امریکہ کی روز ویل جیل سے ایک خط اور عافیہ صدیقی

’’آج میں نے ا پنا ایک دانت کھینچ کر توڑ دیا‘ وہ کئی روز سے بُری طرح ہل رہا تھا اور مجھے بولنے اور کھانے میں سخت تکلیف ہو رہی تھی۔ اپنے ہی ہاتھوں مجبور ہو کر اپنا دانت توڑنا میری زندگی کا ایک عجیب وغریب اور انتہائی تکلیف دہ تجربہ ہے لیکن پھر بھی اس کا مقابلہ ان خوفناک اور اذیت ناک لمحوں سے نہیں کیا جا سکتا جو میں روزویل جیل میں پچھلے چار سالوں سے گزار رہی ہوں۔اس دوران جیل حکام نے مجھے شوگر کی مریضہ ہونے کے باوجود کسی بھی قسم کی میڈیکل اور ڈاکٹر کی سہولت دینے سے صاف انکار کر دیا‘ جب کہ میری بار بار request کے باوجود مجھے شوگر کی حالت میں بھی ہمیشہ نشاستہ دار غذائیں ہی دی جاتی رہیں جو شوگر کی مجھ جیسی مریضہ کیلئے زہر سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ ہمارے بستر کی چادریں، تکیے، کپڑے ہفتے میں صرف ایک بار تبدیل ہوتے ہیں اور اوڑھنے والا کمبل تقریباً دو مہینے میں ایک بار دھلوایا جا تا ہے۔ جیل کے پبلک ٹوائلٹ میں ہاتھ دھونے کے لیے صابن تک مہیا نہیں کیا جاتا اور اس میں اکثر قیدیوں کو سزا کے طور پر بند کر دیا جاتا ہے۔ مجھے بھی دو مرتبہ جیل کے پبلک ٹوائلٹ میں سزا کے طور پر بند کیا گیا تھا جب کہ میں جیل کے عملے کی مار کی وجہ سے زخمی بھی تھی۔ غلاظت اور گندگی، کے باعث کسی صحت مند سے صحت مند انسان کیلئے بھی روز ویل جیل انفیکشنز اور مختلف بیماریوں کے گڑھ کا کام کرتی ہے بلڈنگ کے دوسرے حصوں میں بھی جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر نظر آتے ہیں یا ننگی، گندی گالیاں دیتا ہوا جیل کا عملہ…!!! میری بھتیجی! یہ اسی ملک کی جیل ہے جس کے مینشنز میں چار افراد کی فیملی کے لیے آٹھ آٹھ کاریں ہوا کرتی ہیں… لیکن اسی ملک میں وہ بے گھر لوگ بھی ہیں جو صرف کھانا کھانے کی غرض سے بھیک مانگتے ہوئے گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔ دانت ٹوٹنے کی وجہ سے مجھے انفیکشن ہو گیا تھا اور اس کی وجہ سے بخار۔ میرا وجود گرم تنور کی طرح تپ رہا تھا جب میں نے جیل کی ایک اہلکار سے انفیکشن ختم کرنے والی دوائی کا تقاضہ کیا تو اس نے صاف انکار کر دیا‘ جس پر میں نے کہا کہ تم میرے کھانے میں کچھ دنوں کیلئے ہی صحیح تبدیلی کروا دو جس پر لیفٹیننٹ کا جواب تھا کہ اگر تمہیں کھانا نہیں پسند تو آئندہ تمہیں کھانا نہیں ملے گا۔ مجھ سے رہا نہ گیا میں نے اس سے کہا ’’جیل میں کھانے کے نام پر زہر دے کر مارنا قانوناً جائز نہیں ہے‘‘میری یہ بات سن کر وہ لیفٹیننٹ غصے میں اتنی پاگل ہو گئی کہ اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگا۔ یہ یکم دسمبر کی رات تھی۔ وہ مجھے بالوں سے پکڑ کر فرش پر گھسیٹتی ہوئی Hole میں لے گئی۔ تم یقینا Hole کے بارے میں نہیں جانتی ہو گی۔ یہ ایک بہت ہی چھوٹا سا سیل ہے جہاں دسمبر کی سخت سردی میں بھی 24 گھنٹے ائیرکنڈیشنز چلتا ہے اور جب میں سخت سردی کہتی ہوں تو اس کا مطلب ہوتا ہے فریزنگ پوائنٹ سے کئی درجہ مزید نیچے کی سردی۔ کئی مرتبہ Hole کی سزا پانے والے یہاں سے زندہ نہیں جا پاتے۔ صبح ہونے پر گارڈ ان کی لاش گھسیٹ کر نکالا کرتے ہیں۔ میں سردی کی وجہ سے ایسے کانپ رہی تھی جیسے جوسرمشین جوس نکالنے کے دوران تھرتھراتی ہے۔ جو کمبل انہوں نے میرے بار بار چیخنے پرمجھے دیا وہ ایک باریک سی‘ سی تھرو چادر سے بھی پتلا تھا۔ میں نے کئی بار اچھل کر چھت کے نیچے لگے ائیرکنڈیشنر پر ہاتھ مارنے کی بھی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ اس رات مجھے موت بہترین راستہ نظر آیا۔ میں نے اس چھوٹے سے Hole نامی سیل میں لگے سٹیل کے سنک سے پانی نکال کر خود پر ڈالنا شروع کیا۔ اس امید کے ساتھ کہ صبح تک مجھے لازماً ’’ہائی پوتھرمیا‘‘ ہو جائے گا اور میں مر جائوں گی۔ تب تو انہیں مجھے اس سیل سے نکالناہی ہو گا۔ میرے پاس اس رات اس اذیت سے چھٹکارا پانے کا اور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ میں خدا سے زیادہ موت کو آوازیں دیتی رہی…‘‘ یہ خط روز ویل جیل سے میری ہلٹن نامی ایک عورت نے اپنی بھتیجی کو لکھا جس سے آپ کو امریکہ کی اس روز ویل جیل میں قیدیوں کے ساتھ ہونیو الے سلوک کا اندازہ ہو گیا ہو گا۔ میری ہلٹن کا یہ خط یہاں ختم نہیں ہوتا اور امریکہ کی اس بدترین روز ویل جیل کے بارے میں قیدیوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کی مزید تفصیلات سخت سے سخت دل انسان کی بھی آنکھیں اشکبار کرنے اور اندر سے پورے وجود کو ہلا دینے کیلئے کافی ہیں ۔ یہ وہی بدنامِ زمانہ روز ویل جیل ہے جہاں پاکستان کی عافیہ صدیقی قید رہیں۔ جب عافیہ صدیقی روز ویل جیل میں قید تھیں تو ان پہ ہونے والے مظالم کے حوالے سے ان کی بہن فوزیہ صدیقی جو تفصیلات میڈیا کو بتاتی رہیں وہ انسانیت سے محبت کرنے والے کسی بھی انسان کو اندر سے ہلا دینے کے لیے کافی تھیں۔ مجرم ہو کہ ملزم جیسا سلوک بقول فوزیہ صدیقی، عافیہ صدیقی سے روز ویل جیل میں روا رکھا جاتا رہا وہ انسانیت کی تذلیل کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ جب امریکن اپنے ملک کی میری ہلٹن سے جیل میں ایسا سلوک کر سکتے ہیں‘ صرف اس بنیاد پر کہ وہ ایک غریب اور لاچار عورت تھی تو وہ عافیہ صدیقی کے ساتھ کیا نہیں کر رہے ہوں گے؟ فوزیہ صدیقی کا یہ بھی بتانا تھا کہ جیل کے انہی حالات کی وجہ سے عافیہ کو کینسر ہو گیا تھا۔ فوزیہ صدیقی تو یہ بھی الزام لگاتی رہی ہیں کہ عافیہ صدیقی کو اسی روز ویل جیل میں جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئی تھیں۔ 2012ء میں اگر فوزیہ صدیقی کی طرف سے لگائے گئے یہ الزامات درست تھے تو انسانیت اور پاکستان کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہو سکتی ہے۔ جون 2013ء میں بھی امریکی فوجی زندان فورٹ ورتھ میں عافیہ پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں وہ دو دن بے ہوش رہیں۔ فوزیہ صدیقی کے الزامات سمیت یہ ساری اطلاعات اگر سچ ہیں تو شاید ہی دنیا میں کسی نے اپنے شہریوں کو فیئر ٹرائل کے بغیر مال کے بدلے یوں پامال کیا ہو۔ یاد رہے کہ عافیہ بھی انہی پاکستانیوں میں سے ایک ہیں جنہیں پاکستانی ایجنسیوں نے اٹھا کر بغیر کسی ٹرائل‘ بغیر کسی ثبوت‘ بغیر کسی قانونی کارروائی کے امریکہ کے حوالے کر دیا تھا اور ان کے بدلے مشرف حکومت نے امریکیوں سے لاکھوں ڈالر بھی وصول کیے تھے ۔ یوں اپنے لوگوں کے (جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوں) بیچنے کے عمل کو دنیا کیا کہتی ہے اور خود ہمارا معاشرہ کیا کہتا ہے‘ اس کا فیصلہ قارئین خود ہی کر لیں تو بہتر ہوگا۔ کالم مزید تلخ سچائیوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا! خبر ہے کہ وفاقی کابینہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کے حوالے سے اہم اقدامات کرنے جا رہی ہے۔ باری تعالیٰ انہیں ہمت‘ ہدایت اور حوصلہ عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ عافیہ کی مشکلیں آسان فرمائے کہ عافیہ ہو یا آفریدی فیئر ٹرائل اور انصاف سب کا حق ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں