بیت المال سے تحائف تک…

حضرت معیقیبؓ بیت المال کے خزانچی تھے۔ بیت المال میں صفائی کے دوران کوڑے سے برآمد ہونے والا ایک درہم بیکار اور معمولی سمجھ کر پاس کھڑے ایک بچے کو دے دیا۔ بچہ خزانچی سے وہ درہم لے کر چلا گیا ۔اتفاق سے وہ بچہ خلیفہ کے گھرانے کا بچہ تھا۔ چند ہی لمحوں بعد امیر المومنین کا بلاوا آگیا۔ خزانچی حضرت معیقیبؓ ،خلیفہ کے پاس پہنچے تو دیکھا وہی درہم جو انہوں نے بچے کو دیا تھا خلیفہ کی ہتھیلی پہ رکھا ہے اور حضرت عمرؓ نے معیقیبؓ سے مخاطب ہوتے ہوئے جو الفاظ ادا کیے۔ وہ احساس امانت داری کی انتہاہیں۔ فرمایا ’’معیقیبؓ !میں نے تمہارے ساتھ کوئی زیادتی کی تھی جو تم نے مجھ سے اس طرح بدلہ لینا چاہا ۔ تم سوچو قیامت کے دن جب اُمتِ محمدیہؐ مجھ سے اس درہم کی بابت پوچھے گی تو میں کیا جو اب دوں گا؟‘‘ بیت المال یا سرکاری خزانے کے درہم درہم پائی پائی کی حفاظت اور خرچ میں احتیاط کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ اشعری (ایک علاقے کے گورنر) نے خلیفہ وقت کی بیوی حضرت عاتکہؓ کو ایک سجادہ بطورتحفہ دیا جو فقط چندگز لمبا اور چند بالشت چوڑا تھا ۔آپؓ کو معلوم ہوا تو حضرت ابو موسیٰ کو بلا کر سخت ترین الفاظ میں انہیں ڈانٹا اور سجادہ ان کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا ’’ خبردار جو آئندہ ایسی حرکت کی۔‘‘ جس طرح آج مختلف ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے ایک دوسرے کے ملکوں کے وفود اوراعلیٰ عہدیداروں کو تحائف دئیے جاتے ہیں ماضی میں بھی یہی سب کچھ ہوتا تھا ۔ان تحائف کے بارے میں آج پاکستان کا قانون کچھ بھی ہو مگر اسلام کے احکامات انتہائی واضح اور عقل وفہم و انصاف وامانت کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔ ایک مرتبہ خلیفہ وقت کے دور میں کسی دوسرے ملک سے آیا ہوا تحفہ کسی سرکاری اہلکار نے رکھ لیا جس پر خلیفہ نے سختی سے تنبیہ کی اور اسے فوراً بیت المال یا دوسرے لفظوں میں سرکاری خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا ۔سرکاری اہلکار نے یہ بوگس اوربے کار دلیل پیش کرنے کی کوشش کی کہ یہ تحفہ تو مجھے دیاگیا ہے ۔جس پر خلیفہ وقت نے فرمایا ’’یہ تحفہ تمہیں تمہاری ذات کو نہیں اس منصب کو دیا گیا ہے جو منصب تمہیں عوام نے سونپا ہے۔ لہٰذا اس تحفے میں تمہارا کوئی حق نہیں ۔یہ منصب عوام کی امانت ہے اور یہ تحفہ بھی عوام کا حق ہے لہٰذا اسے فوراً بیت المال میں جمع کرا دیا جائے۔ یہ دوسرے ممالک سے ملنے والے تحائف کو اپنی جیبوں میں بھر لینا ملوکیت کی دین ہے اورجمہوریت کی توہین۔لیکن ہمارے محترم دوست رئوف کلاسرا کی رپورٹ کی تفصیل تو، توہین در توہین کی کہانیاں بیان کرتی ہے کہ کس طرح جاتے جاتے بھی ایک زرداری سب پہ بھاری رہے ۔ پچھلے پانچ سالوں میں دنیا بھر سے ملنے والے پندرہ کروڑ روپے کی مالیت سے زیادہ کے مہنگے تحائف بمشکل دو کروڑ روپے کے ادائیگی پر یقینا بلاول ہائوس منتقل ہو جائیں گے ۔ان تحائف میں لیبیا کے کرنل قذافی مرحوم کی طرف سے دی گئیں تین بی ایم ڈبلیوز اور مرسڈیز بھی شامل ہیں ۔ ایک طرف یہ عالم ہے کہ اوّل تو عوام کی جیب میں پیسے ہیں ہی نہیںاورجن کے پاس ہیں وہ پیسے دے کر بھی سی این جی اور بجلی تک نہیں خرید پاتے تو دوسری طرف یہ عالم ہے کہ بی ایم ڈبلیوز سے لے کر مرسڈیز ، آئی پیڈ ، بندوق، پستول، خنجر ، قالین، لیڈیز انگوٹھی اور نیکلس سے لے کر گھڑیوں تک کروڑوں کے تحائف جو دراصل اس بھوک اور مفلسی کے مارے عوام کا حق ہے ہمارے صدر مفاہمتی سیاست کا نعرہ لگاتے ہوئے جیب میں ڈال کر خاموشی سے چلتے بنے۔ سرکاری خزانہ بنیادی طور پر عوامی خزانہ ہے۔ جسے سرکار، عوام کی ضرورت اور آسانیوں کیلئے استعمال میں لایا کرتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ سرکاری خزانہ جو کہ عوامی خزانہ عوامی مال ہونے کے باعث عوام کی ملکیت اور عوام کی امانت ہوا کرتا ہے ،اس کی ایک ایک پائی کا حساب خالق اور اس کی مخلوق کو دینا پڑے گا اور دینا پڑتا ہے۔ عظیم الشان سلطنتیں امانت، دیانت اور انصاف کی بنیاد پر وجود میں آیا کرتی ہیں اور انہی اصولوں کی پاسداری پر مبنی افکار وکردار کے باعث جغرافیے لامحدود ہو جایا کرتے ہیں، جب کہ جن ریاستوں ، مملکتوں میں عوام کے مال اور ان کی امانتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا ،ان مملکتوں کے نہ جغرافیے باقی رہتے ہیں نہ تاریخ۔امن ،اطمینان اورخوشحالی خالی اے پی سیز کے ڈھول بجانے سے نہیں آیا کرتی ،ایسے قوانین بنانے اور ان پر عمل کرنے سے آیا کرتی ہے جن کے باعث عوام کی ایک ایک پائی کو امانت سمجھ کر صرف عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کیا جاتا ہو۔مگر افسوس صد افسوس کہ باہمی مفادات کے مارے ہمارے حکمران کبھی ایسی قانون سازی نہیں کرتے جس سے ان کے پیٹی بند بھائی کے پیٹ پر لات پڑتی ہو۔ سو ،زرداری صاحب تحائف سمیٹ کر گھر چلے گئے مگر دیکھ لیجئے گا یوں کروڑوں کے تحائف برائے نام ادائیگی پر جیب میں ڈالنے کا قانون کوئی تبدیل نہیں کرنا چاہے گا۔زرداری صاحب تو جاتے ہوئے اپنی بکریاں ممنون صاحب کو عنایت کر گئے ،دیکھنا یہ ہے کہ جب ممنون صاحب ایوانِ صدر سے رخصت ہوں گے تو کیا لے کر جائیں گے اور کیا چھوڑ کر جائیں گے۔ مگر یہ طے ہے کہ تحائف دینے والے کرنل قذافی جیسے آمر ہوں ،عرب شیوخ یا دیگر حکمران یا وصول کرنے والے گیلانی ، زرداری یا ممنون صاحب جیسے سیاستدان ، آخری ہچکی کے بعد کوئی بھی کچھ بھی ساتھ نہیں لے جا سکے گا ،سب کچھ چھوڑ کر جانا ہو گا۔ کروڑوں کیا اربوں کھربوں کے تحائف بھی اگر لاکھوں ہزاروں کیا کوڑیوں کے مول بھی ملیں تب بھی نہیں لے جا سکیں گے کہ 3X6کے چوکھٹے میں اتنی جگہ ہی نہیں ہوتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں