شاہ رخ خان نے ہیروئن کے منگیتر اور اس کے دوستوں سے خوب مار کھائی پھر ایک جھٹکا '' ہیروگیری ‘‘ کا دکھایا اور آگے بڑھا ۔ ایک آدھ منٹ مزید ضائع ہوا اور امریش پوری نے 'دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ کا سب سے ہٹ ڈائیلاگ داغ دیا '' جا سمرن ! جی لے اپنی زندگی ‘‘ ۔ مجھے یاد ہے یہ فلم میں اپنے ایک دوست کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ اس ڈائیلاگ پر اس نے آنجہانی امریش پوری کو مخاطب کرکے کہا ''انکل یہی کرنا تھا تو اتنا ڈرامہ کیوں کیا ؟‘‘ اب ایسے سوال کرنے والوں کو کیا بتائیں کہ اس کے بغیر فلم میں جان نہیں پڑتی ۔ لیکن حکومت کو اگر 23جون کو ڈھائی سے تین کے بیچ یہی کہنا تھا کہ ''جائیں طاہر القادری صاحب جی لیں اپنی زندگی ‘‘ تو اتنا ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اگر لاہور کی سڑکوں پر گھومنے پھرنے کی ایسی آزادی دینا ہی تھی تو اسلام آباد میں دے دیتے۔دہشت گردوں کے لیے ذرا سی تحریف کے ساتھ عرض کیا ہے '' آنے والوں کو بھلا روک سکا ہے کوئی ‘‘، ویسے بھی یہ فلم تو نہیں‘ حقیقت ہے اور حقیقت میں ڈرامے بازی نہیں چلتی ۔ یہ بات دونوں طرف سمجھ آجانی چاہیے تاکہ وہ آگ بجھے جو دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے ۔ ایک طرف طاہرالقادری صاحب ہیں جن سے باوجود لاکھ کوشش کے انقلاب برپا نہیں ہو پا رہا اوردوسری طرف حکومت ہے جو اپنی غلطیوں سے ان کو انقلاب برپا کرنے کے مواقع دے رہی ہے ۔
میرا نہ تو کوئی وسیع تجربہ ہے اور نہ ہی میں ماہر ''پاکستانی سیاسیات‘‘ ہوں( وہ تو زرداری صاحب ہیں) لیکن شامی صاحب سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔انہوں نے ہی بتایا ہے کہ طاہر القادری کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں البتہ ان کے پاس مریدین کی طاقت ضرور ہے ۔ اس طاقت کو انہوں نے حالیہ دنوں میں ''استعمال‘‘ بھی کیا ہے۔ 23جون کو ایک ڈرامہ اسلام آباد کی سڑکوں پر تھا اور ایک فضاؤں میں ۔ اس ڈرامے کی شوٹ کا اعلان طاہرالقادری صاحب نے کیا لیکن پروڈکشن اور ڈائریکشن حکومت کی تھی۔ حکومت اس تپاک کے ساتھ فرنٹ فٹ پر آئی کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے اسپانسرز غائب ہوگئے (فی الوقت)۔حکومت نے بہت بڑے بجٹ کی اس فلم کے لیے بہت بڑا سیٹ لگایا ۔ لوکیشنز لاہور ، فیصل آباد ، راولپنڈی اور اسلام آباد تک پھیلی ہوئی تھیں ۔ اسلام آباد میں پیک اپ کے بعد کٹ اور اگلا سین لاہور میں تھا
جہاں علامہ طاہرالقادری نے جہاز میں دھرنا دے دیا ۔ دھرنے میں وہ مطالبات پیش کرتے رہے اور آوازیں ''مارتے‘‘رہے۔ اس سین میں گانا بھی تھا ۔ طیارے کے اندر سے یہ گانا ''جاری‘‘ ہوا ''واجاں ماریاں بلایا کئی وار میں کسے نے میری گل نہ سنی ‘‘ لیکن جن کو بلارہے تھے وہ کہیں اور مصروف تھے۔ طیارے کے باہر سے یہ گانا جاری ہوا '' آخر تمہیں آنا ہے ذرا دیر لگے گی ۔ انقلاب کا بہانہ ہے ذرا دیر لگے گی‘‘ ۔ اور پھر اس ڈرامے میں طیارے کے اغوا کے بعد (جو طے نہیں کہ کس نے کیا تھا ) گورنر پنجاب پانچ گھنٹوں کے لیے ''یرغمالی‘‘ بن گئے۔ شوٹ ،ہاسپٹل اور اس کے بعد مرکزی سیکرٹریٹ پہنچی اور دن پیک اپ ہوا ۔
جس طرح بولی وڈ اور لولی وڈ کی فلموں کی شوٹنگ تماشائیوں کی ایک بڑی تعداد گھیرا ڈال کر دیکھتی ہے اور رواں تبصرہ بھی فرماتی ہے اسی طرح اس شوٹ پر سوشل میڈیا نے گھیرا ڈالا ہوا تھا اور رواں تبصروں کا ایسا تسلسل تھا کہ اللہ کی پناہ۔ قادری صاحب خود کو اس قدر زیر بحث دیکھ لیتے تو آنکھوں سے خوشی کے آنسوؤں کی ندیاں جاری ہوجاتیں ۔ کچھ تبصرے نامناسب تھے اس لیے حذف‘ لیکن ہزاروں تبصرے نوجوت سنگھ سدھو کو بھی مات دے رہے تھے ۔ کسی منچلے نے طاہر القادری کی تصویر کے ساتھ لکھا ''ظالمو! میں آگیا ہوں‘‘ اور اس کے ٹھیک نیچے مشرف کی تصویر مع جواب موجود تھی جس میں بتایا گیا ''جناب مسئلہ آنے کا نہیں، جانے کا ہوتا ہے‘‘۔ ایک جید صحافی نے اسلام آباد کی صورتحال پر لکھا ''ایئرپورٹ بند ، سڑکیں بند ، سکولز بند، کالجز بند ، بازار بند کھلے ہیں تو بس گٹر ‘‘ ۔ کسی نے کہا کہ ''طاہر القادری صاحب کو طیارے سے باہر نکالنے کے لیے گلو بٹ کو بھیجا جائے‘‘۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے ٹویٹ کیا '' قادری صاحب ہمیں مجبور نہ کریں کہ ان کو بزور طاقت جہاز سے اتارنا پڑے ‘‘ اس کے بعد سعد رفیق کو طیارے اور طاقت پر ٹویٹر کے '' شیروں ‘‘ نے وہ وہ کچھ یاد دلایا کہ انہیں طیارے اور ماضی بھول کر دوبارہ ریلوے بھلی لگنے لگی ۔ ایک تبصرے میں اخباری تراشے کے ساتھ وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید کو کچھ یاد دلانے کی کوشش کی گئی ، خبر تھی ''طاہر القادری صاحب کے طیارے کا رخ ہر گز نہیں موڑیں گے، پرویز رشید‘‘۔ اسلام آباد کے ایک سینئر رپورٹر نے مفت مشورہ دیا کہ ''جہاز کا اے سی بند کردو‘ قادری صاحب خود ہی باہر آجائیں گے‘‘ ۔ قادری صاحب کے معاملے کو ٹویٹر لکھنے والوں نے خوب ہینڈل کیا۔ ''فیس بکیے‘‘ بھی اپنی رائے کا خوب اظہار کرتے رہے۔ جگہ جگہ قادری صاحب کی پاکستانی مجالس کی تقاریر اور غیر ملکی انگلش چینلز کو دیے گئے انٹرویوز کا '' کھلا تضاد‘‘ یاد دلایا جارہا تھا۔ ایک خوبصورت منظوم اسٹیٹس سندھ ہائی کورٹ کے سینئر وکیل اور معروف شاعر خلیل احمد خلیل کا بھی تھا ۔
اُس بار تم جہاز مشرف کا موڑ کے
فوجی تعلقات میں اب تک نہیں جڑے
پرواز انقلاب کو لاہور موڑ کر
اِس بار بھی فضائی سیاست نہ لے اڑے
باکس آفس پرسیاسی ہفتے کا آغاز کھڑکی توڑ ہوا اور اب بھی کافی کچھ ہو سکتا ہے کیونکہ پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست ۔