاہرہ سیدہ زینب ؓ کے مزار پر مزائلوں سے حملہ کیا گیا۔ ابھی اس سانحے پر آنسو بہہ ہی رہے تھے کہ خبر آئی کہ حضرت خالد بن ولید ؓ کے مزار اور مسجد کو بھی حملے کا نشانہ بنا دیا گیا۔پورا عالم اسلام ان دونوں سانحات پر غمزدہ بھی ہے اور اس سوچ میں مبتلا ہے کہ کیا کوئی مسلمان اس قسم کی جسارت کا تصور کر سکتا ہے کہ وہ اہل بیت اطہار ؓیا اصحاب رسول ؓ کی قبروں کی توہین کرے ۔ حقیقت حال یہ ہے کہ اس قسم کی سفاکیت اور درندگی کا تصور تو کسی مسلمان سے نہیں کیا جا سکتا ۔ ہاں وہ قوتیں جو مسلمانوں کو تقسیم کرنا چاہتی ہیں اور عراق کے اندر وہ شیعہ سنی کے نام پر تصادم کو ہوا دے کر عراق کی بربادی کی داستان لکھ رہی ہیں اب مسلمانوں کو ایک جذباتی کیفیت میں مبتلا کر کے اور ان کو شیعہ سنی کے نام پر تقسیم کر کے وہ نہ صرف شام بلکہ پوری دنیا کے مسلم ممالک کے اندر ایک خوفناک فرقہ وارانہ تشدد کی فضا پیدا کرنے کا راستہ ہموار کر رہی ہیں۔ اگر ہم گزشتہ چار دنوں کے واقعات کو دیکھیں تو یہ سمجھنا بڑا آسان ہو جائے گا کہ پہلے سیدہ زینب ؓ کے مزار پر حملہ اور اس کو اہل سنت سے منسوب کرنا اور پھر گزشتہ روز حضرت خالد بن ولید ؓ کے مسجد اور مزار پر حملے کو اہل تشیع سے منسوب کر کے ایک ایسی تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جس سے جذبات میں اشتعال پیدا ہو اور دونوں فرقوں کے لوگ آمنے سامنے کھڑے ہو جائیں جب کہ اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کی کتابوں اور بخاری ، مسلم اور ترمذی شریف سے ملنے والی روایات قبر کی حرمت کے بارے میں بڑی واضح ہیں حتیٰ کہ قبر کی توہین تو ایک سنگین معاملہ ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ایک روایت کے مطابق جس کا مفہوم اس طرح سے ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے کہ آگ کے انگارے پر بیٹھ جائے اور پھر یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے اہل بیت سے منسوب کسی بھی مقام کی توہین کا تصور کیا جائے۔ سیدہ زینب ؓ تو صرف عالم اسلام کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک کی مظلوم انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں کہ جن سے رہنمائی مسلمان تو مسلمان کافر بھی لیتے ہیں۔ اسی طرح حضرت خالد بن ولید ؓ جہاد کے وہ امام ہیں کہ جن کو اللہ کے نبی ﷺ نے خود سیف اللہ کا لقب دیا ہے ۔مسلمانوں کی ان دونوں شخصیات کے ساتھ ایک جذباتی وابستگی ہے اور مسلمانوں کو تقسیم کرنے اور ان کے درمیان نفرتیں پیدا کرنے والوں نے ایسے وقت میں جب کہ رمضان المبارک کے مقدس ایام میں اللہ کی عبادت اور رسول اکرم ﷺ کے احکامات کی تکمیل کی کوشش کی جاتی ہے ، مسلمانوں میں تشدد ابھارنے کی کوشش کی ہے۔خود امریکی ذرائع اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ عرا ق کے اندر شیعہ اور سنی تصادم کے لیے انہوں نے اپنے وسائل کو استعمال کیا۔کچھ ایسی کیفیت پاکستان کے اندر بھی ہے کہ جہاں پر شیعہ سنی تصادم کروانے کی کوششوں کو بیرونی قوتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ سیدہ زینب ؓ کے مزار پر اور سیدنا خالد بن ولید ؓ کی مسجد اور مزار پر حملہ کرنے والے انہی قوتوں کے آلۂ کارہوں جو باقی دنیا کے اندر شیعہ اور سنی تصادم پیدا کر کے مسلمانوں کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ بات ہمارے ذہن میں رہنی چاہیے کہ سعودی عرب سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر ایران تک شیعہ سنی کی تفریق تو موجود ہے لیکن تصادم موجود نہیں ہے ۔ میں یہاں پر یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ ایسے وقت میں جب ایک طرف سیدہ زینب ؓ کے مزار پر اور سیدنا خالد بن ولید ؓ کے مزار پر حملہ ہوا ہے اور ان دونوں حملوں کو شیعہ سنی سے منسوب کیا جا رہا ہے ۔ ہمارے ایک پڑوسی ملک میں ٹی وی پر ایک ایسا اشتہار بھی چلایا گیا ہے جس میں سیدنا عمر فاروق ؓسے نامناسب جملے منسوب کیے گئے ہیں ۔یہ ساری کارروائیاں اور یہ سارے سلسلے دراصل مسلمانوں کو اور شیعہ اور سنی دونوں کو غور و فکر کی دعوت دے رہے ہیں ۔ پاکستان کے اندر رہنے والے مذہبی قائدین کے لیے یہ بڑا سخت امتحان ہے کہ وہ اس صورتحال کا ایسی قوتوں کو فائدہ نہ اٹھانے دیں جو یہاں پر شیعہ سنی تصادم چاہتی ہیں ۔ یہاں پر اہل سنت اور اہل تشیع قائدین کو اپنے احتجاجی مظاہروں ، جلسے جلوسوں میں اس بات کا احساس کرنا ہو گا کہ وہ ایک دوسرے مکتبہ فکر کے خلاف ہر قسم کی نعرے بازی اورجذباتی گفتگو سے پرہیز کریں بلکہ بہتر تو یہ ہو گا اور کاش ایسا ہو جائے کہ شیعہ سنی قائدین متفقہ طور پر ان واقعات کے خلاف احتجاج کریں اور بلا تفریق ان قوتوں کی مذمت کریں جنہوں نے ان مقدس اور محترم شخصیات کے مزارات پر حملہ کیا ہے اور عالم اسلام سے اپیل کریں کہ وہ اس معاملے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسلامی سربراہی کانفرنس ، عرب لیگ کو ان حالات کا نوٹس لینا چاہیے لیکن فی الحال تو ایک خاموشی کی کیفیت ہے صرف پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس کی وزارت خارجہ اور ایوان صدر نے ان واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ میں یہاں پر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے یہ گزارش کروں گا کہ وہ آگے بڑھیں اور فوری طور پر اسلامی سربراہی کانفرنس بلانے کا مطالبہ کریں اور اگر سنجیدگی سے ان سانحات کو نہ لیا گیا تو میں گزارش کروں گا کہ مجھے یہ سلسلہ بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے اور پھر خدا نہ کرے، خدا نہ کرے یہ آگ پورے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور اس کی پہلی مثال یمن کے اندر ایرانی سفارت کار کا اغوا ہے ۔کالم لکھ چکا تھا کہ سوریا پولیٹکل موومنٹ کے سربراہ ڈاکٹر عماد سے بات ہوئی ۔ وہ سنی ہیں اور سوریا میں شام کی جدوجہد آزادی کی قیادت کر رہے ہیں ۔وہ بھی اس پر رنجیدہ نظر آ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آپ بھی عالم اسلام سے اپیل کریں کہ وہ شام کی حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے والی تحریکوں سے اپیل کریں کہ وہ مقدس مقامات کی حرمت اور تقدس کا خیال رکھیں۔ ان سے ہونے والی گفتگو اس بات کا واضح اظہار ہے کہ ان حملوں میں ملوث نہ شیعہ ہیں نہ سنی بلکہ وہ طاغوتی طاقتیں ہیں جو شام کو بھی تقسیم کرنا چاہتی ہیں اور مسلمانوں کو بھی ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں