6 مئی 2010ء کا دن تھا۔ کراچی میں ملک کے سب سے بڑے اور سب سے جدید نجی ہسپتال میں، میں عجیب سی کیفیت میں تھا۔ اس کیفیت میں خوشی تھی کہ اللہ نے مجھے ایک بیٹے کا باپ بنایا تھا اور شدید پریشانی بھی تھی کیونکہ قبل از وقت جنم لینے والا مصطفیٰ این آئی سی یو میں تھا۔ اس کی ننھی سی جان خطرے میں تھی۔ وہ وینٹی لیٹر پر تھا۔ چھٹے مہینے کی پیدائش اور بوقت پیدائش وزن محض ایک کلوگرام۔ مصطفیٰ نے اٹھارہ دن این آئی سی یو میں گزارے اور ہم نے وہ دن ہسپتال کی راہداریوں، انتظار گاہوں، ہچکیوں اور سسکیوں میں گزارے۔ بالآخر وہ دن بھی آ گیا جب میرے بیٹے کو ڈسچارج کر دیا گیا... مگر آکسیجن کے ساتھ۔ کراچی میں یہ آکسیجن چوبیس گھنٹے اس کے ساتھ رہی اور لاہور آ کر بھی گھر ہو یا گاڑی ہمارا پیچھا آکسیجن سلنڈرز سے نہ چھوٹ سکا۔ تقریبا گیارہ مہینے یہ سلسلہ جاری رہا۔ روزانہ کی بنیاد پر آکسیجن کا ایک بڑا سلنڈر ہم خریدتے رہے۔ مارچ 2011ء کے بعد‘ جب سردی رخصت ہو رہی تھی‘ میرا بیٹا سنبھل چکا تھا۔ آج وہ الحمدللہ صحت مند ہے اور ہماری خوشیوں کی سب سے بڑی وجہ بھی۔ اب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ مالک کائنات نے بڑا احسان کیا‘ مجھ گناہ گار پر۔ مجھے اللہ نے کم از کم اتنے وسائل دیے کہ میں یہ سب اس کی مہربانی سے کر پایا۔ مصطفیٰ کا پہلا ہاسپٹل بل میری نوکری کے تحت حاصل میڈیکل انشورنس سے کہیں زیادہ تھا مگر اس مسبب الاسباب نے سب کر دیا۔
اللہ کی کرنی وہی جانے۔ مجھے اس نے نوازا اور امتحان آسان کر دیا جبکہ اکثر وہ مشکلوں میں ڈال کر امتحان لیتا ہے۔ بندوں کا امتحان جب وہ لیتا ہے تو مصائب کے حملوں کے سامنے صبر و شکر کی ڈھال کام آتی ہے۔ انفرادی حیثیت میں فرد یہ امتحان دیتا ہے اور وہ اس کے فیصلے کرتا ہے۔ یہاں نوازنا یا وہاں نوازنا‘ اس کی منشا وہی جانتا ہے۔ ہمارا ادراک خام ترین ہے۔ خاندانوں کے امتحان لیتا ہے اور ان کے فیصلے کرتا ہے‘ بالکل اسی طرح وہ حکمرانوں کے امتحان لیتا ہے اور ان کے فیصلے کرتا ہے۔ ارشاد ہے ''ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ ہو گی‘‘ پوچھ ہو گی‘ خالق کائنات کی جانب سے ہمارے حکمرانوں سے ان کی رعیت کے بارے میں پوچھ ہو گی۔ فراموش نہ کر بیٹھنا‘ وہ گر رحمن و رحیم ہے تو وہی قہار بھی اور وہی جبار بھی ہے‘ وہی جزا اور وہی سزا دے گا۔
میں وہاڑی میں پل پل مرتے والدین سے کوئی ایسی بات کر ہی نہیں سکتا جو انہیں سکون دے سکے۔ جو ان کے غم کو کم کر سکے۔ جو ان کو بھلا دے کہ ان کے ساتھ ڈی ایچ کیو میں کیا بیتی ہے۔ ایسے لفظ دنیا کی کسی زبان میں، کسی کتاب میں، کسی مقرر کی گفتگو، کسی مبلغ کے وعظ اور کسی ناصح کے تجربے میں ہیں ہی نہیں‘ جنہیں ان والدین کے لیے حرف تسلی قرار دیا جا سکے کہ جن کو وہ زندگی ملی ہے جس سے بہتر شاید موت ہوتی۔ 9 ستمبر کا سورج طلوع ہوا اور چاند کے سات ٹکڑے ڈوب گئے۔ وجہ کیا بنی؟ ہسپتال میں آکسیجن نہیں تھی اور عملہ نرسری میں چند گھنٹوں کے چودہ نومولود چھوڑ کر سو رہا تھا۔ اپنی پیشہ ورانہ موت کے بعد حکام نے اپنی ذہنی موت کا ثبوت دیا اور لگے بہانے تراشنے۔ اس عملے کے ہاتھوں وہ پھول آغوش لحد میں چلے گئے جو ابھی آغوش مادر کی گرماہٹ نہ پا سکے تھے۔
ایک جانب یہ معیار ہے‘ یہ حال ہے بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا‘ اور دوسری جانب ہمارے حکمران جب سڑک پر اپنی رعونت کے ساتھ جمہور کے ریوڑ روک کر راستوں کو اپنے اجداد کی جاگیر ثابت کرتے ہوئے گزرتے ہیں تو ان کے قافلے میں وہ ایمبولینس ہوتی ہے‘ جس میں وہاڑی یا پاکپتن جیسے علاقوں کے ہسپتال سے بہتر اور وافر سہولتیں ہوتی ہیں۔ ان کی ترجیح مرتے ہوئے لوگ نہیں ہیں۔ یہ گنیز میں نام کمانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ صحت کا بجٹ کاٹ کر پل بناتے ہیں۔ اپنی برائے نام کار گزاری کی تشہیر کرتے ہیں۔ ایسی تشہیر جس میں یہ واضح ہو سکے کہ فلاں فلائی اوور اتنے عرصے میں بن گیا۔ دوسری طرف اسی صوبے کے ایک شہر کے ایک ہسپتال میں بچے مر جاتے ہیں محض اس وجہ سے وہاں آکسیجن کے سلنڈر موجود نہ تھے۔ حکمرانوں کی بے حسی اور عوام کی بے بسی نئی نہیں۔ 7جون 2013ء کو لاہور میں سروسز ہسپتال کی نرسری میں آگ لگی اور چھ نومولود جل گئے۔ ہوا کیا انکوائری اور بس۔ نرسری میں جو آگ لگی تھی وہ بجھ گئی مگر پیروں تلے جنت جلی تھی‘ وہ کیسے بجھے گی۔ کیا
کہیں اپنے حکمرانوں سے؟ آپ بنائیے‘ پل بنائیے، غریب کے بچے کے جسم میں سانس اور روح کے درمیان سانس کا پل ٹوٹ جائے تو ٹوٹ جائے۔ آپ چلائیے، لاہور کے بعد پنڈی اسلام آباد اور ملتان میں جدید بس چلائیے، غریب کا بس نہ چلے تو نہ چلے۔ آپ کیجیے‘ پیش کیجیے وژن 2025ء‘ غریب کے نومولود پچیس گھنٹے میں گزر جائیں تو گزر جائیں۔ آپ پڑھیے جلسوں میں کہ عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے۔ غریب صاحب اولاد ہوتے ہی برباد ہو جائے تو ہو جائے۔
جناب خادم اعلیٰ صاحب! حکومت آپ کی ہے اور ہر مسئلہ آپ کا مسئلہ ہونا چاہیے۔ میں نے اپنی کہانی اس لیے سنائی کہ مجھ جیسوں کی تعداد شاید پانچ فی صد بھی نہیں‘ مگر کتنوں کے مصطفیٰ یہ سب پا سکتے ہیں؟ وہ آپ کی رعیت ہیں ان کی ہر مشکل آپ کا امتحان ہے اور ان کے لیے آپ ہی جواب دہ ہوں گے۔ میرا خاندان یہاں کے نجی ہسپتال میں اور آپ کا خاندان لندن کے نجی ہسپتال میں علاج کروا لے گا مگر یہ غریب کہاں جائیں؟ میرے نزدیک یہ بات قابل ستائش نہیں کہ آپ کے راج میں جگہ جگہ مقام مصیبت پر ہم آپ کو کھڑا دیکھتے ہیں بلکہ یہ بات قابل تشویش ہے کہ آپ کے راج میں جگہ جگہ مقام مصیبت کیوں ہے؟