"WKC" (space) message & send to 7575

لاہور میں ٹاؤن پلاننگ کا فقدان

ضلع لاہور 2306 مربع کلومیٹر کے رقبے پر مشتمل صوبائی دارالحکومت کا درجہ رکھنے والا پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اس کی آبادی میں کئی وجوہ کی بنا پر تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 2021 تک اس کی متوقع آبادی 13 ملین اور 2040 تک 35 ملین ہو جائے گی۔ 2021 تک لاہور کی 77 فیصد آبادی شہری اور 33 فیصد دیہی علاقوں پر مشتمل ہو گی۔ اس شہر کی توسیع اور ترقی کے لیے حکومت کے مختلف ادارے کام کر رہے ہیں۔ شہر کا 60 فیصد رقبہ میونسپل ایڈمنسٹریشن‘ 30 فیصد رقبہ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی، 9 فیصد ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی اور بقیہ کچھ رقبہ ہائوسنگ اینڈ فزیکل پلاننگ ڈیپارٹمنٹ اور ماڈل ٹائون سوسائٹی کے زیر نگرانی آتا ہے۔ شہر کی آبادی 3 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے‘ جو قریبی چھوٹے شہروں سے لوگوں کی آمد اور آبادی میں قدرتی اضافے کی وجہ سے ہے اور شہر کے بنیادی ڈھانچے پر مسلسل اثر انداز ہو رہی ہے۔
لاہور شہر کی منظم توسیع اور ترقی کے لیے پہلا گریٹر لاہور ماسٹر پلان محکمہ ہائوسنگ اور فزیکل پلاننگ نے تیار کیا تھا‘ جو 1972 میں نافذالعمل ہوا۔ اس ماسٹر پلان کے تحت لوگوں کی سہولت کے لیے شہر کو 4 ڈویژنل سنٹرز 23 ضلعی سنٹرز اور 60 محلہ سنٹرز میں تقسیم کیا گیا۔ اس تقسیم میں ضروری سہولیات جیسا کہ اوپن سپیسز، کمرشل ایریا، آفسز/ انسٹی ٹیوشنز اور مساجد لوگوں کے لیے کم فاصلے پر مخصوص کی گئیں۔ سفر میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ہر ڈویژنل سنٹر میں بس ٹرمینل دیا گیا اور ہر ڈویژنل سنٹر کو دوسرے سے علیحدہ کرنے کے لیے ایک منظم روڈ نیٹ ورک مع گرین بیلٹس دیا گیا‘ جس کو بفر زون کی حیثیت سے استعمال کیا جانا تھا۔ شہری علاقے کے پھیلائو کو روکنے اور کنٹرول میں رکھنے کے لیے 24 کلومیٹر کی گرین بیلٹ اربن ایریا کے اطراف میں دی گئی۔ ساتھ ہی شہر کی ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے سرکلر ریلوے لائن تجویز کی گئی۔ اس کے علاوہ مریدکے اور پتوکی میں انڈسٹریل ایریا تجویز کیا گیا۔ اگر ان تجاویز پر عمل درآمد کیا جاتا تو شہر کا غیر ضروری پھیلائو رُک جاتا اور شہر کی ٹریفک بھی کافی حد تک کنٹرول ہو جاتی۔ علاوہ ازیں صنعتی سرگرمیاں منظم انداز میں شہر کو متاثر کیے بغیر فروغ پاتیں اور پرانے انفراسٹرکچر پر مسلسل دبائو بھی نہ پڑتا مگر بدقسمتی کہ ان تجاویز پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے کوئی قانون سازی نہ کی گئی۔
جب شہر میں ٹریفک کی صورتحال دگرگوں ہو گئی تو ورلڈ بینک کے تعاون سے ایل ڈی اے اور ٹیپا نے 1981 میں لاہور میٹروپولٹین ایریا کا 20 سالہ سٹرکچر پلان تیار کیا‘ جس میں ٹریفک کے نظام میں بہتری کے لیے جنوب اور جنوب مغرب میں روڈ نیٹ روک اور مستقبل کے لیے PLANNED GROWTH کی تجاویز پیش کی گئیں۔ اس کے تحت تمام ہائوسنگ سکیموں اور پرائیویٹ رقبے کے مالکان اس امر کے پابند تھے کہ وہ اپنے رقبہ سے پلان میں دی گئی سڑکوں کے لیے بغیر کسی معاوضہ کے زمین چھوڑیں۔ اس سے سڑکوں کا ایک مربوط نیٹ ورک بغیر کسی معاوضہ کے بن گیا‘ جو شہر کی ٹریفک کا نظام منظم بنانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد 1972 کے ماسٹر پلان پر مکمل طور پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے لاہور شہر متنوع مسائل کا شکار ہو چکا تھا‘ لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ منصوبے پر نظر ثانی کی جائے۔ نیسپاک نے یہ ذمہ داری پوری کی اور 2004 میں ڈسٹرکٹ اسمبلی لاہور نے Integrated Master Plan For Lahore 2021 کی منظوری دی۔ اس ماسٹر پلان کے تحت سول سیکرٹریٹ اور دیگر بڑے بڑے دفاتر کو شہر سے باہر منتقل کرنا تھا تاکہ شہر میں ٹریفک کے دبائو کو کم کیا جا سکے۔ جنوب میں واقع ہڈیارا ڈرین ریلوے لائن کے دونوں اطراف ان دفاتر کی منتقلی کے لیے رقبہ مخصوص کیا گیا۔ اس کے علاوہ دریا کے ساتھ تین بڑے پارکس کی جگہ مخصوص کی گئی‘ جس میں فشنگ‘ بوٹنگ اور واٹر گیمز کی سہولیات دی جانی تھیں۔ ریجنل پارک کے لیے 300 ہیکٹر رقبہ جی ٹی روڈ اور موٹر وے پر مخصوص کیا گیا تاکہ اس سے لاہور کے شہریوں کے علاوہ دوسرے چھوٹے شہروں کے لوگ بھی استفادہ کر سکیں۔ علاوہ ازیں علامہ اقبال ٹائون، نشتر ٹائون، عزیز بھٹی ٹائون، شالیمار ٹائون اور راوی ٹائون میں وسیع قبرستانوں کی جگہ مخصوص کی گئی۔ ماسٹر پلان میں یہ بھی تجویز کیا گیا کہ جو علاقے 75 کلومیٹر کی دوری پر ہیں اور جن کا یک طرفہ سفری ٹائم 90 منٹ کے اندر اندر ہے ان کو اپ گریڈ کرکے‘ سیٹیلائٹ ٹائون کا درجہ دے کر ان میں تمام بنیادی ضروری سہولیات مہیا کی جائیں گی‘ تاکہ وہاں کے باسیوں کو لاہور نہ منتقل ہونا پڑے اور شہر کے بے ہنگم پھیلائو کو روکا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے شیخوپورہ، شرقپور، مریدکے، رائے ونڈ، پتوکی اور قصور کو سیٹیلائٹ ٹائونز بنانے کا تصور دیا گیا۔ یہ تجویز دی گئی کہ ملتان روڈ اور کینال روڈ کے ساتھ ساتھ انڈسٹریز کے قیام‘ جو ربن ڈویلپمنٹ (Ribbon Development) کے زمرے میں آتی ہیں‘ کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ متبادل کے طور پر چونیاں اسٹیٹ اور اس کے اطراف میں ایک کلومیٹر کا بفر زون دینے کی تجویز دی گئی۔ نئی انڈسٹریز کے قیام یا توسیع کی صورت میں بھی ٹریٹمنٹ پلانٹ کو لازمی قرار دیا گیا تاکہ ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کیا جا سکے۔ مگر بدقسمتی سے 1972 کے ماسڑ پلان کی طرح 2004 کے ماسڑ پلان کو بھی قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے کوئی اہمیت نہ دی گئی۔ نتیجتاً شہر مزید تباہی کی طرف گامزن ہو گیا۔ 2013 میں قصور، شیخوپورہ، ننکانہ اور شرقپور وغیرہ کو ایل ڈی اے کی حدود میں شامل کر دیا گیا اور Amended Master Plan of Lahore Division 2016 تیار کیا گیا‘ لیکن یہ نظرثانی پلان صرف کچھ رہائشی علاقہ جات کو زرعی اور بعض زرعی علاقہ جات کو رہائشی میں تبدیل کرنے تک رہا‘ اور اس تبدیلی کو صرف ایک نقشے کی صورت میں دکھا دیا گیا‘ جبکہ ماسٹر پلان کی دلیل یا وضاحت کے لیے کسی قسم کی کوئی رپورٹ ابھی تک تیار نہیں کی گئی۔
1996 میں ملک کے 13 شہروں کے ماسٹر پلان بھی تیار کیے گئے‘ جن میں سرگودھا، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، ساہیوال، وہاڑی، چیچہ وطنی، بہاولپور، رحیم یار خان، پشاور، ملتان اور فیصل آباد بھی شامل تھے۔ یہ ماسٹر پلانز ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے قرض لے کر تیار کئے گئے‘ مگر یہ تمام منصوبے متعلقہ اداروں کی الماریوں میں محض کتابی شکل میں ہی پڑے رہ گئے‘جس کی وجہ سے ان شہروں میں بھی بنیادی شہری سہولتوں کا فقدان ہو گیا۔ 
مذکورہ ماسٹر پلانز کی ناکامیابی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اکثر شہری زمین پرائیوٹ ملکیت میں موجود ہے اور ٹائون پلاننگ کے دوران عوامی سہولیات کو ترجیح دیتے ہوئے مستقل کی منصوبہ بندی کرتے وقت پرائیویٹ زمینوں کو متاثر کر دیا جاتا ہے‘ جیسا کہ کسی پرائیویٹ زمین پر سکول، ہسپتال، بس اڈے، مساجد اور قبرستان وغیرہ بنانے کی تجویز پیش کر دی جاتی ہے‘ جو زمین مالکان کو قابل قبول نہیں ہوتی۔ چونکہ اس مقام پر ہمارا تصادم آئین کی شق نمبر23 اور 24 کے تحت حقوقِ جائیداد کا تحفظ سے ہوتا ہے؛ چنانچہ اہمیت کا حامل ماسٹر پلان فیل ہو جاتا ہے۔ ایسی پیچیدگیوں کو دور کرنے کیلئے ماسٹر پلان اور حقوق ملکیت میں رابطہ اور ہم آہنگی بے حد ضروری ہے۔ نیز کوئی ماسٹر پلان اتنا اہم ہونا چاہئے کہ محکمہ مال بھی اس کا پابند ہو‘ اور ضروری ہے کہ ماسٹر پلان میں تجویز کردہ لینڈ یوزرکو زمین کے ملکیتی نظام سے منسلک کر دیا جائے اور کسی کو بھی فرد ملکیتی جاری کرتے وقت اس کے اوپر اُس زمین کا ماسٹر پلان کی رُو سے بھی لینڈ یوزر درج کر دیا جائے تاکہ جائیداد کے خریدار اور فروخت کنندہ دونوں کو ہی ڈیل سے قبل اس کے قابل استعمال ہونے کا بھی علم ہو‘ اور یوں اُس کے مطابق قیمت کا تعین ہو سکے۔ 
اب ایل ڈی اے شہر کا نیا ماسٹر پلان 2040 بنانے کی تیاری کر رہا ہے مگر سابقہ ناکامیوں اور مشکلات سے سیکھتے ہوئے نئی حکومت کو چاہئے کہ نئے ماسٹر پلان کی تکمیل کے بعد اس میں دی گئی تجاویز کا اطلاق یقینی بنائے تاکہ شہر کو مزید خرابیوں اور سے بچایا جا سکے۔ ضروری ہے کہ ایک سینئر ٹائون پلانر کی سربراہی میں ماسٹر پلان عمل درآمد کمیشن معرض وجود میں لایا جائے جو ایل ڈی اے، لوکل گورنمنٹ، کنٹونمنٹ بورڈ اور پرائیویٹ سیکٹرز سے مختلف پروفیشنلز پر مشتمل ہو اور جو ماسٹر پلان کی تجاویز کے اطلاق کو یقینی بنانے کا پابند ہو۔ ایسا قانون بنایا جانا چاہئے جس کے تحت ماسٹر پلان کی خلاف ورزی اور تاخیر کرنے پر جرمانہ اور قید یا دونوں سزائیں دی جا سکیں اور تمام متعلقہ محکمے اس کمیشن کو جوابدہ ہوں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں