بگ تھری اور بیگرز…

شاعر نے کہا تھا کہ
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
پھر یہی شاعرانہ فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ جو بے حس اور ڈھیٹ قومیں یا فرد بار بار کے طوفانوں کے بعد بھی اضطراب کے بجائے انتشار و بے عملی و بے عقلی کا شکار رہتے ہیں ان کی تقدیر ضعیفی اور ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ہی ہوا کرتی ہے۔ سیکھنے والے تو چیونٹی کے بار بار گرنے اور دوبارہ چڑھائی کا سفر جاری رکھنے سے بھی بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں لیکن جو حالت انکار کی افیم کھا کر سوئے ہوں انہیں نہ کوئی سکھا سکتا ہے نہ جگا سکتا ہے ورنہ جس طرح کرکٹ کے میدانوں میں پاکستان کی بربادیوں کے مشورے ہیں اس سے قوم چاہے تو بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ بگ تھری نامی منصوبے کی تفصیل تو قارئین پڑھ چکے ہوں گے، دانشمندی و ہوش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ طاقتوروں کو ''تیری توپوں میں کیڑے پڑیں‘‘ جیسی گالیوں سے نوازنے کے بجائے ان عوامل پر غور کرنا چاہیے کہ بقول عمران خان آسٹریلیا اور انگلینڈ کے جس شاہانہ رویے کی بھارت کل تک مخالفت کرتا تھا آج وہی بھارت، آسٹریلیا اور انگلینڈ کے ساتھ ہو گیا ہے اور پاکستان اس صف میں کھڑا ہے جس میں بنگلہ دیش جیسے ممالک آتے ہیں جسے ٹیسٹ سٹیٹس ملے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے۔ معاملہ کھیل کے میدانوں کا ہو یا زندگی کے دیگر شعبوں کا، غریب گھرانہ ہو، فرد یا قوم اس کے ساتھ زمانے میں یہی کچھ ہوا کرتا ہے۔ تبھی تو فرمایا کہ ''کمزور مومن سے توانا مومن بہتر ہے‘‘۔ سماجی، معاشی و سیاسی طور پر کمزور قوموں کو دنیا کے اس جنگل میں طاقتور قومیں اسی طرح زیردست بنانے کے در پے رہا کرتی ہیں، اسی طرح منصوبے بناتی رہتی ہیں جیسے منصوبے بگ تھری کی شکل میں سامنے لائے جا رہے ہیں۔ کھیل ہو کہ ملکوں کی سیاست، طاقت کی اخلاقیات بس وہی ہوا کرتی ہے جو طاقتور طے کرے یا جس پر عمل کرنا چاہے۔ باقی رہ جاتا ہے احتجاج، شکایتیں، رونا دھونا، بددعائیں، گریہ زاری و لعنت ملامت، طاقت ان ساری نحوستوں و بدعائوں سے بالا، پرے اور محفوظ اپنی پوزیشن کو انجوائے کر رہی ہوتی ہے۔
طاقت کے کھیل کی ایک اور سفاک حقیقت یہ بھی ہے کہ کمزور جب طاقت کے مقابل ہوتا ہے تو اس کی اخلاقیات، اصول اور خواہشات کچھ اور ہوا کرتی ہیں لیکن جونہی کمزوری طاقت میں بدلتی ہے وہی کمزور، طاقت کی اسی زبان میں گفتگو شروع کر دیتا ہے جو ازلوں سے طاقت کا خاصہ رہا ہے۔ بگ تھری کے کیس میں ہی دیکھ لیجیے وہی بھارت جو آسٹریلیا اور انگلینڈ کا ہم جولی بنا پھرتا ہے کل تک ان کی بادشاہت کے خلاف احتجاج کیا کرتا تھا۔
بگ تھری کا پیغام صرف کھیل کے میدانوں تک محدود نہیں ہے، بگ تھری کا پیغام کم ازکم پاکستانیوں کو یہ سبق بھی دیتا ہے کہ ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہم زندگی کے ہر میدان میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیز کے دروازے ہمارے طلباء پر بند ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارا پاسپورٹ ہماری بے توقیری کی داستان سناتا ہے۔ آئی پی ایل کے سینکڑوں کھلاڑیوں میں ایک بھی پاکستانی شامل نہیں کیا گیا۔ برسوں سے کوئی غیر ملکی ٹیم پاکستان میں آ کر کھیلنے کو تیار نہیں۔ تعلیم سے لے کر کھیل تک زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں دنیا بھر میں ہمارے کارنر ہونے کی وجہ نہ ہمارے طالب علم ہیں نہ ہمارے کھلاڑی نہ شہری بلکہ ہمارے وہ حکمران ہیں جن کا رویہ اپنی ہی قوم کے ساتھ بگ تھری سے بھی کہیں زیادہ سفاک اور ظالمانہ ہے اور جن کے عزائم بگ تھری سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ بگ تھری تو پھر شاید کھیل کے میدانوںکی رونق آباد رکھنے کے لیے کچھ اور رورعایت ہمیں دے دے گا لیکن جمہوریت کے نام پہ موروثی سیاست وہ بادشاہت کو پروان چڑھاتے ہمارے حکمران، ارباب اختیار صرف یہ چاہتے ہیں کہ... 
سنجیاں ہو جان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے
مستقبل میں اگر پاکستان کو کھیل کی طرح زندگی کے ہر شعبے میں بگ تھری جیسے گروپس اور منصوبوں سے بچنا ہے تو اپنے بحر کی موجوں میں اضطراب پیدا کر کے خود پہ مسلط سیاسی خاندانوں سے نجات حاصل کرنا ہو گی ورنہ آنے والے برسوں میں بنگلہ دیش تک کسی بگ تھری کا حصہ ہو گا اور پاکستان ٹیبل کے اس طرف بیٹھا اپنے وقار اور بقا کی جنگ لڑ رہا ہو گا۔ بگ تھری کے عزائم کے خلاف جنگ کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں کو ان سے اپنے حقوق کی جنگ لڑنی چاہیے جنہوں نے پاکستان کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ آج پاکستان بگ تھری کا حصہ ہونے کے بجائے ''بیگنگ‘‘ پر مجبور ہے۔ کیا کہا؟ کون سی بیگنگ۔۔۔؟ لگتا ہے آپ نے سرتاج عزیز صاحب کے دورۂ امریکہ کی تفصیلات نہیں پڑھیں۔۔۔پڑھتے جائیے اور سر دھنتے جائیے کہ بحیثیت قوم اپنی غلطیوں کا ادراک کر کے اگر ہماری شرمانے کی عادت ہوتی تو آج ہماری یہ حالت نہ ہوتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں