یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو…

منیر صاحب پر لکھنا چاہ رہا تھا کہ مشرف صاحب درمیان میں آگئے۔ آج پھر منیر صاحب کی کلیات ہاتھ میں تھامی ہی تھی کہ ٹی وی سکرینز پر پٹی چلنا شروع ہوئی کہ حبیب جالب صاحب کی بیوہ اس جہانِ فانی کو چھوڑ کر لافانی دنیا کے سفر پر روانہ ہو گئیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔
تخلیق اور پیدائش زندگی کی بڑی حقیقتوں میں سے دو حقیقتیں ہیں جو حسرت ویاس کی ظلمتوں بھری دنیا میں بھی امید کے چراغ روشن کر دیتی ہیں۔ تبھی تو کہا جاتا ہے کہ ہر نومولود کی آمد اس بات کا اعلان ہوا کرتی ہے کہ قدرت، جاری وساری نظام سے، چاہے وہ کتنا ہی جبرواستبداد پر مبنی کیوں نہ ہو، مایوس نہیں ہے بلکہ پُر امید ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ موت زندگی کی انتہا ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی اور کائنات کی بڑی سچائیوں، بڑی حقیقتوں میں سے ایک حقیقت ہے۔
ازل سے موت اور زندگی کا یہ کھیل کائنات میںجاری ہے ،کسی گھر میں جنازہ اٹھ رہا ہوتا ہے تو کسی گھر میں نومولود کی آمد کے شادیانے بج رہے ہوتے ہیں۔ جالب جیسے تخلیق کار کا اعزاز یہ ہوا کرتا ہے کہ انہیں اگر موت آبھی جائے تب بھی ان کی تخلیق کی سانسیں برقرار رہتی ہیں۔ ان کے ہنر کی خوشبو سے معاشرہ ان کے جانے کے بعد بھی مہکتا رہتا ہے ، نہ صرف مہکتا رہتا ہے بلکہ ان کے روشن کیے ہوئے جگنوئوں جیسے افکار صدیوں رستہ دکھاتے رہتے ہیں۔
جالب صاحب ادبا کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جو صرف قلم کے ذریعے لکھ کر ہی کتھارسس نہیں کیا کرتے تھے بلکہ مخلص اور بے لوث سیاسی وسماجی کارکن کی طرح اپنے فلسفے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عملی جدوجہد بھی کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جالب صاحب اپنے سیاسی آدرشوں کی پاداش میں تا عمر حکمرانوں کے عتاب کا شکار رہے ۔ حیرت انگیز اور تکلیف دہ طور پر جالب ، ندیم اورفیض کے بعد آنے والی نسل کے ادباء میں ، یقیناً میں خود بھی جس کا حصہ ہوں، شاید سیاسی، سماجی اورمعاشرتی شعور کا وہ ادراک نہیں پایا جاتا جو جالب، ندیم وفیض کی نسل کا خاصہ تھا۔ جب اپنے عہد کے سماجی، سیاسی ومعاشرتی مسائل کا پوری طرح ادراک ہی نہیں ہے تو نتیجتاً نہ ویسا ادب تخلیق ہو پا رہا ہے جیسا ندیم وفیض ، جالب اور منٹو وغیرہ نے کیا اور نہ ہی سیاسی ، سماجی ومعاشرتی مسائل کے حل کے لیے آج کا ادیب بولتا، بات کرتا اور اپنے ان سینئرز کی طرح عملی جدوجہد کرتا نظر آتا ہے۔ 
ان ادباء کی ترجیح ادب ، سیاست اور سماجیات ہوا کرتی تھی۔ آج کے ادیب کی ترجیحات میں نوکریاں، گریڈز ،اچھی پوسٹنگ یا تمغہ جات کا حصول تو ہے مگر سیاسی وسماجی انصاف کے حصول کے لیے ایک شاندار معاشرے کا قیام ان کی ترجیح میں کہیں دور دورتک نظر نہیں آتا۔ 
کچھ تو تا عمر رہے کسبِ ہنر میں مصروف
اور کچھ تمغہ والقاب کے پیچھے پیچھے
جب ادیب، سماجی انصاف یا امن ومساوات پر مبنی معاشرے کے حصول کے لیے جدوجہد کے بجائے تمغہ والقاب کے پیچھے دوڑنا شروع ہو جائے گا تو ندیم، فیض،جالب اور ظہیر کاشمیری کہاں سے پیدا ہوں گے ، جو اپنے اپنے اہل خانہ کے لیے نہیں ، اپنے لوگوں کے لیے جیتے تھے... انسانوں کے لیے سانس لیتے تھے... خلق خدا کے لیے زندہ رہتے تھے! 
کوئی تو وجہ ہوگی کہ ندیم، جالب، فیض کے بعد کوئی قابل ذکر ادیب ہمیں ان کے بعد کے ادوار میں کسی سیاسی تحریک میں دامے ، درمے ، سُخنے شریک ہوتا ، صعوبتیں برداشت کرتا یا جیل جاتا نظر نہیں آتا ۔ مشرف دور کے آخری دنوں میں فراز صاحب نے شاہراہ دستور پر جاری مظاہروں میں شریک ہو کر بڑھاپے کے باوجود اپنا حصہ ڈالنے کی ضرور کوشش کی مگر دیگر ادباء تو یہ حوصلہ بھی نہ کر سکے۔
جب ہم ندیم، فیض، جالب اور منٹو جیسی قدآور شخصیات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آج خلق خدا کی ان سے محبت کی وجہ ان کی فنی پختگی وانفرادیت کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی ، سماجی ومعاشرتی کمٹمنٹ بھی تھی جو شاید ان کے بعد آنے والی نسل میں مفقود ہے۔ 
لاٹھیاں کھانے والے جالبؔ کیا ہوئے۔۔۔؟
خونِ دل میں انگلیاں ڈبونے والے فیضؔ اب کہاں۔۔۔؟
سارے جہان کی بدنامی مول لے کراپنی تحریر کے نشتر سے معاشرے کے ناسوروں کی سرجری کرنے والا منٹوؔ اب کہاں سے لائیں۔۔۔؟
سارتر ہو یا پبلونرودا۔۔۔ مارکیز ہو یا فیض۔۔۔ جالب ہو یا رسول حمزہ توف۔۔۔ اقبال ہو یا بریخت یا ظہیر کاشمیری۔۔۔ یہ سب اعلیٰ پائے کے لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ بے پناہ سیاسی وسماجی جدوجہد کے بھی استعارے ہیں،اسی لیے اپنے چاہنے والوںکو، اپنے پڑھنے والوں کو بہت پیارے ہیں۔۔۔!
مجھ سمیت اگر آج کے ادباء کو ان ہی کی طرح منفرد اور ممتاز ہونا ہے تو اپنی ذات سے اٹھ کر خود سے زیادہ خلق خدا کے لیے سوچنا ، بولنا اور لکھنا ہو گا۔۔۔اورصرف اسی پر اکتفا نہیں کرنا ہو گا بلکہ ایک فلاحی ریاست ومعاشرے کے قیام کے لیے عملی جدوجہد بھی کرنا ہو گی ۔ 
حبیب جالب کی جدوجہد کو سلام کہ جالب جیسوں کی وجہ سے ہی ہمارا قبیلہ سر اٹھا کر چلنے کا حوصلہ رکھتا ہے ، ورنہ تمغوں نے تو بہت سے شاعروں، ادیبوں کی گردنوں کو سدا خم کیے رکھا ۔ آخر میں جالب کے دو شعر آپ کی نذر، ایک مرتبہ پھر اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ جالبؔ صاحب کی اہلیہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔۔۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں