آئو بچائیں پاکستان

کسی بندر کے تماشے سے کہیں زیادہ توجہ حاصل کرنے والے سکندر سے لے کر سفاری پارک پولیس مقابلے تک ،ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں سرمایہ دار ، ذہین اور ہنر مند پاکستانیوں کے پاکستان چھوڑنے سے لے کر ای او بی آئی کی اربوں روپے کی کرپشن تک،زرداروںاور تاجروں کے سیاسی راہنما بن جانے سے لے کر کراچی شہر میں روزانہ کی تعداد میں بلامبالغہ ہزاروں لوگوں کو ملنے والی بھتے کی پرچیوں تک آج جو کہنا ہے شعر کی صورت میں حاضر ہے۔ سکندر اور زمرد خان کے واقعے پراگلے کالم میں تفصیل سے لکھوں گا مگر فی الحال صرف اتنا ہی کہ سیاست دان آگے بڑھ کر پولیس کا کام کر کے داد طلب ہوتے ہیں تو جب دوسرے ’’ادارے‘‘ ان کے کام میں مداخلت کرتے ہیں تو تکلیف کیسی…؟ دلیل تو دوسرے بھی یہی لاتے ہیں کہ سیاست اور سیاست دان ان کے صبر کے پیمانے لبریز کر دیتے ہیں اور کارکردگی دکھانے کے بجائے جب کچھ نہیں کرتے تو ہمیں اصلاح کے لیے آگے بڑھنا پڑتا ہے ۔ ایک بات اور کہ عقل اور علم کی جیسی دشمن قوم ہم ہو چکے ہیں شاید ہی تاریخ میں کوئی دوسری قوم عشق اور جذبات کے نام پہ عقل کی توہین کرتی ہو جیسی ہمارے ہاں ہوتی ہے۔ صرف بہادری اور حوصلے جیسے خوبصورت الفاظ سے جنگ لڑنے والوں کے لیے صرف ایک جملہ کہ اب میلوں دور بیٹھ کے ڈرون کا بٹن دبانے میں نہ بہادری چاہیے ہوتی ہے نہ حوصلہ۔ دنیا تلوار کی تیزی اوربازوئوں کی طاقت سے شفٹ ہو کر عقل وعلم کے بھرپور استعمال کی بنا پر سائنس اورٹیکنالوجی میں ’’مہارت‘‘ کے رستوں پر گامزن ہے اور ہم آج بھی صرف زورِ بازو اور تلوار کے ذریعے دنیا کا مقابلہ کرنا چاہ رہے ہیںتو یہی ہو گا جو ہو رہا ہے۔ہونے سے بھی زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ جن کے ساتھ جو ہو رہا ہے انہیں ادراک ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے ۔ ایک طرف دنیا ’’مہارت‘‘ کی انتہائوں کو چُھو رہی ہے دوسری طرف ہم جذبات، جہالت وغفلت کے پاتال میں پڑے ہوئے ہیں۔ باقی سب اس نظم میں،نہایت محترم مجیب الرحمان شامی صاحب سے انتہائی معذرت کے ساتھ کہ اب تک اس نظم میں جو امید کا بند باندھنے کی تاکید انہوں نے کی تھی وہ نہیں باندھ سکا۔ نظم حاضر ہے۔ آئو بچائیں پاکستان غربت، جرم، ڈکیتی، چوری کام چلے بس زورا زوری خودکش حملے بمّ دھماکے مائیں بھول گئی ہیں لوری سارے خواب ہوئے قربان آئو بچائیں پاکستان در در ہے بھوک اور افلاس دریا دریا ناچے پیاس پاک وطن کے بُھوکے باسی اک دوجے کا نوچیں ماس ٹوٹ گئے سارے پیمان آئو بچائیں پاکستان پھول اور پھل سب توڑتے جائیں شجر کو پنچھی چھوڑتے جائیں جو مالی تھے راکھے اس کے سب اس سے منہ موڑتے جائیں اِک اِک شاخ ہوئی ویران آئو بچائیں پاکستان زرداروں کی یہاں پرستش ہر جا رشوت اور سفارش سچ کے ساتھ ہے جینا مشکل جھوٹوں پر نوٹوں کی بارش تاجر بن بیٹھے سلطان آئو بچائیں پاکستان کیا کیا کچھ نہیں کھویا ہم نے کون سا دُکھ نہیں ڈھویا ہم نے اپنے قاتل ہیں ہم خود کو قتل کیا ہے گویا ہم نے ٹوٹ گئے جتنے تھے مان آئو بچائیں پاکستان دھوکے باز یہاں بڑھ بڑھ کر ہر اک مال ملے دو نمبر کوئی چیز نہیں ہے خالص بد سے حال ہوا ہے بدتر قرضے لے کر بیچ دی آن آئو بچائیں پاکستان کھیتوں میں بنجر پن دھر کے دریائوں میں پتھر بھر کے شہروں شہروں دہشت گردی ہر قریہ ویرانہ کر کے بھسم کیے سارے امکان آئو بچائیں پاکستان آئو بچائیں پاکستان

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں