میری نگاہوں کے سامنے کچھ مناظر ہیں۔ شان و شوکت کے مناظر، رعب و دبدبے کے مناظر، جاہ و حشم کے مناظر، رعونت کے مناظر، تکبر کے مناظر‘ کسی حد تک احتیاط اور ہر حد تک بے حسی کے منا ظر مگر ساتھ ہی میری نظریں کچھ مناظر اور بھی دیکھتی ہیں‘ مفلسی کے مناظر، کسمپرسی کے مناظر، تحقیر کے مناظر، تقصیر کے مناظر‘ ہر حد تک غفلت اور ہر حد تک بے بسی کے مناظر۔
یہ مناظر مجھے دِکھتے ہیں داتا کی نگری میں، گلبرگ، گارڈن ٹاؤن، فیصل ٹاؤن اور کوٹ لکھپت کے درمیانی علاقے میں جہاں روزانہ ہزاروں افراد کی مجبوری، ان کا وقت، ان کی زندگی ایک تماشا بنتی ہے اور ہزاروں کے لیے اب یہ معمول ہے۔ کچھ اونچے محل ہیں جن سے سب کو پرے رکھنے کا ایسا بندوبست ہے کہ عوام پر عوام کی زمین تنگ، ٹیکس گزار اپنے پیسے سے بننے والی سڑک سے گاڑی نہیں گزار سکتے۔ چھ سینگوں کے فولادی ڈھانچے ان کے رستے میں پڑے ہیں اور عوام کے محافظ خواص کے محافظ ہیں۔ ایسے مناظر آپ کو لاہور میں کم از کم اٹھارہ مقامات پر مل جائیں گے۔ ایک گھر کے لیے سینکڑوں گھرانوں کی تحقیر، ایک خاندان کے آرام کے لیے ہزاروں افراد کی بے آرامی اب زندگی کا حصہ ہے۔
یہ مناظر مجھے شہر قائد میں بھی نظر آتے ہیں‘ جہاں ایک نہ بسنے
والے خاندان کے محل نے ہزاروں بسنے والے گھروں کا سکون حرام کر دیا ہے۔ پہلے گھر کے باہر قبضہ ہوا پھر سروس روڈ نہیں رہا پھر دو طرفہ سڑک بے دھڑک ایسے غائب ہو گئی جیسے مداری کے ہیٹ میں خرگوش غائب ہو جاتا ہے اور اس کے بعد ایک بلند و بالا دیوار نے یہ سب کچھ اپنے اندر سمو لیا اور وہاں موجود سینکڑوں اپارٹمنٹس کی ویلیو کئی لاکھ کم ہو گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے ہی مناظر مجھے کراچی میں کچھ اور مقامات پر بھی نظر آتے ہیں۔ایسے مقامات پر جہاں اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے والے عوام ہوں تو انہیں جانے کی اجازت نہیں اور اگر عوامی نمائندے ہوں تو انہیں بھی کنٹینرز پر چڑھ کے بات کرنا پڑتی ہے ۔ یہ مناظر مجھے کراچی میںکم از کم بیس سے زائد مقامات پر دِکھتے ہیں بلکہ بعض مقامات پر تو دُکھتے ہیں۔ صوبے کے کچھ اور شہروں کا حال بھی ایسا ہی ہے۔
خیبر پختونخوا کی کیا بات کی جائے۔ سرکاری ملازم اقبال تاجک کا مشہور خط ان کے کارناموںکا ثبوت ہے اور ایسے تمام مناظراس خط کا ایک ایک لفظ دکھاتا ہے۔ اقبال تاجک نے اعلیٰ حکام کو ایک بل بھی اپنے خط کے ذریعے ارسال کیا اور بتایا کہ ان کی حفاظت کے لیے کی جانے والی سڑک کی بندش سے انہیں ایک لمبا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے اور ان کے ماہانہ اخراجات پر ایک اضافی بوجھ پڑ گیا ہے وہ انہیں بھیج دیا جائے۔ ایسے ہی مناظر مجھ کو وادی بولان کے دارالحکومت میں ملتے ہیں کیونکہ صوبے کے ''مالک‘‘ بس دارالحکومت کے کچھ حصے کے ہی مالک ہیں۔ یہ تمام مناظر رعونت کے مناظر ہیں۔ اور کچھ مناظر ہیں پورے ملک میں‘ حقارت کے مناظر‘ کئی جگہ ٹوٹی دیواروں، مخدوش عمارتوں اور حملے کی دعوت دیتی درس گاہوں کے مناظر۔ ضرورت واک تھرو گیٹ کی اور مرکزی گیٹ سے محروم عمارت۔ دیوار تین فٹ بلند کرنا اس لیے ناممکن کہ پانچ فٹ کی دیوار سرے سے موجود ہی نہیں۔ گارڈ کی ضرورت کا لطیفہ اور ٹیچنگ سٹاف سے محروم سکول۔ میٹل ڈیٹیکٹر کی خواہش اور سی سی ٹی وی کیمروں کے خواب پر محکمہ تعلیم پنجاب نے بتا دیا کہ فنڈز نہیں۔ ایسے ایسے شگوفے اس کے بعد قوم کا غم دور کرنے کو سرکاری مسخروں نے سنائے کہ ہنستے ہنستے آنکھوں سے آنسو رواں ہو جائیں۔ دنیا نیوز پر ایک سرکاری بابو نے بتایا کہ ہم نان ٹیچنگ سٹاف سے سکیورٹی کی ڈیوٹی لے کر ملٹی ٹاسکنگ کروا رہے ہیں۔ روزنامہ دنیا میں عدنان لودھی کی رپورٹ کے مطابق مالیوں اور خاکروبوں سے کہا گیا ہے کہ لاٹھیاں تھام کر کھڑے ہو جاؤ‘ پہلے آؤ‘ اپنے کام کرو اور اس کے بعد انتظار کرو کہ کوئی تمہارا کام کر دے۔ محکمہ تعلیم سندھ نے ہاتھ کھڑے کر دیے کہ فنڈز نہیں۔ یہی حال باقی صوبوں کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک سو چونتیس بچے اسی ملک میں مارے گئے تھے؟ کیا دہشت گرد آ کر کسی وزیر تعلیم سے معافی مانگ کر چلے گئے؟ یہ فنڈز اس وقت ختم کیوں نہیں ہوتے جب نیا ہیلی کاپٹر خریدنا پڑتا ہے۔ تب کیوں نہیں ختم ہوتے جب خانساماں کو بیرون ملک لے جانا ہوتا ہے۔ تب کیوں نہیں ختم ہوتے جب چہیتوں کو نوازنے کے لیے کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں۔ آئے دن ہم سنتے ہیں پی ایس او کے فنڈز ختم، فلاں ادارے کی جیب خالی، ریلویز کا ایندھن ختم، فلاں محکمے کے ملازم کئی ماہ سے تنخواہوں سے محروم لیکن میں نے آج تک نہیں سنا کہ اراکین اسمبلی تنخواہوں سے محروم یا اسمبلی کی بجلی کٹ گئی جبکہ یہاں ہسپتالوں کی بجلی کٹ جاتی ہے۔ من پسند افراد کی خواہش پر نئی مرسڈیز کی خریداری کے لیے گھنٹوں میں دستخط ہو جاتے ہیں لیکن غریب کے بچے کے اسکول کے لیے فنڈز ختم۔ کچھ سکول آج کھل گئے‘ کچھ ایک دو روز میں کھل جائیں گے‘ رہی بات سکیورٹی انتظامات کی تو ہمارے ملک میں سب سے بڑی سکیورٹی وہ آیۃالکرسی ہے جو ماں پڑھ کر اپنے بچے پر پھونکتی ہے۔ بچے کا ماتھا چومتی ہے اور اس کے بعد دعا کا آسرا کہ یہ ملک ایسے ہی تو چل رہا ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ میاں نواز شریف ہوں یا شہباز شریف، قائم علی شاہ ہوں یا اویس مظفر، بلوچ صاحب ہوں یا اچکزئی اور پر ویز خٹک ہوں یا اسد قیصر ان کے بچوں یا بچوں کے بچوں کو سرکاری سکولز میں پڑھنے کا پابند بنایا جائے پھر دیکھیے‘ یہ اپنے سرکاری محل کے باہر موجود گارڈز تک وہاں بھیج دیں گے۔ پھر سرکاری سکولوں کو ہفتوں کے اندر محفوظ عمارت تو کیا مکمل سٹاف بھی مل جائے گا۔ لیکن اس کے بغیر... چل رہن دے۔