وزیراعظم کے دورۂ امریکہ کی تفصیلات پر نظر ڈالی جائے تو بڑی بڑی باتوں‘ بلند بانگ دعووں اور سفر پہ اٹھنے والے لمبے چوڑے اخراجات کی گرد میں کچھ نظر نہیں آتا۔ جو نظر آنا چاہیے کم ازکم وہ تو ہر گز نظر نہیں آتا۔ باقی باتوں کو تو چھوڑ دیجئے کہیں ایک چھوٹی سی خبر بھی نظر نہیں آئی کہ عام پاکستانیوں کے ساتھ امریکی ائیرپورٹس پر جس قسم کا امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے جس طرح ہتک آمیز رویہ اختیار کیا جاتا ہے اس سلسلے میں بھی کوئی آواز اٹھائی گئی ہو ۔ جس سے روزانہ کی بنیاد پر امریکہ کا سفر کرنے والے سینکڑوں پاکستانی مسافر براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ ماہانہ بنیاد پر جن کی تعداد ہزاروں میں جا پہنچتی ہے۔ لیکن امریکہ ہو کہ پاکستان‘ خواص کو عوام اور عوام کے اصل مسائل سے کیا لینا دینا۔ جس ملک کے حکمران چاہے اپوزیشن میں ہوں چاہے حکومت میں‘ پورے پورے خاندان کے ساتھ پوری دنیا میں پروٹوکول کے جلو میں سفر کرنے کے عادی ہوں‘ انہیں عوام کی اذیت ، حمیت، خودداری یا پندار کے پانی ہونے سے کیا لینا دینا۔ سو عام پاکستانی وزیراعظم کے اس بے مثال وشاندار دورے کے بعد بھی امریکہ آمدورفت کے دوران ایسے ہی ذلیل ہوتا رہے گا جیسے برسوں سے ہو رہا ہے لیکن سچ پوچھیں تو مسئلے کی جڑ پھر وہی ہے جس کا تذکرہ پچھلے کالم میں ہسٹری میوزیم لندن میں پاکستانی طلبہ سے ہونے والی ملاقات کے حوالے سے کیا تھا کہ عوام الناس کو بھی اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیر کر دیکھنی چاہیے۔ یقینا سب نہیں مگر پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد حکومتی سطح کے علاوہ انفرادی سطح پر امریکہ میں جو کچھ کرتے پائے جاتے ہیں اپنی امیج کو جیسے برباد کرتے ہیں تو جواب میں کوئی ہمیں پھولوں کا تھال تو پیش کرنے سے رہا۔ سو حکومت کے ساتھ ساتھ قوم کو انفرادی سطح پر بھی اپنے بھرم ، انا، خودداری اور امیج کو قائم رکھنے کے لیے کچھ نہیں بلکہ خاصی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ الگ بات کہ ساتھ ساتھ تعصب کی بنیاد پر جو امتیازی سلوک مسلمانوں سے اور پاکستان سے روا رکھا جاتا ہے وہ بھی اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہے ۔ تو چلیں ہمارے ساتھ دنیا بھر میں ہونے والے بُرے سلوک میں تعصبات کے ساتھ ساتھ ہماری اپنی ’’حرکات‘‘ کا جتنا حصہ ہے اس حصے کو تو کم کیا ہی جا سکتا ہے ۔ رہ گیا صرف تعصب کی بنیاد پر بُرا سلوک تو اس پہ ڈٹ کے آواز اٹھاتے رہنا چاہیے۔ اپنے حق کے لیے دنیا سے ضرور جنگ کریں مگر پہلے خود سے جنگ کرنا سیکھیں۔ سچ پوچھیں تو دنیا ہمیں جتنا ذلیل ورسوا کرتی ہے اس سے کہیں زیادہ ہم خود اپنی حرکتوں کی وجہ سے اپنے آپ کو ذلیل ورسوا کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ائیرپورٹس پر ہونے والے امتیازی سلوک کے حوالے سے پچھلے کالموں میں، میں نے ملکِ شام سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر عامر درویش جو معروف ادیب محمود درویش کے قریبی عزیز بھی ہیں‘ کی ایک نظم کا تذکرہ کیا تھا جسے برطانیہ کے شہر الکلی میں پڑھ کر انہوں نے دنیا بھر سے آئے ہوئے شاعروں اور حاضرین سے بے پناہ داد وصول کی تھی ۔ وہ نظم قارئین کے لیے پیش کر رہا ہوں ۔ کافی غور کرتا رہا پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر اس کا ترجمہ درج کروں گا تو مفہوم تو شاید پہنچ جائے مگر نظم کا حُسن Kill ہو جائے گا لہٰذا عامر درویش نے جیسی نظم مجھے emailپر بھجوائی ویسی ہی نذرِ قارئین… \"Randomly Selected\" Take off your belt. Take off your shoes. Take off your socks. Hands up. Spread your legs. Stand still. Mr Darwish? Yes. Your passport, please. You packed your bags yourself? What is your final destination? why are you travelling? How did you obtain your citizenship? Where were you born? Who do you live with at home? what\'s your occupation? I need to do some checks on the passport. Any problem sir? No, not at all. It\'s a routine check. You have been randomly selected. Randomly selected!!! But in 2005 I was randomly selected. And in 2006 I was randomly selected. And in 2007 again I was randomly selected. In 2008, 2009, 2011, 2012 I have a suggestion for you sir In 2013 when you stop me please tell me That I was accidently selected. In 2014 when you stop me say That by pure chance I am selected. In 2015 advise me that I am incidentally selected. Maybe using synonyms will make The experience more pleasurable. What do you think? They finished. I ran to catch the plane. I saw Ahmad who was also randomly selected. Abdul also randomly selected. Hasan randomly selectecd. Ali randomly selectecd. On, john as well, who looked like me was Randomly selectecd though They only stopped him for two minutes And asked his name after seeing his passport They said, \"Sorry sir, You were wrongly randomly selected.\" He had a British mother, you see. When I got to the plane I saw Thomas Tony Jack Jason Joshua Who were not randomly selected!!! That day I decided to change my name. I thought to myself when I come back from holiday My forename will be: Randomly My surname well be: Selected Ladies and gentlemen, I am now officially Randomly Selected.