جو ہمارا ہے ،وہ ہمارا ہو

نارتھ کراچی کے سیکٹر ٹو کے پیچھے پہاڑیاں بچپن میں ہمارے کھیلنے کی پسندیدہ جگہ تھیں ۔ لاہور آنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ گرمی کیا ہوتی ہے۔ کراچی کی معتدل آب و ہوا میں شدید گرمی بھی لاہور کے ٹھیک موسم جیسی ہوا کرتی ہے اور اسکول کے جس زمانے کی میں بات کررہا ہوں تب گرمی سردی کہاں خاطر میں لائی جاتی ہے ۔ سیکٹر فائیو اے ٹو میں اپنے گھر سے نکل کر دو ڈھائی کلو میٹر دور ان پہاڑیوں پر ہم کھیلنے جاتے تھے ۔ میں ، چھوٹا بھائی اطہر اور اسکول کے ایک دو دوست یا کبھی کبھار اپنے خالہ زاد بھائیوں کو ساتھ لیا اور پہنچ گئے ان پہاڑیوں پر ۔ ان پر چڑھنا ، چڑھ کر بیٹھ جانا ، دور تک نظارے کرنا اور وہاں بیٹھ کر اپنا گھر ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کرنا یہی ہمارے کھیل ہوا کرتے تھے ۔ کراچی کے اور خاص طور پر نارتھ کراچی کے رہنے والے واقف ہیں کہ جس جگہ کی میں بات کررہا ہوں وہاں آگے پیچھے دو پہاڑیاں ہیں‘ جن کے درمیان کوئی دو سو میٹر کی جگہ ہے۔ پہاڑیوں کا یہ سلسلہ نارتھ کراچی سے شروع ہو کر نارتھ ناظم آباد کے عقب سے ہوتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ کئی کلومیٹر پر پھیلے ان علاقوں کے اکثر بچوں نے ان پہاڑیوں پر اپنا بچپن گزارا ہوگا مگر کچھ عرصے سے یہ کھیل ، یہ شغل تقریباً ختم ہو چکا ہے ۔ اب پہاڑیوں اور ان کے اطراف میں طالبان موجود ہیں ۔ سیکٹر ٹوکے پیچھے کی پہاڑیاں ہوں یا منگھوپیر کا علاقہ اور اس کے ساتھ ساتھ 
بہت سی بستیاں‘ سب دہشت گردوں کے قبضے میں ہیں۔ یہاں تین چار برسوں میں تو انہوں نے عدالتیں تک قائم کی ہیں۔ کراچی میں یہ لوگ اغوا برائے تاوان ، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کی سب سے بڑی وارداتیں انجام دیتے ہیں۔ سہراب گوٹھ سے آگے بڑھ کر شہر سے باہرکی جانب جائیے تو سڑک کے دونوں جانب کئی کلومیٹر کے علاقے پر اب یہ لوگ آبادیوں کے اندر موجود ہیں۔ جہاں جہاں ان سے ہو سکا انہوں نے اپنے پورے پورے محلے بسالیے ۔اس مقصد کے لیے انہوں نے زمینوں پر قبضے کیے ۔ یہ حال شہر میں کئی مقامات پر ہے۔ میرے ایک صحافی دوست نے ان پر وہ بے باک رپورٹنگ کی کہ ہمیں اس کی زندگی خطرے میں نظر آنے لگی مگر اس سر پھرے کو نہ سدھرنا تھا ،نہ سدھرا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ پاکستان کے معاشی دارالحکومت کے نواح میں ان کا بدمعاشی دارالحکومت ہے۔ یہ سمجھ لیجیے کہ کئی برسوں سے آباد کراچی کے بیرونی حصوں کو جب غیر دہشت گر د قبضہ مافیا نے اپنے پنجوں میں جکڑنا شروع کیا تو یہ لوگ بھی وہاں بستے گئے بلکہ گھستے گئے اور روکنے والا کوئی نہ تھا ۔ متحدہ قومی موومنٹ اور اس کے قائد الطاف حسین نے مسلسل اس جانب توجہ
دلانے کی کوشش کی لیکن سننے والا کوئی نہ تھا۔ ہر بار متحدہ کی جانب سے طالبانا ئزیشن اور ان کی مجرمانہ سرگرمیوں کی وارننگ پر نام نہاد اہل دانش اور ٹی وی کے دکانداروں نے یہی کہا کہ بھتے کی سب سے بڑی دکان متحدہ چلارہی ہے۔ 
مجھے متحدہ سے محبت نہیں اور بہت سی باتوں پر میں اس سے اختلاف بھی رکھتا ہوں۔ اس اختلاف کا اظہار میںنے اپنے دوست اور استاد سابق ایم این اے عابد علی امنگ سے لے کر اپنے مباحثوں کے سینئر اور ٹیچر فیصل سبزواری تک‘ سبھی سے کیا ہے لیکن کراچی کو کسی حد تک جاننے کی بنا پر میں یہ یقین سے کہتا ہوں کہ متحدہ کی تنبیہ درست تھی اور اگر اس پر کان دھرے جاتے تو آج جو صورت حال ہے ،وہ نہ ہوتی۔ 
اب کراچی کی اس تصویر کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیجیے اور پاکستان کا نقشہ دیکھیے۔ سینکڑوں کلومیٹر کے علاقے میں دشوار گزار پہاڑوں پر یہ لوگ بسے ہوئے ہیں ۔ ان کے لیے بھی ہمیشہ شور مچایا گیا‘ واویلا کیا گیا مگر ہم نے اس قبضہ مافیا کو بسنے دیا۔ کراچی کی طرح انہوں نے یہاں سے پورے پاکستان سے بھتہ مانگا ہے۔ ان لوگوں نے ٹارگٹ کلنگ کی ہے۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کی ہیں ۔
یہ عدالتیں لگاتے ہیں ، فیصلے سناتے ہیں ، سزائیں دیتے ہیں اور انہوں نے ریاست کے اندر ایک ریاست اپنے تئیں قائم بھی کرلی ہے ۔ ان کا '' اپنا‘‘ اسلام ہے ۔ خود ساختہ شریعت ہے ۔ ان کے اپنے جزا و سزا کے پیمانے ہیں اور یہ لوگ اب دھونس اور دھاندلی سے پاکستان کو غلام بنانا چاہتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ کروڑوں لوگ چند سو لوگوں کے غلام ہوں۔ ان کی مرضی کی زندگی بسر کریں۔ یہ چاہیں تو روئیں اور یہ چاہیں تو چپ ہوجائیں۔ ہنسنے کی اجازت ان کے قانون میں ہے نہیں ۔ یہ جہالت کے مارے ہوئے ، بھٹکے ہوئے لوگ کیا چاہتے ہیں اور کیوں چاہتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں لیکن ایک بات جو مجھ سمیت بہت سے لوگ سمجھنے سے قاصرر ہے‘ وہ ہے ان چند لوگوں کی لن ترانی‘ جو ان کو اپنا بھائی قرار دیتے رہے۔ جو یہ کہتے رہے کہ طالبان ہمیں اس لیے نشانہ بناتے ہیں کہ ہم اچھے مسلمان نہیں۔ ہم صحیح معنوں میں اسلامی ریاست نہیں ۔ہمیں ان سے مذاکرات کرنے چاہئیں ان کا نقطہ نظر سننا چاہیے ۔بعض تو اب بھی ان کی بربریت کی تاویلیں پیش کرنے سے باز نہیں آتے ۔
یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ بھائی ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ہی جوانوں کو اغوا کریں ؟ ان کے سر کاٹ کر ان کی ویڈیوز جاری کریں؟ کٹے ہوئے سروں کے ساتھ فٹبال کھیلنے والے بھٹکے ہوئے نہیں کھسکے ہوئے لوگ ہیں ۔ مگر اب ان کے دن انشاء اللہ گنے جا چکے۔ پشاور کے اسکول سے ان کے سبق سیکھنے کا آغاز ہوچکا ہے ۔ اب ان کو بتانے کا وقت آگیا ہے کہ:
اب اور کتنی دیر یہ وحشت، یہ ڈر، یہ خوف
گرد و غبارِ عہدِ ستم اور کتنی دیر
شام آگئی ہے ڈوبتا سورج بتائے گا
تم اور کتنی دیر ہو، ہم اور کتنی دیر 
اب وقت آگیاہے کہ نارتھ کراچی سے لے کر ساؤتھ ہو یا نارتھ وزیرستان ،ہماری تمام پہاڑیاں ، ہمارے تمام میدان ، ہمارا ہر گاؤں اور ہمارا ہر شہر ہمارا ہو۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں