گر میں مر جاؤں تو ...مار دینا اسے ...دار دینا اسے ...نار دینا اسے...اس کو مت چھوڑنا ...منہ نہیں موڑنا ...ساتھیو! دوستو! ... تم سدا سنگ رہے ...ہم آہنگ رہے ...در مسیحائی کا تم نے وا کر دیا ...میں بھلا تھا ہی کیا ...مجھ کو کیا کر دیا ...اب میری بات ہے ...سب کی ہی بات میں ...میں ہی موجود ہوں...سب کے جذبات میں ...تو اگر میں گیا ...تو مٹا دینا بس ...تم نشاں جو ملے ...اور اس راہ میں تم بچھڑ جو چلے ...میں مناؤں گا غم ...کر کے ...آنکھوں کو نم ...میں کہوں گا کہ ہم ...ہم تو مارے گئے... ہم تو مارے گئے ۔
آج کے سیاسی ہنگام میں سیاسی رہ نماؤں کی لایعنی سوچ نے مجھے یہ نظم کہنے پر مجبور کیا ۔ یہ نظم دراصل آج کے حالات میں میرا سیاسی رہنمائوں سے سوال ہے کہ اگر ان کو کچھ ہوجائے تو ان کے کارکن ان کے اپنے الفاظ اور ہدایت کے مطابق مخالفین کو نہ چھوڑیں‘ لیکن کارکن اگر جان سے گئے تو کارکنوں کو اشتعال دلانے والے سیاسی رہنما کیا کریں گے؟ گویا ایک
سیاسی رہنما کہہ چکے ہیں کہ پولیس کو وہ اپنے ہاتھوں سے پھانسی دیں گے لیکن اس بات پر یقین کم از کم میرے لیے بہت ہی مشکل ہے کیونکہ کئی رہنما اس سے پہلے بھی اپنے لوگوں کے جان سے جانے پر ان کے لیے لڑائی لڑنے کے اپنے وعدے پر عمل کرتے نظر نہیں آئے ۔دو بڑی مثالیں لے لیجیے‘ کراچی میں زہرہ حسین کا قتل ہوا تو عمران خان صاحب نے اسپتال کے بستر سے ہی ایک سیاسی رہ نما پر کھلا الزام لگادیا اور انصاف کی لڑائی کا وعدہ بھی کیا مگر کیا کچھ بھی نہیں ۔ راول پنڈی میں واثق حسین قتل ہوئے اور اس قتل کاالزام بھی راول پنڈی کے ایک سیاسی مخالف پر لگا اور وعدہ یہاں بھی قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا کیا گیا لیکن یہ لڑائی بھی اس وقت کہاں ہے خود تحریک انصاف کے کارکن نہیں جانتے ۔ ہمارے ملک میں غریب کی موت پر جو ہوا کرتا ہے وہی تمام جماعتوں کی طرح سیاست کے نوواردوں نے بھی کیا‘ کیونکہ یہ لڑائی عوام کی لڑائی کبھی تھی ہی نہیں ۔ یہ لڑائی ہمیشہ سے اقتدار کی لڑائی رہی‘ اسی لیے کارکن کی موت کا انجام ایک ہی ہے ۔ اظہار تعزیت ، ایک دورہ مقتول کے گھر ‘ ایک منہ دکھائی میڈیا کے لیے ،ایک وعدہ لڑائی کا اور پھر ، پھر اسے ڈھونڈ
چراغ رخ زیبا لے کر ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے 18اکتوبر کے جلسے میں جو لوگ جام شہادت نوش کرگئے‘ ان کے لواحقین کا حال میڈیا تین چار سال تک ہر 18اکتوبر کو دکھاتا رہا ۔ جو 27دسمبر کو مارے گئے ان کا نوحہ بھی ایسا ہی دردناک اور بے حسی کی داستان لیے ہوئے ہے ۔ قادری صاحب نے بھی عالمِ ارواح میں شہیدوں کے حال سے کارکنوں کو آگاہ کیا اور اگلی شہادتوں کے لیے تیار کرتے ہوئے انہوں نے بھی آئندہ کا لائحۂ عمل ایک لفظ میں بتادیا اور وہ لفظ ہے بدلہ ۔ جس طرح کی تیاریاں ہماری سیاست میں اس وقت ہیں اس کا انجام تصادم تک جاتا دکھائی دے رہا ہے اور اس تصادم میں نقصان ہوتا ہے ایک عام آدمی کا۔ اس نقصان کے بعد عام آدمی مرجاتا اور پیچھے رہ جانے والے جیتے جی مرجاتے ہیں ۔
سیاست کبھی ممکنات کا کھیل ہوا کرتی تھی لیکن اب سیاست مشکلات کا کھیل ہے ۔ ضد کا ٹکراؤ ہے ۔ دو ہاتھیوں کی لڑائی میں کارکن گھاس ہیں اور جذبات میں آکر ان کی عقل گھاس چرنے
چلی جاتی ہے ۔میرے گزشتہ کالم پر پشاور سے محمد صدیق صاحب نے ای میل کرکے مجھے کہا کہ وہ ان حالات میں بہت پریشان ہیں‘ ان کا جوان بیٹا ایک سیاسی جماعت کا ورکر ہے اور اپنی قیادت سے جنون کی حد تک محبت رکھتا ہے ۔ ان کی پریشانی یہ تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو لانگ مارچ میں جانے سے نہیں روک پارہے تھے اور انہیں حالات کے خراب ہونے کا بھی یقین تھا ۔ مجھے بھی حالات اچھے نظر نہیں آرہے گوکہ حکومت نے تھوڑی سی لچک دکھائی ہے لیکن عمران خان کا پہلا مطالبہ میاں صاحب کا استعفیٰ ہے اور یہ مطالبہ '' کوئی اور ہی ‘‘ پورا کرواسکتا ہے اور اسی کے آنے کا ڈر محمد صدیق کی ای میل میں موجود تھا ۔ اب جو بھی ہو لیکن مجھے سیاسی رہنمائوں سے یہ پوچھنا ہے کہ آپ کی موت کا بدلہ اور کارکن کی موت پر یوم شہدا ،یہ کیا مذاق ہے؟
اللہ پاکستان اور پاکستانیوں کی حفاظت کرے ( آمین )
پس تحریر : جمہوریت نے جمہور کو کچھ دیا ہوتا تو میں اس کے لیے بھی دعا کرتا۔