افسوس! یہ خبریں رکنے والی نہیں

جس زمانے میں دنیا مریخ کی مٹی زمین پر لا کر تجربہ گاہوں میں مشاہدے میں مصروف ہے‘ تخلیق کائنات کے حوالے سے ان رازوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے کہ کیا تخلیق کا عمل ایک سیکنڈ کے کھربویں حصے میں مکمل ہو گیا تھا‘ خود پاکستان ساتویں ایٹمی قوت ہونے کا دعوے دار ہے اور اعلان کرتا ہے کہ جے ایف تھنڈر جیسے طیارے اس پورے خطے میں کوئی نہیں بنا رہا‘ ایسے میں آج صحرائے تھر میں بھوک سے مرنے والوں کی خبریں سامنے آئے کئی ہفتے ہونے کو ہیں۔ ہمارے ہی اخبار روزنامہ دنیا کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پچھلے تین مہینوں سے روزانہ کئی افراد اور بچوں کی ہلاکتیں ہوتی رہیں اور تقریباً ایک سو دو بچوں سمیت پونے دو سو کے قریب افراد جاں بحق ہوئے۔ آج بھی اخباروں میں کچھ بچوں کے مرنے کی خبر رپورٹ ہوئی ہے۔ چند دن پہلے بھی تین بچیاں ریاستِ پاکستان اور پاکستانیوں کی حساسیت، بھائی چارے اور انسان دوستی کو دعائیں دیتی ہوئی بھوک سے اللہ کو پیاری ہو گئی تھیں۔ یہ تمام وہی دن ہیں جن میں انہی قحط زدہ علاقوں سے وزیروں کے مرغن کھانوں کی دعوتوں کی خبریں آتی رہیں۔ یہ وہی دن ہیں کہ بچے بھوک سے مرتے رہے اور حکمران اپنے میچ دیکھنے کی خبریں میڈیا کو ریلیز کرتے رہے۔ یہ وہی دن ہیں جب معصوم پاکستانی بچوں کے ہونٹوں پہ پیاس سے پپڑی جمتی رہی ،آنتوں میں بھوک سے پیپ پڑتی رہی ،وہ کراہ کراہ کر اسلام کے نام پہ بنی ریاست کی جانب دیکھتے ہوئے دم توڑتے رہے اور انتظامیہ حکمران کا قیمتی مور کھا جانے والے جنگلی بلے کو ڈھونڈنے میں مصروف رہی۔ کسی نے نہ خبر لی ،نہ کسی کو سزا دی کہ گندم گوداموں میں ہوتے ہوئے بھی کیسے لوگ بھوک سے مر گئے؟ البتہ بے قابو جنگلی بلے کو قابو نہ کرنے والے بارہ تیرہ کے قریب پولیس والوں کو شوکاز نوٹس ضرور جاری ہوا۔ جاتی عمرہ کا مور زیادہ قیمتی ہے یا تھر میں بھوک اور پیاس سے بلبلاتے ہوئے دم توڑتے بچوں کی جانیں ؟اس کا فیصلہ قارئین خود کر لیں۔ مجھے تو حضرت عمرؓ یاد آتے ہیں ایک مرتبہ مدینے میں قحط پڑ گیا۔ آپؓ نے حکم صادر فرمایا کہ مدینہ میں کسی کے گھر میں انفرادی طور پر کچھ نہیں پکے گا۔ غذا کا سامان یکجا کر لیا جائے اور جو کچھ پکے، اہلِ مدینہ اور باہر سے آنے والے ایک مشترکہ دستر خوان پر بیٹھ کر کھا لیں۔ اس انتظام کی ابتدا انہوں نے خود اپنے ہاں سے کی۔ چنانچہ آپ بھی اسی مشترکہ دستر خوان پر بیٹھ کر ماحضر تناول فرما لیتے تھے۔ اس دستر خوان کی وسعت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اس پر کھانے والوں کی تعداد بہت کثیر تھی اور جن مریضوں، معذوروں، بوڑھوں، بچوں، عورتوں کو ان کی اقامت گاہوں پر کھانا پہنچایا جاتا تھا ،ان کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی۔ بے بدل حکمران حضرت عمرؓ کی اپنے لوگوں سے محبت اور ان کے بارے میں طبیعت کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دن آپ ایک بدو کے ساتھ مل کر ایک ہی طشت میں کھانا کھا رہے تھے۔ طشت میں گھی میں چوری کی ہوئی روٹی تھی۔ آپ نے دیکھا وہ بدو ''ندیدوں‘‘ کی طرح طشت میں اس طرف ہاتھ مار رہا ہے جس طرف گھی زیادہ تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے گھی کبھی نہیں کھایا۔ اس نے کہا کہ جب سے قحط پڑا ہے نہ خود اس نے گھی یا تیل کھایا ہے ،نہ کسی اور کو کھاتے دیکھا ہے۔ یہ سن کر آپ نے قسم کھائی کہ جب تک قحط رہے گا ،وہ گوشت اور گھی کو ہاتھ تک نہیں لگائیں گے ،صرف زیتون کے تیل کے ساتھ سوکھی روٹی کھائیں گے۔ مسلسل پریشانی ،پیہم مشقت ،دن رات کی تگ و تاز اور اس پر اس تبدیلی غذا کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کے چہرے کا رنگ سیاہ پڑ گیا (حالانکہ وہ سرخ و سپید تھے) ۔پیٹ میں قراقر رہنے لگا ۔دن بدن لاغر و کمزور ہوتے چلے گئے ۔اس پر آپ کے رفقاء کو تشویش لاحق ہوئی اور انہوں نے آپ سے کہا کہ آپ اس تبدیلی غذا کو برداشت نہیں کر سکیں گے ،اس لئے آ پ اپنے معمول کی غذا کی طرف پلٹ آئیے۔ اس کے جواب میں آپ نے وہ فقرہ کہا کہ جسے اگر ہمارے حکمران اپنی زندگی کا اصول بنا لیں تو یہ جہنم آج جنت میں بدل جائے ۔آپؓ نے فرمایا کہ...
''مجھے لوگوں کی تکلیف کا احساس کس طرح ہو سکتا ہے ،جب تک مجھ پر بھی وہی کچھ نہ گزرے جو ان پر گزرتی ہے۔‘‘
حضرت عمرؓ نے قحط کا سارا زمانہ اسی سوکھی روٹی اور روغنِ زیتون پر گزار دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا بیان ہے کہ آپؓ رات کو سجدے میں پڑے روتے ،گڑگڑاتے اور خدا سے فریاد کرتے کہ ''رب العالمین! اگر یہ مصیبت میری کسی کوتاہی کی وجہ سے ہے تو مجھے معاف کر دے‘‘ ۔جن لوگوں نے آپؓ کی یہ حالت دیکھی تھی ،وہ کہتے تھے کہ اگر کچھ وقت اور قحط دور نہ ہوتا تو ہمیں خدشہ تھا کہ عمرؓ مسلمانوں کے غم میں اپنی جان گھلا دیتے۔
غم تمام مسلمانوں کا تھا، ساری اُمت کا تھا۔اس میں اپنے اور بیگانے کی کوئی تمیز نہیں تھی۔
ایک دن آپؓ نے دیکھا کہ آپ کا پوتا ککڑی (یا تربوز) کھا رہا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو بلایا اور ڈانٹ کر کہا کہ ''محمدؐ کی امت بھوکی مر رہی ہے اور عمرؓ کا پوتا پھل کھا رہا ہے‘‘۔بیٹے نے کہا کہ ابا جان! خفا نہ ہوئیے ،عمرؓ کے پوتے کو ''پھل‘‘ کسی خصوصی امتیاز کی بنا پر نہیں ملا۔ صبح کے ناشتے میں بچوں کو جو کھجوریں ملی تھیں،اس نے ایک بدو لڑکے سے ان کے عوض یہ ککڑی (یا تربوز) خرید لیا تھا۔
ایک دن گلی میں دیکھا کہ ایک بچی جا رہی ہے۔ زرد رُو نحیف و نزار اسے دیکھ کر آپ کو بڑا صدمہ ہوا ۔پوچھا یہ کس کی بچی ہے۔ بیٹا ساتھ تھا کہا کہ ''یہ امیرالمومنین کی پوتی ہے‘‘ فرمایا کہ اس کی ایسی حالت کیوں ہے ؟ کہا کہ اس قحط میں جو کچھ ملتا ہے ، بدوئوں کے بچے تو اس کے عادی ہیں لیکن ہمارے بچے اس کے عادی نہیں۔ اس لئے ان کی یہ حالت ہو رہی ہے ۔فرمایا کہ حالت کچھ بھی ہو ،اس عالمگیر مصیبت میں کسی کے ساتھ ترجیحی سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی ہمارے بچے بھی وہی کھائیں گے جو اہلِ مدینہ کو دستیاب ہو گا۔
جب تک پاکستان میں حکمران اپنے بچوں کی طرح سارے پاکستان کے بچوں کو اپنے بچے نہیں سمجھیں گے،یوں ہی روز پاکستان کے کسی ''تھر‘‘ میں بچے بھوک اور پیاس سے دفن ہوتے رہیں گے۔ افسوس صد افسوس،حکمرانوں کی مرغن غذائوں کی طلب، اپنے موروں کے لیے بے چینی اور میچوں میں مگن ہونا یہ صاف بتاتا ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے مختلف غفلتوں کے باعث روزانہ کی بنیاد پر آنے والی موت کی یہ خبریں رکنے والی نہیں...

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں