زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا…!!!

غیر جانبدار مستند ومعروف تاریخ دان مائیکل ہارٹ حضرت عمر ؓفاروق کا باب درج کرتے ہوئے لکھتا ہے۔ ’’حضرت عمرؓ کی کامیابیاں موثٔر ثابت ہوئیں۔ حضرت محمدؐ کے بعد فروغ اسلام میں حضرت عمرؓ کا نام نہایت اہم ہے۔حضرت عمرؓ کی تیز رفتار فتوحات کے بغیر شاید آج اسلام کا پھیلائو اس وسیع پیمانے پر ممکن نہ تھا۔ مزید یہ کہ ان کے دور میں مفتوح ہونے والے علاقوں میں سے بیشتر عرب تمدن ہی کا حصہ بن گئے۔ظاہر ہے کہ ان تمام کامیابیوں کا اصل محرک تو حضرت محمدؐ ہی تھے لیکن اس سارے عمل میں حضرت عمرؓ کے کردار کو نظر انداز کرنا بھی ایک بڑی غلطی ہو گی…‘‘تاریخ کو جذبات کے بجائے حقیقت کی آنکھ سے دیکھنے والے اس عظیم تاریخ دان مائیکل ہارٹ نے مزید لکھا… ’’ایسی عظیم وسعت حضرت عمرؓ کی شاندار قیادت کے بغیر ممکن نہیں تھی…‘‘ اور آخر میں اپنی جانب سے نہیں بلکہ تاریخی تقابل کرتے ہوئے یوں سیدنا حضرت عمرؓ کو خراج تحسین پیش کیا …’’ وہ تمام فتوحات جو عمرؓ کے دورِ خلافت میں واقع ہوئیں اپنے حجم اور پائیدار ی میں ان فتوحات کی نسبت کہیں اہم تھیں جو سیزر یا چارلی میگنی کے زیرِ قیادت ہوئیں۔‘‘ یہ حوالے مائیکل ہارٹ کی بے پناہ عرق ریزی اور طویل ریسرچ کے بعد مرتب کی گئی شہرہ آفاق کتاب ’’The Hundred‘‘ سے لیے گئے ہیں۔ مائیکل ہارٹ جیسا غیر جانبدار ومستند تاریخ دان بھی جب تاریخ کے 100 موثٔر ترین لوگوں پر کتاب لکھتا ہے تو کردار و شخصیت اور اثر پذیری کے حوالے سے مجبور ہو جاتا ہے کہ میرے آقا ؐسرکار دوعالم کو 100 موثر ترین لوگوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رکھے (میں ، میرے ماں باپ میری اولاد آپؐ پر لاکھوں کروڑوں بار قربان کہ آقاؐ ہمارے لیے صرف موثٔر ترین نہیں عظیم ترین شخصیت بھی ہیں) مائیکل ہارٹ کی اس کتاب میں صرف دو ہی مسلمان شامل ہیں۔پہلے نمبرپر آقائےؐ دوجہاں اور آگے چل کر حضرت عمر فاروق ؓ… میں جب بھی حضرت عمر ؓ کی بائیوگرافی، سوانح حیات پڑھتا ہوں آپ ؓ کی تخلیقی طرز حکمرانی پر سردُھنتا رہتا ہوں اور حکمرانی کے معاملے میں آپؓ کی حساسیت اور شدید احساس ذمہ داری مجھے بے حد متاثر کرتی ہے ۔ اگر ہمارے حکمران حضرت عمرؓ کے طرز حکمرانی کا 100واں حصہ بھی اپنا لیں تو پاکستان جنت الفردوس کا نمونہ پیش کرنے لگے فاروق اعظمؓ کی طرز حکمرانی کا عشرعشیربھی ہمیں وفاقی اور صوبائی سطح پر نظر نہیں آتا۔ حضرت عمرفاروق ؓ کے چند اقوال … جو اُن کی شاندار شخصیت اور جاندار طرزِ حکمرانی کاآئینہ ہیں اور اس آئینے میں ہمارے موجودہ صوبائی و وفاقی حکمرانوںکے چہرے کیسے نظر آتے ہیں یہ میں آپ کی بصارت اور بصیرت پر چھوڑتا ہوں۔ (حکمران صرف سیاستدان نہیں ہوتے بلکہ جب لفظ حکمران استعمال ہوتا ہے تو اس میں سیاستدان ، بیوروکریٹ، جج، جرنیل سمیت ہر وہ شخص و ادارہ آجاتا ہے جو عوام کی زندگیوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔) پڑھتے جائیے، سر دھنتے جائیے۔ اور اپنے حکمرانوں کی حرکتوں پر شرماتے بھی جائیے کہ یہ کام بھی عوام ہی کر لیں تو کر لیں حکمرانوں نے نہیں کرنا کہ وہ اس وقت شرمانے سے کہیں زیادہ اہم کام یعنی مال بنانے میں مصروف ہیں۔ ٭محض ’’لَا اِلہ‘‘ کہہ دینے سے جنت نہیں مل سکتی۔ جنت عمل سے ملتی ہے۔ ٭کسی قوم سے مقابلے کے وقت یہ نہ دیکھو کہ اس کی اخلاقی خرابیاں، تمہاری خرابیوں سے زیادہ ہیں دیکھو کہ تمہاری اخلاقی خوبیاں اس سے کتنی زیادہ ہیں یہ ہے کامیابی کا راز ٭جب حاکم بگڑ جاتا ہے تو رعایا بھی بگڑ جاتی ہے سب سے بدبخت حاکم وہ ہے جس کے سبب رعایا بگڑ جائے۔ (یہ جو آج بیس کروڑ کی قوم پستیوں پاتالوں میں گم ہوئی جاتی ہے تو یہ بگاڑ حاکموں کے پیدا کیے ہوئے بگاڑ کے سبب ہی آیا ہے۔ قوم بھی کم قصوروار نہیں مگر حاکموں کا کردار بھی اس معاملے میں بے مثال رہا ) ٭خلافت کے معنی یہ ہیں کہ خدا کو حساب دیتے وقت بتایا جا سکے کہ کہاں سے لیا تھا اور کسے دیا تھا، اگر یہ جو اب اطمینان بخش ہے تو وہ خلافت ہے ورنہ ملوکیت۔ (اس قول کو خلافت کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے خانے میں فِٹ کر کے دیکھیں ایسی جمہوریت بھی جس میں حساب دیتے وقت بتایا نہ جا سکے کہ کہاں سے لیا اور کسے دیا تھا ملوکیت ہی ہوا کرتی ہے … خلافت کے روپ میں ملوکیت ہو یا جمہوریت کے بھیس میں ملوکیت یا آمریت… بات اور نتیجہ ایک ہی ہے) ٭کسی کے ثقہ اور قابل اعتماد ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ باہمی معاملات میں کھرا ثابت ہو نہ کہ وہ جو نمازیں بہت پڑھتاہو۔ (پوری قوم ذرا اپنے سجدوں اور باہمی معاملات کا جائزہ لے ایک منٹ میں کچا چٹھا سامنے آجائے گا…) ٭کسی وقت حاطب ابن بلتعہ کے غلاموں کا یہ واقعہ درج کروں گا جس کے فیصلے کے موقع پر حضرت عمرؓ نے یہ تاریخی قول ارشاد فرمایا تھا… ’’بھوک سے مجبور ہو کر چوری کرنیو الے کو سزا نہیں دی جائے گی سزا اسے دی جائے گی جس نے اسے اس حالت تک پہنچایا ۔‘‘ ( حکمرانوں نے بیس کروڑ کی قوم کو حاطب ابن بلتعہ کے غلاموں سے کہیں بدتر حالت میں رکھا ہوا ہے۔ کاش حضرت عمرؓ جیسا کوئی ہو تو بیس کروڑ لوگوں کے ہر گناہ ہر جرم کی سزا انہی چند سو مسلط لوگوں کو ملے کہ یہی اس کے صحیح حقدار ہیں۔) ٭اور آخر میں سبحان اللہ ، سبحان اللہ وہ قول جو عمدہ حکمرانی کی اساس ہے اور ہمارے تمام خلفائے راشدین نے اس کو خود پر لاگوکیے رکھا۔ اس قولِ عمرؓ کی روشنی میں ذرا اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا اصل چہرہ وکردار پہچاننے کی کوشش کریں حضرت عمرؓ نے فرمایا۔ ’’جب تک سربراہِ مملکت پر وہی کچھ نہ گزرے جو رعایاپر گزرتی ہے، اُسے ان کی تکالیف کا احساس کیسے ہو سکتا ہے…؟؟؟‘‘ ؎ گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا جو پستی آج ہمیں نصیب ہوئی ہے یہ یوں ہی نہیں مل گئی۔ آفرین ہے ہم پر ہم نے یہ پستی وذلت بڑی محنت سے حاصل کی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں