"WKC" (space) message & send to 7575

حکومت کا فلاحی ریاست کی طرف سفر

اسلام آباد کا ماسٹر پلان 1960 میں ٹائون پلاننگ کی یونانی فرمM/S CA Doxiadis Associate نے تیار کیا‘ اور ساتھ ہی شہر کی آبادکاری کے حوالے سے چھ سیکٹرز کے لیے آئوٹ پلان بھی تیار کر دیئے گئے۔ شہر میں مسافر خانوں کی اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ابتدائی طور پر دو سیکٹرز G/6 اور G/7 میں ان کے لیے جگہ مخصوص کی گئی۔ اس طرح اس اہم فلاحی مقصد کو پلاننگ کا جزو بنا دیا گیا۔ بلڈنگز بن چکی ہیں مگر عرصہ دراز سے دونوں مسافر خانے غیر فعال ہیں۔ چیئرمین سی ڈی اے کو اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ یہ دوبارہ فعال ہو جائیں تاکہ حکومتی پالیسی کے مطابق لوگ اس سے مستفید ہو سکیں۔ اسلام آباد کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ نئے سیکٹرز میں ان کے لیے جگہیں مخصوص کی جانی چاہئیں۔ اب پنجاب حکومت نے بھی لاہور شہر میں مسافر خانے بنانے کا آغاز کر دیا ہے۔ ابتدائی طور پر 5 عارضی مسافر خانے اہم اور گنجان جگہوں پر بنائے گئے ہیں‘ جو انتہائی قابل قدر اور قابل ستائش اقدام ہے۔ وہ لوگ جو شہر میں کوئی چھت اور مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کھلے آسمان کے نیچے سڑکوں، پارکوں اور فٹ پاتھوں پہ سونے پر مجبور تھے ان کو سردیوں اور گرمیوں کے شدید موسم میں قیام کرنے کے لیے ایک چھت میسر آ گئی ہے‘ جس میں مفت کھانے کی بھی سہولت موجود ہے۔ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ قومی وسائل کو اشرافیہ کے مفادات سے ہٹ کر مجبور، کمزور، بے بس اور دکھی انسانیت کے لیے خرچ کرنے کا سوچا گیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستانی تو ہیں‘ مگر ملکی وسائل سے کبھی مستفید نہیں ہوئے اور انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس سکیم کے تحت صرف وہ لوگ مسافر خانے کی سہولت سے مستفید ہو سکتے ہیں‘ جن کے پاس اپنی کوئی شناخت ہو جبکہ یہ لوگ غربت کی اس سطح پر ہیں جہاں ان کی کوئی شناخت نہیں‘ اور وہ کھلے آسمان کے نیچے دن رات سڑکوں، فٹ پاتھوں، پارکوں میں بے یار و مددگار پڑے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ معاشرے کی ستم ظریفیوں کی وجہ سے نشے کے عادی ہو چکے ہیں۔
لاہور کے دوسرے گنجان مقامات کی طرح ان لوگوں کی بڑی تعداد حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار کے اردگرد سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر پڑی نظر آئے گی۔ گزشتہ اتوار میں داتا دربار حاضری کے لیے گیا تو ایسے لوگوں کو وہاں موجود نہ پا کر خوشی ہوئی کہ شاید وہ مسافر خانے منتقل ہو گئے ہیں‘ لیکن استفسار پر معلوم ہوا کہ ان کو حکومتی اہلکاروں نے اہم روٹ ہونے کی وجہ سے وہاں سے اٹھا دیا ہے اور اب بھی ان کا مسکن کھلا آسمان ہی ہے‘ مگر وہ مین روڈ سے ہٹ کر ارد گرد کے اندرونی علاقوں میں پناہ گزیں ہو گئے ہیں اور انتہائی ابتر حالات میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس اطلاع نے میری عارضی خوشی کو مایوسی میں تبدیل کر دیا‘ جبکہ ایک پاکستانی ہونے کی ناتے اس سہولت کے وہ بھی اتنے ہی حقدار ہیں جتنا کوئی اور۔ ان لوگوں کو سوشل ویلفیر ڈیپارٹمنٹ کی نگرانی میں فوراً ہسپتالوں میں منتقل کروا کے ان کا مکمل علاج کروایا جانا چاہیے تاکہ وہ صحت یاب ہو کر کارآمد شہری بن سکیں۔ ان کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا کرنا بھی فلاحی ریاست کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ حکومت نے عارضی طور پر مسافر خانے بنائے ہیں‘ جبکہ مستقل مسافر خانے تعمیر کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ تکمیل کے بعد ان مسافر خانوں کو بہتر سہولتوں کے ساتھ منظم طریقے سے چلایا جا سکے گا۔ لاہور کی موجودہ آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے 5 مسافر خانے ناکافی ہیں۔ لاہور اس وقت 9 زونز میں تقسیم ہے‘ اور ہر زون میں کم از کم 2 مسافر خانوں کی ضرورت ہے۔ اس طرح شہر میں 18 مسافر خانے اس نیک مقصد کے لیے ہونے چاہئیں تاکہ ضرورت مند افراد کم از کم فاصلہ طے کرکے ان مخصوص جگہوں پر پہنچ کر مستفید ہو سکیں۔ اس اہم ترین مسئلہ پر ماضی میں کبھی توجہ نہیں دی گئی‘ اس لیے بہتر ہو گا کہ اس اہم مقصد کو لاہور شہر کی ٹائون پلاننگ میں شامل کر لیا جائے تاکہ موجودہ اور آنے والی حکومتیں اس پر عمل درآمد کی پابند ہوں۔ یہ حکومتِ وقت کی طرف سے بہترین صدقہ جاریہ ہو گا کیونکہ اس سے دکھی انسانیت مستفید ہو گی۔ ہمارے ملک میں ایسے امیر اور صاحب حیثیت لوگوں کی کمی نہیں‘ جو نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لینے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ان میں سے 18 لوگوں کا انتخاب کرکے ان مسافر خانوں کا کفیل بنا دیا جائے۔ وہ ان کے اخراجات برداشت کریں‘ جبکہ ان کی نگرانی حکومتی سطح پر سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے ذمے ہو۔ مزید یہ کہ اگر ان میں چھوٹا موٹا ہنر سکھانے کی سہولیات فراہم کر دی جائے تو بہت سوں کا بھلا ہو گا۔ اس کام کی بنیاد رکھ کر حکومت نے فلاحی ریاست کی طرف سفر کا آغاز تو کر دیا‘ مگر مقصد حاصل کرنے کے لیے حکومت کی مزید توجہ درکار ہے۔ اس بہتریں منصوبے کو پاکستان کے دوسرے شہروں اور قصبوں تک بھی پھیلنا چاہیے۔
شہر کا دوسرا بڑا عوامی مسئلہ بیت الخلا کا فقدان ہے جس کی وجہ سے لوگ پارکوں، فٹ پاتھوں، پبلک مقامات وغیرہ پر رفع حاجت پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ عمل شہر میں گندگی اور آلودگی بڑھانے کا باعث بن رہا ہے‘ اور شہرکے ماحول پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ بروقت حاجت پوری نہ ہونے کی وجہ سے انسان کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ اس اہم عوامی مسئلے کی طرف توجہ دے۔ 
اسلام آباد میں 2008-2005 کے دوران کامران لاشاری صاحب نے بطور چیئرمین سی ڈی اے اس حوالے سے کافی کام کیا اور تمام مراکز اور کلاس تھری شاپنگ سنٹرز میں تقریباً 64 پبلک ٹوائلٹس عوام کی سہولت کے لیے بنائے گئے‘ مگر مین شاہراہوں پر اس سہولت کا اب بھی فقدان ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے سی ڈی اے کو اپنی کاوشوں کو جاری رکھنا چاہیے۔ دوسری طرف لاہور‘ جو 120 ملین لوگوں کا شہر ہے‘ میں اس سہولت کی فراہمی کیلئے کوئی کام یا منصوبہ سازی نہیں کی گئی۔ چیف منسٹر پنجاب کو اس اہم عوامی مسئلہ پر فوری توجہ دینی چاہیے۔ اس سلسلے میں ایل ڈی اے )ٹیپا( ایک جامع پلان تیار کر ے اور ان جگہوں کی نشاہدہی کرے‘ جہاں پر بیت الخلا بنائے جانے ضروری ہیں۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دہلی (انڈیا) کا ماڈل بھی اپنایا جا سکتا ہے جس کے تحت 10' x 12' کے کنٹینر میں بیت الخلا کی سہولتیں دے کر ان کو موزوں مقامات پر رکھا جا سکتا ہے۔ بجلی کی سہولت سولر پینل کے ذریعے دی جائے اور یہ سیوریج کے نظام سے منسلک ہو۔ اس سکیم کو پائیدار بنانے کے لیے کنٹینر کے فرنٹ کو جو سڑک کی طرف ہو‘ کو اشتہارات کے لیے مخصوص کر دیا جائے‘ جبکہ اس میں داخلے کا راستہ عقبی طرف سے ہو جبکہ ڈیزائن میں معذور افراد کی سہولت کا خصوصی خیال رکھا جانا چاہیے۔ اشتہارات کی مد میں وصول ہونے والی رقم ان بیت الخلائوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے استعمال کیا جائے ۔اس اہم عوامی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے پورے انڈیا میں اس سال کے آخر تک 75 ملین بیت الخلا بنانے کا ٹارگٹ مقرر کیا گیا ہے‘ جبکہ دنیا کی امیر ترین شخصیت‘ بل گیٹس فلاح و بہبود کے اس پروجیکٹ کو مکمل کروانے کے لیے مالی معاونت کر رہے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ جہاں ٹرانسپورٹ کا روٹ موجود ہے‘ وہاں پر واقع اہم بس سٹاپس کے ساتھ واقع گورنمنٹ لینڈ/ گرین بیلٹس پر ان کو رکھا جائے اور جہاں پر پبلک ٹرانسپورٹ کے روٹس موجود نہیں ہیں‘ وہاں مناسب جگہوں کا انتخاب ٹائون پلاننگ کے نقطہ نگاہ سے کیا جائے۔ آمدنی میں مزید اضافہ کے لیے ان بس سٹاپس کی جگہوں کو بھی اشتہارات اور چھوٹی موٹی ٹک شاپس کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے‘ جن میں پانی، چائے، اخبار وغیرہ جیسی سہولتیں موجود ہوں۔ اس سے ریونیو حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے لیے سفر میں آسانیاں بھی پیدا کی جا سکتی ہیں۔ اس ماڈل کو پورے پاکستان میں پھیلانا چاہیے تاکہ اس سے لاکھوں لوگ روزانہ کی بنیادوں پر مستفید ہو سکیں‘ اور شہری ماحولیات میں بہتری آئے۔ اس طرح حکومت کی بہت نیک نامی ہو گی اور جو فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا ہے اس کو عملی جامہ پہنانے میں مدد ملے گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں