میں نے کہیں پڑھا: کاش وزیراعلیٰ اور وزیر اعظم اس وقت ملک میں ہوتے اور میں اس وقت سے سوچ رہا ہوں کہ یہ خواہش کتنی معصومانہ ہے۔ لاہور میں نابینا افراد پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا ۔ قانون واقعی اندھا ہوگیا بلکہ اندھا دھند ہوگیا اور کسی فرد کی اس خواہش نے مجھے پریشان کردیا ۔ میں سوچ میں پڑگیا کہ شاید ایسا سوچنے والوں کے لیے اتنا ہونا کافی نہیں ۔ نابینا افراد شاید ان کی نظر بینا میں اس سے زیادہ ''تواضع ‘‘ کے مستحق تھے۔ ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ حکمران جب جب موجود تھے‘ تب تب ''کام ‘‘ زیادہ دل جمعی سے کیے گئے ۔ سترہ جون کو ماڈل ٹاؤن میں جو کچھ رات کی ظلمت میں شروع ہوا وہ دن دیہاڑے اپنے بھیانک انجام کو پہنچا اور ''وہ‘‘ یہیں تھے ۔ گھنٹوں چلنے والے آپریشن کو روکا نہیں گیا اور '' شیر جوان ‘‘ رکاوٹیں اکھاڑنے کے بجائے ''ہٹاتے‘‘ رہے۔
جب لاہور میں اسی مال روڈ پر‘ جہاں نابینا افراد پر تشدد ہوا‘ مارچ کے عین وسط میں نرسوں کا احتجاج پنجاب پولیس کے لیے درد سر بنا تو لاٹھیوں سے ان کے سر کھولے گئے اور سات ماہ کی حاملہ ایک اٹھائیس سالہ نرس اور اس کے ''نامولود‘‘ کی جان پولیس تشدد نے لی تو ''وہ‘‘ یہیں تھے۔ اس نے گنگارام میں دم توڑ دیا ۔
جنوری اور فروری کے مہینوں نے مسلسل دہشت گردی کے واقعات دیکھے ۔ خود کش حملوں اور بم دھماکوں کا سلسلہ ریاست کا سب سے بڑا ناسور بنا اور فروری کے پہلے ہفتے میں جب خیبر پختونخوا نے دو حملوں میں بیس سے زیادہ اموات دیکھیں تو ہم نے رہنمائوں کو بھاری دل کا غم چولستان کی رات میں ہلکا کرتے دیکھا۔ کچن کیبنٹ کے ''کلاکار‘‘ اور گلوکار دونوں ''حاکم اعلیٰ‘‘ کو مشورے دے رہے تھے کہ دہشت گردی کے اس ناسور کو کیسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور کیا یہ بھی بتانا پڑے گا کہ چولستان یہیں ہے اور '' وہ ‘‘ بھی یہیں تھے ۔
جب سانحہ بادامی باغ ہوا تو مرکز میں نہ سہی مگر '' یہیں ‘‘ ان کی حکومت تھی اور ایک سو ستر سے زائد مسیحیوں کے گھر جلادیے گئے تھے اور وہ یہیں تھے ۔ ایک سو ستر سے زیادہ گھروں کو ایک ہجوم جلائے‘ اس کے لیے بڑا وقت درکار ہوتا ہے مگروہ جو یہیں تھے انہوں نے کچھ نہ کیا اورمگر جب اسی بادامی باغ کے مشتعل افراد نے میٹرو کے ایک اسٹیشن پر اپنا اشتعال نکالا تو آن کی آن میں گرفتاری کا فرمان جاری کر دیا گیا اور ستر سے زائد نوجوان گرفتار ہوگئے ۔
سانحہ گوجرہ ہوا اور نو افراد موت کا رزق بن گئے سینکڑوں گھر جلا دیے اور مرکز اور صوبے میں'' پی پی ‘‘ ''نونی ‘‘ لڑائی تک شروع ہوگئی تو ہوا کیا ؟مرکز والے بھی یہیں تھے اور صوبے والے بھی یہیں اور جو مر رہے تھے جو گھر جل رہے تھے وہ بھی یہیں تھے ۔
مئی 2011ء میں دو بچیوں کو گڈ گورننس والے صوبے کے سب سے '' گڈ‘‘ شہر میں پنجاب پولیس کی خواتین نے سڑک پر اپنے تشدد سے شکار کیا اوران بچیوں پر چوری کاالزام لگانے والے کو تشدد کے لیے سرعام کھلا چھوڑدیا گیا۔ ہنجروال میں یہ دونوں بچیاں بربریت کا نشانہ بنیں تو '' وہ ‘‘ کہیں اور نہیں تھے ، یہیں تھے۔ ارم اور کرن دنیا سے رخصت ہوئیں اور جب ورثاء نے اس واقعے پر احتجاج کیا تو ایک بار پھر پولیس نے خواتین کو بالوں سے پکڑ کر سڑک پر گھسیٹا ،ماراپیٹا اور پھر پرچہ بھی ان کے خلاف کاٹا تو بھی '' وہ ‘‘ یہیں تھے ۔
زیادہ دور نہ جائیں محض دو ماہ پہلے اکتوبر کی چار تاریخ کو سرگودھا میں ایک تھانے کی پولیس نے دوسرے تھانے کی حدود میں جاکر دیواریں کود کر چھاپہ مارا ۔ ایک ایم پی اے کے کہنے پر یہ کارروائی کی گئی اور گھر میں گھس کر ایک پسندکی شادی کرنے والے لڑکے کی ماں کو تشدد کرکے مار ڈالا گیا۔ ظلم کی انتہا یہ کہ معاملہ پانچ سال پرانا ہے اور لڑکی کا عدالت میں بیان موجودہے کہ شادی اس نے پسند سے کی ہے‘ پھر بھی پولیس ''انصاف‘‘ کرنے پر مصر رہی اور ''وہ‘‘ جو یہیں تھے۔ ا نہوں نے وہی رسمی کارروائی کی کہ معاملے کا نوٹس لے کر رپورٹ طلب کرلی ۔وہ یہیں ہوں یا نہیں ہوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ؎
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلا ئے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
معذوروں کے عالمی دن پر معذوروں پہ تشدد کرکے ہم نے اپنے ذہنی اپاہج ہونے کا ثبوت پوری دنیا کو دیا اور پھر سوچنے بیٹھ گئے کہ کاش ''وہ ‘‘ یہیں ہوتے ۔ اچھا ہواوہ یہاں نہیں تھے ورنہ ماضی نے جو مثالیں رقم کی ہیں وہ انتہائی افسوسناک ہیں۔ ہمیشہ وہی حال کہ چھاپہ مارنے جاؤ اور بندہ مار کے آؤ ، ہتھکڑیاں پہنانے جاؤ اور کفن پہنا کے آؤ ، منتشر کرنے جاؤ اور قصہ مختصر کرکے آؤ ،جعلی پرچے پر قیدکرنے جاؤ اورزندگی کی قید سے آزاد کرکے آؤ ۔
ہمارے حکمران یہاں ہوں یا نہ ہوں ان کے مسائل منٹوں میں حل ہوتے ہیں اور اکثر عوام کا مسئلہ بھی منٹوں میں حل ہوجاتا ہے مگر ہمیشہ کے لیے۔ ان کے گھروں اور ایوانوں کے باہر دیواریں گھنٹوں میں تعمیر ہوجاتی ہیں اور عوام کی لاشیں گھنٹوں گرائی جاتی رہیں انہیں فرق نہیں پڑتا تو پھر کیا فرق پڑے کہ وہ یہاں ہوں یا نہ ہوں۔ ہم تو فیض یاب شاید کبھی نہ ہوں :
کب دیکھیں گے وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے؟
جو لوح ازل پہ لکھا ہے کب دیکھیں گے؟
کب ظلم و ستم کے کوہ گراں روئی کی طرح اڑجائیں گے ؟
کب محکوموں کے پاؤں تلے یہ دھرتی دھڑدھڑ دھڑکے گی؟
کب راج کرے گی خلق خدا جو ہم ہی ہیں اور ہم ہی ہیں
ہم منظر ہیں تم ناظر ہو ہم پستے ہیں تم جابر ہو