گزشتہ ایک کالم میں لکھا تھا کہ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ سمجھ لیا گیا ہے اور جتنے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ اس کالم میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانے کی کوشش کی تھی کہ حکومت کی طرف سے پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے خدو خال بھی واضح نہیں ہیں۔ لہٰذا مذاکرات کے اس اعلان سے کوئی نتیجہ نکالنا درست نہ ہو گا۔لیکن دو روز قبل وفاقی وزیر اطلاعات کی طرف سے قوم کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ طالبان کے ساتھ خفیہ روابط کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور یہ بات ایسے وقت میں کی گئی جب مولانا فضل الرحمن اور وزیراعظم میاں نواز شریف کی ملاقات ہوئی اور ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ بات سامنے آئی کہ مولانا فضل الرحمن نے مذاکرات کے لیے اپنی خدمات وزیر اعظم کو پیش کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ وہ چند گروپوں سے مذاکرات کریں اور چند سے نہ کریں۔ طالبان، القاعدہ، افغانستان اور قبائلی علاقوں کو سمجھنے والا ہر ذی شعور اس بات کا ادراک رکھتا ہے کہ طالبان سے منسلک بعض ایسے گروپ موجود ہیں جو نہ پاکستان کے اندر حملے کرتے ہیں اور نہ ہی پاکستانی فوج کے خلاف کارروائیوں میں شریک ہیں۔ اگر تو مولانا فضل الرحمن کا اشارہ ان گروپوں سے بات چیت کرنے کا ہے تو وہ تو پہلے ہی پاکستان اور پاکستان کے عوام کے حامی ہیں اور اگر مولانا فضل الرحمن کا اشارہ ان گروپوں کو نظر انداز کر کے ان گروپوں سے بات چیت کرنے کا ہے جو پاکستان کے اندر کارروائیوں میں مصروف ہیں تو پھر یہ پاکستان کے حامی گروپوں کے لیے پریشان کن بات ہو گی کہ آخر ان کو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے؟ حقیقت حال یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن ، مولانا سمیع الحق اور میجر عامر قبائلی علاقوں اور افغانستان میں طالبان کے مختلف کمانڈروں پر اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن کو حاجی گل بہادر ، ملا نذیر کے گروپوں میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن ماضی میں ایک غلط فہمی کی وجہ سے مولانا فضل الرحمن پر جو حملے ہوئے وہ اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ کوئی بات بھی اس معاملے میں حرف آخر نہیں ہے۔ اسی طرح شیخ القرآن مولانا پنج پیری کے صاحبزادے میجر عامر کو نہ صرف طالبان بلکہ قبائلی علاقوں میں موجود مذہبی قائدین کا بھی بہت احترام حاصل ہے کیونکہ پاکستان کے قبائل میں اور افغانستان کے اندر قرآن کریم کی جو تعلیم پھیلائی گئی ہے اس میں اس خاندان کا کوئی ثانی نہیں ہے اور بالخصوص ملا فضل اللہ اور تحریک نفاذ شریعت محمدی سے منسلک علماء اور کمانڈروں میں ان کا اثر و رسوخ کہیں زیادہ ہے۔ اسی طرح مولانا سمیع الحق کو افغان طالبان میں اور بعض پاکستانی طالبان کے گروپوں میں ایک باپ اور استاد کا درجہ حاصل ہے۔ لیکن کئی مواقع پر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مولانا سمیع الحق اس ہدف کو حاصل نہیں کر سکے جو حاصل کرنے نکلے تھے جس میں کرنل امام کی رہائی بھی شامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت ان تینوں حضرات سے ہٹ کر بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے راستے تلاش کر رہی ہے لیکن ان سب راستوں کو منزل اسی وقت مل سکتی ہے جب مذاکرات کی سمت اور اس کے خدوخال واضح ہوں۔ حکومت کی طرف سے یہ دعویٰ تو کیا جا رہا ہے کہ پاک فوج نے ان کو مذاکرات کے لیے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے اور اگر ایسا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن اس دعویٰ میں شک اس وقت پیدا ہوا جب صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ اس کی نفی کرتے نظر آئے اور اب سیکرٹری دفاع بھی واضح طور پر اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ مذاکرات کے خدوخال کو واضح کیا جانا ضروری ہے۔ سیکرٹری دفاع کی باتوں سے یہ بات تو واضح ہو رہی ہے کہ کہیں نہ کہیں معاملات اصلاح طلب ہیں۔ اسی دوران تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے خفیہ مذاکرات نہ کرنے کا واضح اعلان اس تلخی کا بھی احساس دلاتا ہے جو عصمت اللہ معاویہ کے مذاکرات کی دعوت کے خیر مقدم کے جواب میں پیدا ہوئی ہے۔ اس بات سے قطعی اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ عصمت اللہ معاویہ کے اختلاف سے تحریک طالبان پاکستان یا القاعدہ میں یا لشکر جھنگوی کا کوئی بڑانقصان ممکن ہے‘ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ بعض مقامات پر جہاں عصمت اللہ معاویہ کے گروپ کی القاعدہ یا طالبان یا تحریک طالبان پاکستان کو مقامی مدد حاصل ہوتی ہو اس میں کچھ کمی آ جائے۔ لیکن یہ بہت ہی محدود پیمانے پر ہو گی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حقائق کو سامنے رکھا جائے۔ انفرادی دعوئوں کو اتنی اہمیت نہ دی جائے جتنی اہمیت دعویٰ کرنے والے ظاہر کرتے ہیںاور اس عمل میں ان لوگوں سے معاونت لی جائے جو ان معاملات کو سمجھتے ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ جن شخصیات کا احترام موجود ہو ان کی بات بھی مانی جائے ۔ وزیر اعظم نے مولانا فضل الرحمن اور میجر عامر سے جو ملاقاتیں کی ہیں اس میں ان کو وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کی معاونت بھی حاصل رہی ہے جو معاملات کو جذبات کی بجائے حقائق کے تناظر میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ اس لیے انہوں نے ذرائع ابلاغ کو جو بات کہی وہ ان ملاقاتوں کے تناظر میں تو درست ہو گی لیکن یہ بات واضح انداز میں کہی جا سکتی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی باتیں فی الوقت کسی بھی سمت اور کسی بھی منزل کی طرف رہنمائی نہیں کر سکتیں‘ نتائج ملنا تو بہت بعد کی بات ہے ۔ بعض اطلاعات کے مطابق مذاکرات کی بات پر تحریک طالبان پاکستان‘ القاعدہ اور لشکر جھنگوی کے درمیان مشاورت بھی ہو رہی ہے لیکن ابھی تک کوئی مثبت بات طے نہیں ہو سکی۔ آخر میں اس بات کو دہرانا چاہتا ہوں جو اپنے ایک گزشتہ کالم میں کہی تھی کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا مرکز قطر کی بجائے سعودی عرب ہو گا جس کا اظہار اب افغان حکومت بھی کر رہی ہے۔ اگر یہ بات چیت تکمیل کے درجے کو پہنچتی ہے تو پھر ممکن ہے کہ پاکستانی طالبان اور القاعدہ مذاکرات کے لیے کسی مثبت نکتے کی طرف قدم بڑھائیں وگرنہ ابھی تو سب خبریں خواہشات کی ہی بن رہی ہیں اور بعض اوقات خواہشات کی تکمیل نہیں بھی ہوا کرتی۔