دل سے دلی

زبیدہ آپا اور عمران خان پاکستان بدلنا چاہتے ہیں ۔ زبیدہ آپا پاکستان کو گورا کرنا چاہتی ہیں اور عمران خان نیابنانا چاہتے ہیں۔ میری ناقص رائے میں زبیدہ آپا جو چاہتی ہیں وہ ہو نہیں سکتا اور عمران خان جو چاہتے ہیں وہ کرنہیں سکتے ۔ ان دونوں سے بڑھ کر میاں صاحب پاکستان کو بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ جہاں پر واجپائی سے تعلقات کا سلسلہ ٹوٹا تھا وہیں سے نریندر مودی کے ساتھ جوڑنا چاہتے ہیں ۔
میاں صاحب دلی گئے اور دل سے گئے ۔ دلی میں بھارتی میڈیا نے جو کہا اس کی تصدیق بھارتی سیکرٹری خارجہ سجاتا سنگھ نے کردی مگر میاں صاحب نے پریس کو دو گھنٹے انتظار کروانے کے بعد ایک تحریری پیغام پڑھ کر سنایا اور سوالات کے جوابات دیے بغیر چل دیے ۔بھارت سے ہم دوستی چاہتے ہیں مگر بھارت ہم سے حساب چاہتا ہے ۔یہ اور اس جیسے بہت سے تجزیے میاں صاحب کے پورے دورے میں پیش کیے جاتے رہے ۔ تجزیے کیا تھے ،پورے پورے نتیجے تھے ۔ مگر میاں صاحب نے پھنکارتے صحافیوں کو تحریری پیغام کا دودھ ڈال کر مناسب کیا کیونکہ یہ معاملہ بہت احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ اسے بال کی کھال اتارنے والوں کے حوالے کرناکسی طور مناسب نہیں۔وزیراعظم میاں نواز شریف کا یہ دورہ بہت ہی اہم تھا ، اس سے انکار ممکن نہیں ۔ اس دورے کی اہمیت کی بھارتی ذرائع ابلاغ بھی مسلسل گواہی دے رہے تھے ۔یہ خبر ہر اخبار کی شہ سرخی تھی ۔ ہر ویب سائٹ کا ہوم پیج نواز شریف اور مودی کی
ملاقات سے سجا تھا ۔ ہر چینل پر بریکنگ نیوز بس انہی سربراہان حکومت کے بارے میں تھی۔ آپ اندازہ لگائیے کہ بھارتی سیکرٹری خارجہ سجاتا سنگھ نے جب مودی صاحب کی تمام سربراہان مملکت اور سربراہان حکومت سے ہونے والی ملاقاتوں کا احوال بتایا تو صحافیوں کی تمام تر دلچسپی مودی نواز ملاقات میں تھی ۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ نے سب سے پہلے میڈیا کو تین صدور کی مودی سے ہونے والی ملاقاتوں کے بارے میں بتایا اور صحافیوں کو سوالات کی دعوت دی تو افغانستان کے صدر حامد کرزئی، سری لنکا کے مہندرا راجا پکسے اور مالدیپ کے صدرعبداللہ یامین کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔میاں صاحب کا یہ دورہ بداعتمادی کے خاتمے ، تنازعات کے حل اور بھارت سے حساب مانگنے کے حوالوں سے بہت اہم تھا ۔
بداعتمادی کا خاتمہ بہت طویل اورکٹھن کام ہے اور اس کی ابتدا ہوگئی ہے ۔ بد اعتمادی کے خاتمے کی جانب پہلا قدم دعوت کا دیا جانا تھا ۔وہ کام بھارت نے کیا اور پاکستان نے اسے قبول کرکے اس عمل میں اپنا حصہ ڈالا ۔ رسمی کارروائی کے تحت ہی سہی مگر مودی جی نے دورہ پاکستان کی دعوت قبول کرلی اور یہ کنستر پتھر ڈال کر میاں صاحب ان کی پیٹھ پر باندھ آئے ہیں۔ 
اب یہ بجتا ضرور رہے گا ۔ تنازعات کے حل کا مرحلہ اس سے بھی کٹھن اور صبر آزماہے اور یہی وہ معاملہ ہے جس کی بنا پر پاک بھارت ڈائیلاگ کو بہروں کا مذاکراتی عمل کہا جاتا ہے ۔ دونوں آمنے سامنے بیٹھ کر ہمیشہ اپنی اپنی ہانکتے چلے جاتے ہیں۔سرکریک ، سیاچن ، کشمیر پر ، پانی پر قبضے اور اس جیسے درجنوں معاملات پر اگر کبھی اتفاق سے کچھ ہونے بھی لگے تو پانی روکنا اور اچانک ریلوں کو چھوڑ دینے جیسی دہشت گردی وہ بھارتی کمالات ہیں ،جن کی وجہ سے ہم خانز ، رنبیر ، بچن صاحب، دلیپ صاحب ، مدھوبالا سے لے کر ریکھا تک اور ماضی قریب ترین میں ایشوریا سشمیتا سے لے کردیپکا اور عالیہ بھٹ تک سب کی محبت میں گرفتار ہونے کے باوجود بھارت کو روایتی ترین حریف مانتے ہیں۔ہم تاج محل سے انس رکھتے ہیں ،امرتسر ، جالندھر اور یوپی سی پی کرتے نہیں تھکتے ۔ ہمارے ہاں آج بھی رشتے کے موقع پر دونوں خاندان یہی پوچھتے اور بتاتے رہتے ہیں '' پیچھے سے یوپی کے، پیچھے سے دلی کے ، جموں سے آئے تھے اور جالندھر سے آئے تھے ۔ ‘‘اتنا کچھ ہونے کے باوجود پاکستان اور بھارت کی مختصر تاریخ خوں آلود ہے۔دونوں جانب لکھی گئی تاریخ میں سچ ڈھونڈنا ایسے ہی مشکل ہے جیسے بھارت میں اچھا فاسٹ بائولر اور پاکستان میں مستقل مزاج بیٹس مین تلاش کرنا۔
تنازعات کے حل کا دوسرا اہم ترین پہلو اپنا نمبر آنے کے باوجود ترستا رہے گا کیونکہ ہم بداعتمادی کے خاتمے میں سنجیدہ نہیں۔تیسرے پہلو میں ہمارے لوگ بڑی دل چسپی رکھتے تھے ۔ ہر جانب سے یہی صدا آتی تھی کہ میاں صاحب جائیں اور حساب مانگیں سمجھوتہ ایکسپریس کا حساب ، قید ماہی گیروں کا حساب ، میچ دیکھنے جا کر جیل دیکھنے والوں کا حساب ، پانی کا حساب، بارڈر پر چلتی بلا اشتعال گولیوں کا حساب ، کشمیریوں پر ظلم کا حساب وغیرہ وغیرہ ۔اس پہلو پر پیش رفت ہوگی تو پھر اسی پر پیش رفت ہوگی اور دونوں جانب سے ہوگی پھر بداعتمادی کا خاتمہ اور تنازعات کا حل ممکن ہی نہیں ۔میاں صاحب نے مگر یہ بات بہت اچھی اور سچی کہی کہ دونوں جانب کے عوام امن اور خوشحالی چاہتے ہیں یہ چاہت لیڈروں کے دل میں بھی ہونی چاہیے۔
لیڈروں کا کام یہ نہیں کہ وہ مصلحت سے کام لیں۔ ان کے فیصلے حالات کے تابع نہیں ،ضروریات کے تابع ہونے چاہئیں ۔ ان کے فیصلے تاریخ کی تلخیوں کی روشنی میں نہیں روشن مسقبل کے لیے ہونے چاہئیں اور مستقبل مل کا پہیہ چلنے میں ہے ٹینک کا پہیہ چلنے میں نہیں ۔ مستقبل دوا ساز کی گولی میں ہے اسلحہ ساز کی گولی میں نہیں ۔ مستقبل گندم کی فصلیں کاٹنے میں نہیں ، مستقبل پانیوں پر بہتے جہازوں میں ہے، پانی روکنے اور سیلابی ریلے چھوڑنے میں مستقبل نہیں ہے ۔ مستقبل تو مستقبل میں ہے ماضی میں رہ کر اسے ڈھونڈا ہی نہیں جاسکتا ۔ بھارت دشمنی کے یہاں اور اکھنڈ بھارت کے وہاں کے پجاری کیا دے سکتے ہیں ۔ ڈیڑھ ارب عوام کو خوراک چاہیے۔ صحت کی سہولتیں چاہئیں ۔ ایٹم بم نہیں چاہیے، ایٹمی بجلی چاہیے ۔سائنسدان سے بم دھماکے کا نہیںمعاشی دھماکے کا فارمولا چاہیے ۔ صحافی کا وہ سوال چاہیے جس میں جاننے کی خواہش ہو نیچا دکھانے کی ضد نہیں ۔ مورخ سے سچ چاہیے ورنہ پینسٹھ چھیاسٹھ برسوں سے یہاں ہم اور وہاں وہ ،دونوں جیتے بیٹھے ہیں ۔حکمران سے وہ فیصلہ چاہیے جس میں شہروں میں پل بنانے کی ضد کے ساتھ ساتھ ملکوں کے درمیان پل کا کردار اداکرنے کی خواہش ہو۔ مذاکرات کی خواہش ہو اور ملاقات کی خواہش ہو کیو نکہ کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے میں تو کم از کم شیری رحمان کی اس بات سے اتفا ق کرتا ہوں کہ اگر وزیرستان کے انتہا پسندوں سے مذاکرات ممکن ہیں تو پھر ہندوانتہا پسند سے بھی ممکن ہوسکتے ہیں ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں