بہت باریک ہیں واعظ کی چالیں

قادری انویسٹمنٹ فنڈ کے شیئر ہولڈرز کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ کل وہ کسی اور میوچل فنڈ میں سرمایہ کاری کرلیں گے۔ کپتان صاحب بھی جب وقتی مایوسی سے نکلیں گے تو ان کے لئے کرنے کے کام ہزار۔
لیکن اس نوجوان ، کا کیا کیا جائے ، شیرخوار بچے کو گود میں اٹھائے اٹھائے نعرے لگانے والی اس ماں کو کیسے تسلی دیں ، سر پر بینڈ باندھ کر انقلابی ترانوں پر جھومنے والی اس طالبہ کو کیسے سمجھائیں، ہوائی چپل پہنے ڈنڈا بردار میٹرک پاس لڑکے کا کیا کریں، اپنی اگلی نسلوں کی بہتری کی آس سے لتھڑے بابا جی کو کون دلاسہ دے اور زہر آلود ٹی وی سکرین کے آگے جائے نماز پر بیٹھی تسبیح گھماتی اس بے بے جی کو کون بتائے کہ اس بار بھی تعبیر کی گولی تمہارے خوابوں کی کنپٹی چھوتی ہوئی گزر گئی اور تم بال بال ایک بہتر زندگی کی وعدہ زدہ تعبیر سے بچ نکلے ۔
یہ سب کردار اپنے اپنے خوابوں کا تعاقب کرتے کرتے چودہ اگست انیس سو سینتالیس سے چودہ اگست دو ہزار چودہ میں داخل ہوچکے ہیں۔ان سب کے سروں پر تعبیر کی گاجر ایک ڈنڈے سے باندھ کر منہ کے آگے لٹکا دی گئی ہے اور یہ اس امید پر چلتے چلے جارہے ہیں کہ گاجر اور منہ کا فاصلہ بس اب ختم ہوا کہ جب ختم ہوا... 
ہاں اگر تبدیلی آئی ہے تو بس اتنی کہ ہر چند سو کوس پر اس پُرامید ریوڑ کا گڈریا بدل جاتا ہے ۔شاباش چلتے رہو یہ جو سامنے سرسبز لہلہاتا میدان ہے یہ تمہارا ہے... حوصلہ نہ ہارنا اگلے پڑاؤ پر روٹی کپڑا اور مکان تمہارا منتظر ہے... تھکنا نہیں وہ دیکھو 
اسلامی نظام کا خیمہ جو تمہیں تپتی دھوپ سے بچائے گا اور اس کے نیچے بھر پیٹ کھانا اور مویشیوں کے لئے چارہ بھی... ارے ارے بیٹھو نہیں ، یہ جو سامنے جھیل میں الٹے درخت نظر آرہے ہیں یہ کوئی سراب نہیں ۔خدا کی قسم یہ سراب نہیں بلکہ آبِ حیات ہے... چلتے رہو چلتے رہو کامیابی تمہارے قدم چومنے ہی والی ہے... ہاں جانتا ہوں تم تھک گئے ہو مگر رکنا نہیں ۔جتنی بڑی آزمائش‘ اتنا بڑا انعام۔ یہ میرا وعدہ ہے کہ تم اس بھٹی سے کندن بن کے نکلو گے... چلتے رہو چلتے رہو تمہارا سفر رائگاں نہیں۔ تمہیں پھل ملے نہ ملے اگلی نسلوں کو ضرور تمہاری قربانیوں کا پھل پہنچے گا... بس اب تمہارے اور نئے پاکستان کے درمیان فاصلہ ختم ہونے کو ہے... یہ دیکھو وہ دور... بس وہی ہے نیا پاکستان... شاباش...! 
اس ملک کو اب تک دو ہی لیڈر نصیب ہوسکے ۔محمد علی جناحؒ اور عام آدمی۔جناح صاحب پاکستان بنانے کے سفر میں نہیں تھکے اور عام آدمی نے خودکفیل امیدوں کے پتھروں سے بنے راستے پر چلنا ترک نہیں کیا ۔
شکستگی نے یہ دی گواہی
بجا ہے اپنی یہ کج کلاہی
سنو! کہ اپنا کوئی نہیں ہے 
ہم اپنے سائے میں پل رہے ہیں 
( نوید )
جناح صاحب کو بھی پہاڑ جیسا اعتماد یوں ملا کہ ان کی جیب میں کھوٹے سکے تھے اور عام آدمی نے بھی ایک کے بعد ایک جھوٹی تعبیر سے ڈسے جانے کے بعد خوابوں کی جھونپڑی میں بسیرا کرنا سیکھ لیا۔اس دوران ٹھوکریں کھاتے کھاتے ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ عام آدمی بھلے کامیاب سودے بازی نہ کرپایا ہو مگر اسے یہ ضرور پتہ چل گیا کہ سودے بازی ہوتی کیسے ہے ۔وہ اپنے پُرکھوں کے بے غرض رائگاں آئیڈیل ازم کا مدرسہ چھوڑ کر یہ سوال کرنے کے قابل ضرور ہو چکا ہے کہ میں کیوں تمہارے ساتھ چلوں ، اس سفر میں میرے لئے کیا ہے۔ اسی لئے اب گڈریوں کو مجمع ہنکانے کے لئے پہلے سے زیادہ محنت کرنی پڑ رہی ہے ۔
اب صرف خالی خولی نعروں سے کام نہیں چل رہا ۔ان نعروں کو اعداد و شمار کے تیل سے چپڑنا پڑتا ہے ۔خالص جھوٹ میں پاؤ بھر سچ ملانا پڑتا ہے ۔خشک ریلیوں پر موسیقی کا کیوڑہ چھڑکنا پڑتا ہے۔ یہ عام آدمی ناخواندہ یا نیم خواندہ سہی لیکن ہر قدم آگے بڑھانے سے پہلے اگلے قدم کا جواز طلب کرنے لگا ہے ۔ٹوٹے پھوٹے لفظوں کو جوڑ کر انہیں سوال کی شکل دینے کا ہنر جان گیا ہے ۔بظاہر حدِ ادب میں سائیں، چودھری صاحب، سردار صاحب، میاں صاحب، خانِ اعظم ، پیر جی ، قبلہ ، حضورِ والا کے سامنے کچھ بھی نہ بولے مگر اپنے دماغ کی ہارڈ ڈسک میں ان کے ماضی اور حال کو محفوظ کرنا سیکھ گیا ہے ۔حتی کہ یہ شعر بھی اس پر بالآخر کھل چکا ہے ؎ 
بہت باریک ہیں واعظ کی چالیں
لرز جاتا ہے آوازِ اذاں سے 
( اقبال ) 
لیکن اتنا کافی ہے کیا ؟ شائد نہیں ۔کیونکہ جہاں عام آدمی اپنی قیادت خود کرنا سیکھ رہا ہے‘ وہیں اس کے کھلے دشمن ہوں یا آستین کے سانپ ، مٹھی میں سے پھسلتی ریت روکنے کے لئے نت نئے تجربے کررہے ہیں، طریقے آزما رہے ہیں۔ اب جسم پر نہیں ذہن پر لاٹھی چارج ہوتا ہے ۔گولی سپاہی سے نہیں اینکر سے چلوائی جاتی ہے ۔آنسو گیس شیل کی جگہ فیس بک اور ٹویٹر گن نے لے لی ہے۔ بلوائیوں کو جسمانی طور پر صرف زخمی کیا جاتا ہے ہلاک نہیں۔مار ڈالنے کے لئے کنفیوژن کا گیس چیمبر جو ایجاد ہوچکا ہے ۔اب وردی میں کارروائی آؤٹ آف فیشن اور آؤٹ آف فیور ہے کیونکہ یہ پراکسی وار کا دور ہے ۔اب بھاری بھاری ٹائروں والے ٹرک نہیں آتے‘ کنٹینر آتے ہیں۔ اب بریگیڈ نہیں‘ جتھے پیش قدمی کرتے ہیں۔ جب سے کردار و اعصاب شکن ہتھکڑیاں ایجاد ہوئی ہیں تب سے روایتی انداز کی گرفتاریاں قصہِ پارینہ ہوچکیں۔یہ روپوشی کا نہیں کفن پوشی کا زمانہ ہے ۔اب عدم تشدد ہی تشدد کا نیا چہرہ ہے ۔
ہاں مگر یہ بات اس ماں کو اب تک سمجھ میں نہیں آئی جو آج بھی اس بدلی دنیا کو اپنے ہی جیسا پاکیزہ جان کر خوابوں کی چنری سے گود کے بچے کو ڈھانپے ، جانے کس چھوٹے سے قصبے سے روانہ ہو کر ایک اجنبی شہر کے اجنبی چوک کے اجنبی ہجوم میں دستِ کرم کی تلاش میں راندہِ درگاہ ہے ۔اپنے لئے نہیں اپنے گود کے بچے کے لئے وہ جنت حاصل کرنا چاہتی ہے جس کا تصور اس کی پچھلی نسلوں سے اس تک مع سود مرکب اس کی گود میں ہمک رہا ہے ۔میں دعا گو ہوں کہ تماشا گاہ کے کنارے درخت سے ٹیک لگائے نیم دراز اس بی بی کو ذرا دیر کوئی نہ چھیڑے ؎ 
سڑک پہ سوئے ہوئے آدمی کو سونے دو
وہ خواب میں تو پہنچ جائے گا بسیرے تک 
( شعور ) 
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لئے bbcurdu.comپر کلک کیجئے ) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں