ان لبوں نے نہ کی مسیحائی …

زکام اور بخار نے یوں آ جکڑا کہ خواہش اور طلباء کی بار بار یاد دہانیوں کے باوجود لمز یونیورسٹی میں فلم کے حوالے سے منعقدہ سیمینار میں نہ جا سکا‘ حالانکہ میری شدید خواہش تھی کہ نوجوان طلباء نے جدید فلمسازی کے حوالے سے جو ریسرچ کی ہے اس کے بارے میں آگاہی حاصل کی جائے، مگر بخار نے ایسا بھینچا ہوا تھا کہ وجود کسی بھی طرح بستر چھوڑنے پہ راضی نہ تھا، کروٹیں لیتا، سوتا جاگتا رہا۔ کبھی دیوانِ غالب اٹھا کر کچھ غزلوں سے روح کو سیراب کیا، کبھی میر درد کے انسانیت کا درد دیتے صوفیانہ اشعار کو بخار میں پھنکتے ہوئے جسم پر اوس کی طرح محسوس کرتا رہا:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
جیسے اشعار کے خالق میر درد کو بھی مجھے لگتا ہے اردو شاعری میں اس سے کہیں زیادہ رتبہ اور مقام ملنا چاہیے جس پہ قارئین و ناقدین نے انہیں تادمِ تحریر فائز کر رکھا ہے۔
یہاں یہ تذکرہ کرتا چلوں کہ میر درد کا جو شعر اوپر درج کیا ہے اسے ایک عالم اقبالؔ سے منسوب کر دیتا ہے۔ میر درد کے کچھ موتیوں کو لفظوں کے تار میں پرو کے، رومی کے افکاروحیات کے تناظر میں لکھا اور عشق کی سرمستی میں بہتا ہوا ''ایلف شفق‘‘ کا ناول ''فارٹی رولز آف لو‘‘ اٹھایا ہی تھا کہ سامنے دیوار پہ لگے ٹی وی پہ لمز یونیورسٹی کے اسی فلم سیمینار میں کی گئی پرویز رشید صاحب کی تقریر کے ٹکرز چلنا شروع ہو گئے کہ ''ریاست نے ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرنا شروع کیا ہے‘‘ اور یہ کہ ''سکیورٹی سٹیٹ اب سوشل سکیورٹی سٹیٹ بننے جا رہی ہے‘‘ اور پرویز صاحب کے اس جملے نے تو مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ ''بندوق کے بجائے بچوں کے ہاتھوں میں پینٹ برش دیں تو اچھا ہے‘‘۔
پرویز صاحب خود بھی آرٹ و موسیقی سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں، اس لیے ان کی گفتگو یقیناً بیوروکریسی کی طرف سے فراہم کردہ کاغذ پہ مبنی نہیں تھی۔ جو وہ کہہ رہے تھے اس کی افادیت اور اہمیت سے یقیناً وہ خود بھی بخوبی آگاہ تھے۔
پاکستان آج جس معاشی، معاشرتی، سماجی، سیاسی و تہذیبی بدحالی کو پہنچا ہے اس کی ایک بڑی وجہ معاشرے کا کتاب اور علم و فن سے دوری بھی ہے۔ جب بچوں کے ہاتھ بھی کتاب، قلم، گٹار، فلم کا کیمرہ، ڈرامے کا سکرپٹ، کینوس اور پینٹ برش نہیں تھمایا جائے گا تو کچھ نہ کچھ تو نوخیز، بے چین اور زرخیز ذہنوں کو چاہیے ہوتا ہے جس سے وہ اپنے ''ہونے‘‘ کا اظہار کر سکیں۔ نتیجتاً وہی ہاتھ بندوق اٹھاتے ہیں یا ان ہاتھوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں‘ جو بندوق کو قلم پر ترجیح دیتے ہوں۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ جنہوں نے بندوق اٹھائی ہوتی ہے ان میں سے بھی بیشتر شاید بندوق اٹھانے کی خواہش نہ رکھتے ہوں، مگر جب معاشرہ وقت پر اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتا اور قوم کے کچھ حلقوں یا علاقوں میں زندگی کے وہ خوبصورت رویے اور رخ پہنچا ہی نہیں پاتا جو بندوق سے ہٹا کر ان کی توجہ حاصل کر سکیں تو اٹھانے اور استعمال کر نے کو‘ اپنی ذات کا اظہار کرنے کو‘ صرف اور صرف بندوق ہی رہ جاتی ہے۔ وزیر موصوف کی تقریر کے جملوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ شاید ہر ہائوسنگ سوسائٹی میں سینما گھر کی تعمیر کا منصوبہ بھی حکومت کے زیر غور ہے، مگر حکومت کو اس کے لیے پہلے ایسے حالات پیدا کرنے ہوں گے کہ ان سینما گھروں کو اس معاشرے کے جذبات و مسائل کی عکاسی کرنے والی فلمیں بھی تو دستیاب ہو سکیں۔
میرے نزدیک معاشرے کے کونے کونے میں علم و فن کے فروغ کا معاملہ موجودہ مذاکرات یا آپریشن والے معاملے ہی کی طرح کا انتہائی اہم اور سنجیدہ معاملہ ہے جس کا دائرہ کار صرف لاہور، کراچی جیسے بڑے شہروں تک محدود نہیں ہونا چاہیے، ورنہ آج چاہے مذاکرات کریں یا آپریشن، اگر علم و فن اور قلم و کتاب کی جگہ جگہ آبیاری نہیں کی جائے گی تو معاشرہ دہائیوں نہیں صدیوں انہی مسائل کا شکار رہے گا جن کا آج ہے۔
انتہا پسندی اور نفرتوں کو ختم کرنے کے لیے صدیوں سے آزمودہ ترین ہتھیار علم ہی رہا ہے‘ چاہے وہ کتاب کے ذریعے پہنچے یا اخبار، ٹی وی یا فلم کے ذریعے۔
اگر آنے والی نسلوں کو ہمیں امن دینا ہے اور اسی قسم کی بدامنی، گومگو اور انتشار کی کیفیت سے بچانا ہے جس کا آج ہم شکار ہیں، کہ جائیں تو جائیں کہاں؟ کریں تو کریں کیا؟ تو جس شد و مد سے آج کل مذاکرات یا آپریشن کی بحث جاری ہے اس سے کہیں زیادہ قوت سے قوم کو اس پہ بھی زور دینا چاہیے کہ ریاست اور حکمران فاٹا سے لے کر گوادر تک ایسے انتظامات کریں کہ محسودوں سے لے کر مکرانیوں تک ہم اپنے بچوں کو بندوق کے بجائے قلم تھما سکیں، امن خود بخود ہمارا مقدر بن جائے گا۔ دفاعی و ترقیاتی بجٹ کے ساتھ ساتھ قوم کے ہر حلقے کو علم و ثقافت کا بجٹ بھی بڑھانے کے لیے زوروشور سے مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ بندوق کی گولی سے بندوق بردار کو مستقبل میں مارنے سے کہیں بہتر ہے کہ آج ہی ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ وہ بندوق کے بجائے قلم کی اہمیت و افادیت سے آگاہ ہو جائے، یقین جانیے اس پر خرچہ بھی کم آتا ہے۔ جاتے جاتے ہماری حالتِ زار اور حکمرانوں کی بے پروائی پر میر درد کا ایک شعر:
ان لبوں نے نہ کی مسیحائی 
ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں