کاشغر سے گوادر اور مہنگے ٹماٹر…

چین کو اپنا مال اپنی سرحدوں سے باہر نکال کر ’’مال‘‘ کمانے کیلئے تقریباً آٹھ ہزار کلو میٹر کا سفر طے کرنا پڑتا۔ اگر وہ گوادر بندرگاہ کو استعمال کرے گا تو یہ سفر تقریباً 2000 کلو میٹر رہ جائے گا۔ پوری دنیا کی تجارتی مارکیٹوں اوراعصاب پر چھائے ہوئے چین کیلئے تقریباً 5000 کلومیٹر سفر کی یہ بچت سالانہ کتنے بلین ڈالرز کی نوید لے کر آئے گی یہ سمجھنے اور حساب کتاب لگانے کیلئے عظیم یونانی حساب دان فیثا غورث یا بابائے اکنامکس آدم سمتھ ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ یہ سیدھا سادہ حساب کتاب تو وہ شخص بھی باآسانی لگا سکتا ہے جس نے پاکستان کے بیشتر علاقوں میں دستیاب ہیپاٹائٹیس سی پھیلاتا پانی پی کر یا اس کے بغیر ہی سحری میں صرف ہوا کھا کر آج کا روزہ رکھا ہے۔ چند ہزار روپے میں گھر چلانا پہلے ہی انتہائی مشکل تھا‘ اس پر مسلمانوں کے شاندار ماضی کی طرح رمضان المبارک میں دنوں کے حساب سے بڑھی تابناک مہنگائی میں تقریباً 12 کروڑ پاکستانیوں کے لیے جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھنا بالکل ہی ناممکن ہو گیا ہے ۔ پاکستان بھی کمال ملک ہے۔ ایک طرف دس دس لاکھ کے فائیو سٹار عمرہ پیکج پر خصوصاً رمضان کا آخری عشرہ مسجد نبوی یا حرم شریف میں گزارنے کی سعادت حاصل کرتے مسلمان جن میں سے بیشتر یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک ایسے نبیؐ کے ماننے والے ہیں جن کا فرمان ہے کہ ’’حج نام ہی مشقت کا ہے‘‘ اور جن کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ دو جہان کے والی کھجور کی ایسی کُھردری چٹائی استعمال کیا کرتے تھے کہ آپؐ کے جسمِ اطہر پر چٹائی کے نشان پڑ جاتے اور صحابہؓ کرام کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر جاتیں مگر میرے آقاؐ کے ہونٹوں پر ایک اطمینان اور مسکراہٹ ہوتی کہ صحابہؓ کرام جس سادگی کو سرکارؐ کے لیے اذیت سمجھتے‘ میرے آقاؐ اس سادگی کو رحمت وبرکت قرار دیتے ہیں ۔ ایک بات اور پتے کی میں بتائوں تجھ کو آخرت بنتی چلی جائے گی دنیا نہ بنا صدیوں کے پار دیکھ لینے والے اپنے آقاؐ کا ایک اور فرمان یاد آتا ہے، میرے ماں باپ اولاد میں خود آپ پر لاکھوں کروڑوں بار قربان آپؐ نے فرمایا ’’ایک وقت آئے گا کہ عمرہ سیاحت کے لیے کیا جائے گا۔‘‘ ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ بتاتی ہے کہ تقریباًساٹھ فیصد کے قریب یعنی بارہ کروڑ پاکستانی بمشکل دو سو روپے ماہانہ کما پاتے ہیںاور ان بارہ کروڑ میں سے بھی ڈھائی تین کروڑ کی یہ حالت ہے کہ وہ بمشکل ڈھائی تین ہزار روپے ماہانہ گھر لے کر جاتے ہیں ۔ سو، انتہائوں اور ہر طرح کے انتہا پسندوں کی سرزمین پاکستان میں ایک طرف دس دس لاکھ کے عمرہ پیکجز، ڈیڑھ ڈیڑھ سو دو دو سو ارب کے ان گنت کرپشن کیسز ہیں تو دوسری طرف ڈھائی سے پانچ ہزار روپے ماہانہ آمدنی کے لیے ذلتیں اٹھاتے پاکستانی…!!! ایسے میں مہنگائی کا وہ آخری تنکا جو اونٹ کی بھی کمر توڑ دیا کرتا ہے یوں پاکستانیوں کی کمر پر دھرا گیا ہے کہ صرف چند دن قبل سات روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہونے والی ہری مرچ ذخیرہ اندوز وگراں فروش مسلمان بھائیوں اور بلٹ ٹرین کے خواب دکھاتے حکمرانوں کی حرکتوں اور غفلتوں کے باعث تقریباً 35روپے فی کلو ہوچکی ہے جب کہ پیاز جو چند روز قبل تک 25روپے میں دستیاب تھا رمضان کے چاند کے درشن سے پہلے ہی خود کو قیمتی سمجھ کر تقریباً 45روپے تک جا پہنچا تھا۔ خصوصاً اشیائے خور ونوش میں بلٹ ٹرین اور کراچی تا لاہور موٹروے کے خوابوں کی ’’خوشخبری‘‘ کے ساتھ ہی تقریباً 30سے 40 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے ۔ پھل، گوشت، دودھ، دہی، سبزیوں سمیت ہر شے نے گویا آگ پکڑ لی ہے۔ لاکھوں روپے کے عمرہ پیکج پر ہر سال رمضان المبارک حرم شریف میں یا روضۂ رسولؐ کی جالی سے لگ کرگزارنے والوں، پاکستانیوں کو دہشت گردی سے نجات دلانے کی خاطر بلائی گئی انتہائی اہم اے پی سی میں شرکت کے بجائے علاج کی خاطر برطانیہ جا کر شاہی خاندان کی تقریبات میں شرکت کرنے والوں اور شدید لوڈ شیڈنگ، گرمی اور بم دھماکوں میں جُھلستے پاکستانیوں کو جلتا بلتا چھوڑکر یورپ، لندن اور امریکہ کی سیر پر جانے والے سیاسی خانوادوں، بیوروکریٹوں کی سہولت کے لیے عرض ہے کہ اشیائے خور ونوش کی قیمتوں میں جی ایس ٹی کے اضافے کے بعد ہونے والے اضافے کا سیدھا سادہ مطلب ہے کہ تقریباً 12 کروڑ کے لگ بھگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے پاکستانیوں کی جو آمدنی مہینے کے دسویں بارہویں روز ختم ہو جاتی تھی وہ اب شاید ایک ہفتہ بھی نہ چل سکے۔ اہلیہ کے انتہائی اصرار پر ان کے ہمراہ افطار کا سامان خریدتے ہوئے میں نے مفلوک الحال ضعیف بزرگ کو انتہائی حسرت سے مہنگی سبزیوں کو یوں دیکھتے دیکھا جیسے وہ بوڑھا پاکستانی کسی مقدس شے کے درشن کر رہا ہو۔ 65سالوں سے اس ملک میں غربت کی چکی میں پستے بابا جی نے ٹماٹر کی قیمت سن کر نم آنکھوں، کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے ٹماٹر واپس رکھتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’اب انشاء اللہ جب کاشغر سے گوادر تک تجارتی راہداری بن جائے گی تو میں بھی ٹماٹر کھایا کروں گا…!!!‘‘ بابا جی وطن عزیز میں ملنے والے 65برسوں کے بے بہا بوجھ سے جھکی کمر اور گردن سمیت آگے بڑھ گئے اور میں جو خود بھی کاشغر سے گوادر تجارتی راہداری کو پاکستانیوں اور خطے کیلئے گیم چینجر سمجھتا ہوں‘ سوچتا رہ گیا کہ کاشغر سے گوادر تجارتی راہداری بننے تک غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے 12کروڑ کے لگ بھگ پاکستانی جو 200 ڈالر روزانہ کے حساب سے دھماکے اور ہڑتالیں نکال کر بمشکل 5000 روپیہ ماہانہ کماپاتے ہیں ان میں سے کتنے اس خواب کے پورا ہونے تک زندہ رہ پائیں گے…؟ اور کتنوں کو زندہ رہنے دیں گے…؟ گھر کو لوٹتے ہوئے میں کاشغرسے گوادر تجارتی راہداری ، خنجراب سے راولپنڈی فائبر آپٹک ، کراچی تا لاہور موٹروے اور بلٹ ٹرین جیسے حسین خوابوں میں گم رہا اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے 12کروڑ پاکستانی میرے کان میں خوشی سے چلاّتے رہے … ’’انشاء اللہ جب کاشغر سے گوادر تک تجارتی راہداری بن جائے گی تو ہم بھی ٹماٹر کھایا کریں گے…!!!‘‘ جو مر رہے ہیں تمہیں ان کا کچھ خیال نہیں…!!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں