اسے کیا کہیے؟

ایک مملکت تھی‘ ویسی ہی جیسی کوئی عام سی مملکت ہوا کرتی ہے۔ مملکت کی کچھ ریاستیں تھیں‘ عام ریاستوں جیسی۔ ان ریاستوں کے حاکم بھی کچھ خاص نہیں تھے‘ عام سے تھے۔ امن و امان کی صورت حال بھی بس ٹھیک تھی۔ کبھی بدامنی ناکام‘ کبھی کامیاب۔ شہری بھی معمولی تھے‘ کچھ اپنے فرض ادا کرتے تھے اور سب اپنے حقوق مانگتے تھے۔ مگر ایک ریاست کا حال باقی تمام ریاستوں سے بُرا تھا۔ وہاں کی رعایا تنگ تھی۔ ان کے کوئی حقوق نہ تھے۔ بدامنی کا بول بالا تھا اور ملکوں ملکوں وہاں کے چوپٹ راج کا چرچا تھا۔ وہاں دو بکریاں بھی ایک گھاٹ پر ایک ساتھ پانی نہیں پی سکتی تھیں کیونکہ وہاں کے گھاٹ آلودہ تھے۔ حاکم بدمست تھے۔ رعایا سڑکوں پر دن دیہاڑے لٹتی تھی اور پولیس کے سپاہی وہاں کے رہزنوں کی رکھوالی کیا کرتے تھے۔ وہاں سرکار بیت المال کا مال اپنے ''بیت کا مال‘‘ سمجھتی تھی۔ درس گاہوں میں جانور باندھے جاتے تھے اور مراکز علاج کا حال ایسا تھا کہ خود انہیں علاج کی ضرورت تھی۔ اس ریاست کا حاکم اس لیے حاکم تھا کہ ریاست کے مائی باپ اس سے خوش تھے‘ ورنہ حکومت کی نہ اس میں حکمت تھی اور نہ ''مت‘‘۔ ایک بار ریاست کے ایک شہر سے دوسرے شہر کو ایک قافلہ جا رہا تھا۔ کافی بڑا قافلہ، جس میں مال مویشی بھی تھے، پیدل لوگ بھی، گاڑیوں میں سوار افراد بھی۔ اس قافلے میں معذور
افراد کی بھی ایک بہت بڑی تعداد تھی۔ بعض بینائی سے محروم اور بعض بیچارے لنگڑے۔ اس قافلے کو اچانک ایک جگہ رہزنوں نے گھیر لیا اور لگے لوٹ مار کرنے۔ کچھ لوگوں نے مزاحمت کی تو رہزنوں نے ہتھیاروں سے جواب دیا۔ بہت سے لوگ بھاگ گئے مگر تمام معذور افراد مارے گئے۔ اتنی بڑی تعداد میں معذور افراد کے مارے جانے سے کہرام مچ گیا۔ ہر شخص کا کلیجہ پھٹ گیا۔ ہر طرف ریاست کے ذمہ داران پر لعن طعن ہونے لگی۔ مملکت کے حاکم نے ریاست کے حاکم کو بلا بھیجا۔ بھرے دربار میں اس کی خوب سرزنش ہوئی۔ سب یہ سوچ رہے تھے کہ ریاست کا حاکم لاجواب ہو چکا۔ اس عظیم نقصان کا اس کے پاس بھلا کیا جواب ہو سکتا ہے۔ قصہ غم تمام بیان کیا جا چکا‘ تو مملکت کے حاکم نے ریاست کے حاکم سے جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ بھی کہے کہ اس کے خلاف انتہائی کارروائی کیوں نہ کی جائے؟ وہ گویا ہوا اور کہا کہ حاکم مملکت! مجھ پر آپ کا عتاب بے سبب ہے۔ یہ بات کسی طور درست نہیں کہ یہ زندگیاں امور ریاست سنبھالنے میں میری ناکامی کے سبب گئیں بلکہ رہزنوں کے حملے میں 
مارے جانے والے افراد خود اپنی جان جانے کے ذمے دار ہیں۔
اس کی یہ بات سن کر حاکم مملکت پریشان ہو گیا اور کہا کہ وہ جاننا چاہے گا کہ وہ مظلومین وہ مقتولین کیسے اپنے قاتل آپ ہیں؟ ریاست کے حاکم نے کہا: دیکھیے حاکم سلطنت! رہزنوں کے حملے میں صرف معذور افراد مارے گئے اور باقی تمام بھاگ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب رہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جانیں میری نااہلی کے باعث نہیں گئیں‘ نہ ہی مرنے کی وجہ صرف ڈاکو ہیں بلکہ یہ زندگیاں مرنے والوں کی معذوری کے باعث گئیں۔
اس کہانی کو یہیں روکیے کیونکہ حاکم ریاست کے ساتھ جو بھی ہوئی وہ جاننا قطعاً ضروری نہیں۔ بات اس کی کیجیے جو ہمارے ساتھ ہو رہی ہے۔
اب ذرا کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کے کپتان کا بیان ذہن میں تازہ کیجیے: ''تھر میں بچے بیماری کے باعث نہیں غربت کے باعث مرے‘‘۔ سائیں (آپ کی صوابدید، سائیں کے معانی سندھ والے سمجھیں یا پنجاب والے) نے صرف یہی ڈارک کامیڈی تخلیق نہیں کی بلکہ وہ اپنی نوک نطق سے اکثر شاہکار پیش کرتے ہیں۔ تھر کے ایک حالیہ دورے میں سائیں یہ بھی فرما چکے ہیں کہ تھر میں ایسے ہسپتال موجود ہیں کہ جن کا مقابلہ صوبے کے کسی بھی بڑے شہر کے سرکاری ہسپتال سے کیا جا سکتا ہے ( یقین جانیے سچ ہے کیونکہ صوبے کے بڑے شہروں کے سرکاری ہسپتالوں کا حال بھی تھر کے ہسپتال جیسا ہی ہے)۔ سائیں نے یہ بھی کہا کہ تھر کے ہسپتال کی شان ایسی ہے کہ میرپور خاص کے ڈی سی او تک علاج کے لیے تھر آتے ہیں (شاید تھر آتے ہیں کی جگہ شاہ سائیں ''تھراتے ہیں‘‘ کہنا چاہتے تھے)۔ سائیں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پورے سندھ نے ان کے دور میں وہ ترقی کی ہے جس کی مثال نہیں ملتی اور یہ بات حقیقت ہے کہ مثال نہیں ملتی۔ میری پیدائش کوٹری کی ہے اور میں نے تقریباً پورے سندھ کو دیکھا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے حیدر آباد چلیں تو یہ سفر آپ ایک بڑی سڑک پر طے کرتے ہیں اور حیدر آباد کے بعد باقی سندھ کے رستوں پر۔ کہیں کہیں گڑھوں کے درمیان سڑک بھی آتی ہے۔ تعلیم کا حال یہ ہے کہ وزیر تعلیم کو پورا پاکستان اپنے شہری سیاسی مخالفین سے یہ ضد کرتے دیکھ چکا ہے کہ وہ لطیف آباد میں جامعہ نہیں بننے دیں گے۔ روزگار کی فراہمی کا حال یہ کہ وڈیروں کی نجی جیلوں میں تاعمر فکر معاش مٹا دی جاتی ہے؛ البتہ اچھی سڑکیں ملی ہیں تو موہنجودڑو ایئرپورٹ سے رتوڈیرو تک جانے والے رستوں کو کہ صوبے کے تمام منصوبے یہیں اترنے اور پھرنے والوں کی ضرورت ہیں۔ دراصل خیر پوری حکمران سے خیر کی توقع کرنا ایسا ہی ہے جیسے مرغے سے انڈے کی امید رکھنا یا مچھلی کے پائے کھانے کی خواہش کرنا۔
کاش کوئی انہیں یہ سمجھا دے کہ: 
روٹی کپڑا اور مکان نہیں مانگتا روتا تھر
جذبہ خیر کا مانگے تم سے موت کی نیند میں سوتا تھر 
''حاکم‘‘ اس میںجو نہ جنے اس مٹی کا دوش ہے کیا
بولو تب بھی ہوتا ایسا ''نواب شاہ‘‘ جو ہوتا تھر 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں