نیا نام اور ایک سوال

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق 
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا 
غالب نے جب یہ ارشاد فرمایا‘ تب فرشتے ہی فرشتے تھے مگر آج یہ نام فرشتے ''فرشتوں‘‘ کے لیے استعمال ہوا کرتا ہے ۔ نام وہ تہذیب ہے جو ہم مخاطب کرنے لیے اپناتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو تہذیب کو ''آم ‘‘ کھلادیتے ہیں ۔اس کے بعد ہمارا طرز تکلم ، تکلف گوارا نہیں کرتا ۔ پھر جو جی میں آتا ہے وہ لب پہ آتا ہے اور رکتا نہیں کوٹھوں چڑھتا ہے ۔ نام بدلنے کا کلچر ہمارے ہاں ہمیشہ سے رائج ہے ۔وطن عزیز ترین پاکستان کو بھی یار لوگو ں نے کہیں ''مسائلستان‘‘ تو کہیں ''نامعلومستان ‘‘ تک لکھ مارا ہے ۔آپ ہر جانب دیکھ سکتے ہیں کہ ہم نام کے ساتھ فلم تھری ایڈیٹس والا '' چمتکار‘‘ کیا کرتے ہیں‘ مثلاً کسی ندیم کو دیما کرنا‘ رفیق کو فیکا بنانا‘ شکیل کو شاکا‘ اشرف کو اچھو پکارنا یا نعمان کو نومی کرنا ہماری عادت ہے۔ عمران کو ایمی بنادیتے ہیں ۔ وجہ تسمیہ اشکال ، افعال ، اعمال اور حال کے تابع ہوا کرتی ہے‘ جیسے کراچی میں جہاں انڈا موڑ ہے‘ وہاں چورنگی بیضوی ہے‘ جہاں بورڈ آفس ہے‘ وہاں میٹرک بورڈ کا دفتر ہے ۔ دومنٹ کی چورنگی کے بارے میں مشہور ہے کہ اسے پیدل گھوما جائے تو دو منٹ سے زیادہ ہی لگتے ہیں۔ نارتھ کراچی کا کالا اسکول گو کہ اب کالے رنگ کا نہیں مگر سنا یہی ہے کہ اکہتر کی لڑائی کے وقت بلیک آؤٹ میں عمارت کو سیاہ کر دیا گیا تھا ۔کٹی پہاڑی، مکا چوک اور چیل چوک کے نام کیوں پڑے‘ پورے پاکستان نے ٹی وی پر دیکھ رکھا ہے ۔
لاہور میں پیکھے وال موڑ بل کھاتا ہوا رستہ ہے اور یہی وجہ تسمیہ ہے ۔ گندا انجن علاقے کا نام اس لیے پڑا کہ یہاں ریلوے کے انجنوں کی صفائی ہوتی ہے ۔ کلمہ چوک اب نہیں رہا‘ انڈرپاس بن چکا ہے مگر جب کلمہ چوک تھا تو یہاں کلمہ طیبہ کا خوبصورت مونومنٹ موجود تھا ۔ اب انڈر پاس کے کناروں پراس مونو منٹ کے چھوٹے سے ماڈل تعمیر کردیے گئے ہیں تاکہ انڈر پاس بنانے والوں پر کوئی حرف نہ آئے۔ آج کل ہمارے یہاں جو نام سب سے زیادہ مقبول ہوتے ہیں وہ یا تو سیاستدانوں کو دیے جاتے ہیں یا سیاستدانوں کے عطا کردہ ہیں‘ جیسے عمران خان کو بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے دیے گئے نام طالبان خان اور بزدل خان اور اسی طرح عمران خان کی جانب سے بلاول کو نوازی گئی بے بی بھٹو کی عرفیت ۔ پی ٹی آئی چراغ پا ہے کہ رانا ثناء اللہ نے عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ خان کہہ ڈالا لیکن اگر یہی نوے کی دہائی ہوتی تو '' اسٹیبلشمنٹ میاں ‘‘ بھی قرار دیا جا سکتا تھا ۔ ایک سیاستدان کے نام ساتھ پنجاب کی روایتی محبت میں شیدا جڑا اور پھر انتقامی حدت میںٹلی لگ گیا ۔ زرداری صاحب کے نام میں نوے میں نوے فی صد تحریف نہیں ہوئی تھی مگر دوہزار بارہ اور دوہزار تیرہ میں شہباز شریف صاحب نے سو فی صد تحریف کرتے ہوئے انہیں جو جو پکارا وہ وہ پکارنا مناسب بھی نہیں تھا۔
زرداری صاحب نے اسی میچ میں میاں صاحب کو مولوی کہہ ڈالا ۔ زرداری صاحب نے مولوی کا نام لے دیا مگر بلا کس کو کہا‘ وہ بتا کر بھی چھپا گئے ۔متحدہ قومی موومنٹ کے قائد محترم الطاف حسین کو بھی کبھی پیر جی اور کبھی چیف صاحب کہہ کر پکارا گیا اور انہوں نے ہر پکار کا ٹیلی فونک جواب بھی دیا ۔علامہ مولانا طاہرالقادری کو کبھی مولانا طاہرالقادری الکناڈوی پکارا گیا تو کبھی کنٹینر والی سرکار ۔ 
نام کیوں بدلتے ہیں؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ جب کارکردگی عزائم اور توقعات کے خلاف ہو تو نام والے کو بدلنے سے پہلے کا مرحلہ نام بدلنے کا ہوا کرتا ہے ۔ جیسے شاہد آفریدی کا نام بوم بوم پڑا تو وجہ ان کے بلند و بالا چھکے تھے مگر مصباح کا نام مسٹر ٹُک ٹُک کیوں پڑا؟ اس کا جواب کیا لکھنا ۔راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر ، بوریوالہ ایکسپریس وقار یونس اور پروفیسر بھی کرکٹ کی دنیا کے دنیاوی نام ہیں۔ اگر پرفارمنس کی بنیاد پر موجودہ حکومت اور اس کے اداروں کے نام رکھے جائیں تو بجلی کے ایک ادارے کا نام گولی مار رکھ دیا جانا چاہیے۔ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی جملہ بیماریوں کے باعث چک شہزاد فارم ہاؤس کا نام گنگا رام اور کراچی میں ان کے ٹھکانے کا نام ''شفاء‘‘ رکھ دیا جانا چاہیے۔ سلمیٰ بٹ کی پنجاب اسمبلی کا نام ڈبلیو ڈبلیو ای، متحدہ اور پیپلز پارٹی کی بار بار کی دوستیوں سے قائم سندھ اسمبلی کا نام باب دوستی ، خیبر پختونخوا اسمبلی کا نام عمران خان کی ٹیم ہونے کی وجہ سے گرین شرٹس رکھا جائے اور بلوچستان‘ جس کے مسائل دنیا بھر میں زیر بحث آتے ہیں سوائے اسمبلی کے‘ اس کی اسمبلی بلڈنگ کا بھی کوئی اچھا سا نام رکھا جا سکتا ہے۔ پی سی بی کو '' چڑیا کا گھر ‘‘ کہا جا سکتا ہے (نوٹ اسے'' کا‘‘ کے بغیر پڑھنے سے بھی فرق نہیں پڑے گا )۔بھارت کی ریاست چھتیس گڑھ کی طرز پر پی سی بی کا نام'' پینتیس ‘‘ گڑھ بھی رکھا جا سکتا ہے۔ بجٹ ساز وزارت خزانہ کا نام کریلہ اسٹاپ کیا جاسکتا ہے۔ حکومتی ترجمان وزارت اطلاعات کا نام پیکھے وال موڑ ہوسکتا ہے ۔ رشوت خوروں کے ستائے پرویز خٹک صاحب پنجاب کا نام پولیس لائنز رکھ سکتے ہیں اورجواباً وزیر اعلیٰ ہاؤس خیبر پختوا کا نام اگر پرویز رشید صاحب سے پوچھیں تو وہ یقینا بنی گالہ تجویز کریں گے۔ اگر مذاق رات کا پپو وزیراعلیٰ ہاؤس سندھ کا نام رکھے تو قائم علی شاہ صاحب کے باعث اہرام مصر رکھ چھوڑے گا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے ٹھکانے کا نام لبن پورہ ہوسکتاہے۔ یہ تمام نام اس لیے موزوں کرنا پڑے کہ عدیل احمد نے لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر ای میل کی تھی اور پوچھا تھا کہ وہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وزارت پانی و بجلی کو کیا کہیں تو عدیل احمد صاحب پہلے بے حسی کی انتہا کا نام سنگ دلی ہوا کرتا تھا‘ اب اس کا نام وزارت پانی و بجلی ہوچکا ہے۔ 
اور اس کے باوجود جب ہمارے وزیر سحر و افطار ، عید ، یوم آزادی اور ایسے ہی دوسرے مواقع پر لوڈشیڈنگ نہ کرنے کے دعوے کرتے ہیں تو دل چاہتا ہے پوچھ لوں ؎
سمجھ نہیں پاتا کہ کیا ہیں؟
آپ جان کے کرتے ہیں یا ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں