کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے

قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو تم سے پہلے دھرتی پر اکڑ کے چلتے تھے ، وہ وہی دیکھتے تھے جو دیکھنا چاہتے تھے ، وہی سنتے تھے جو سننا چاہتے تھے ، وہی سوچتے تھے جو سوچنا چاہتے تھے ، آنکھیں تھیں پر نابینا تھے ، کان تھے پر بہرے تھے ، دماغ تھا پر سکڑا ہوا۔اور آج وہ انہی کے برابر میں گڑے پڑے ہیں جن کو زمین کے اوپر جوتوں کی گرد سمجھتے تھے ۔
مجھے بالکل خوشی نہیں ہوئی‘ پی کے تین سو ستر کی پرواز سے رکنِ قومی اسمبلی رمیش وینکوانی اور سینیٹر رحمن ملک کو ذلت کے ساتھ آف لوڈ ہوتے دیکھ کر۔ مگر خوشی ہوئی ایک گھنٹے سے جہاز میں بیٹھے ایک غصیلے مسافر کے منہ سے یہ سن کر کہ اب زمین پر اُتر آئیے حضور! 
کاش! اس مسافر کو کوئی بتادے کہ اشیا میں کیسا خوفناک جادو ہوتا ہے کہ رسولؐ اللہ تک نے اس جادو سے اپنے لئے پناہ مانگی۔ مجھے یاد ہے جب زندگی میں پہلی مرتبہ ایک رئیس کی ٹھنڈی پراڈو میں صرف بیس منٹ کے لئے بیٹھا تو میری دنیا ہی بدل گئی ۔تیز دھوپ کی چبھن، ٹنٹڈ گلاس پی گئے اور باہر کی ہر شے سہانی سہانی دکھنے لگی۔چھٹے منٹ میں ہی میں اس پراڈوانہ ماحول کا یوں عادی ہوگیا گویا ہمیشہ سے اسی میں سفر کرتا ہوں۔فٹ پاتھ پر گزرتے لوگ ہیولوں جیسے محسوس ہونے لگے ۔ایک شخص اچانک سڑک پار کرنے لگا تو میرے دل سے گالی نکلی۔ جاہل سالا ، سڑک پار کرنا تک نہیں آتا ان جانوروں کو۔ مجھے یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ پیدل چل رہی اس عورت کے ساتھ کا بچہ بار بار اپنی آستین سے پسینہ کیوں پونچھ رہا ہے حالانکہ موسم تو ٹھنڈا یخ ہے ۔ایک سگنل پر لال بتی کے باوجود جب کانسٹیبل نے سبز بتی پر آگے بڑھنے والی ٹریفک روک کر ہماری پراڈو کو راستہ دیا تو جانے کیوں میں نے اپنے پیر ذرا سے اور آگے کی طرف پھیلا لئے ۔پھر میرا دفتر آ گیا۔رئیس نے گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور میں زمین پر اتر آیا۔ سورج کی تیز کرنیں سیدھی آنکھوں میں پڑ رہی تھیں۔بہت گرمی تھی ۔میں نے اپنی آستین سے پسینہ پہنچا اور دفتر میں داخل ہوگیا۔
سوچئے کہ مجھ ٹُچے کی صرف بیس منٹ میں کایا کلپ ہوگئی تو ان کا کیا حال ہوتا ہوگا جو دن رات رہتے ہی اسی ماحول میں ہیں۔تو اے میرے غصیلے کنگلو ! کبھی تمہاری گاڑی کے آگے ہوٹر بجا ہے ؟ کبھی ایسی گاڑی میں بیٹھے ہو جس کا روٹ لگتا ہے ۔کبھی تمہارے پھٹیچر بونٹ پر جھنڈا پھڑ پھڑایا ہے ؟ کبھی وی آئی پی لاؤنج سے گزر کر آئیے سر آئیے سر سنتے سنتے سیدھے طیارے کی سیڑھیوں کے ساتھ جڑی گاڑی سے نیچے اتر کے اوپر گئے ہو؟ کبھی سوچا کہ بریف کیس پکڑ کے پیچھے پیچھے چلنے والے کو دیکھ کے پیدا ہونے والی سرشاری کیا ہوتی ہے ؟ کبھی ان کے بارے میں بھی سوچا ہے جو برسہا برس سے اوکے سر ، بالکل سر ، بالکل ٹھیک ، واہ واہ سر ، کمال کردیا میڈم ، کیا بات ہے میڈم ، حاضر ہوں میڈم کے سوا کوئی اور فقرہ سننا جانتے ہی نہیں۔اگر تم ان معمولی معمولی وی آئی پی نعمتوں کا بھی ادراک نہیں رکھتے تو پھر تو تمہیں یہ بات بھی ہرگز پلے نہیں پڑ سکتی کہ وی وی وی آئی پیز کسے کہتے ہیں۔چلو میں ذرا آسان کرکے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ تمہیں ذہن نشین ہو جائے ۔
وی وی وی آئی پی وہ ہوتا ہے جو الفاظ تب ہی استعمال کرتا ہے جب انگلی کے اشارے ، جنبشِ ابرو یا آنکھ کی پتلی کی حرکت سے بھی خواہش یا پیغام سامنے والے تک نہ پہنچے ۔وہ پل بھر میں وزیر کو فقیر اور فقیرکو وزیر کردینے پر قادر ہوتا ہے ۔اگر اس نے ڈنر میں بھنڈی کی فرمائش کی اور بھنڈی کا سیزن نہیں تب بھی بھنڈی آنی چاہئے بھلے جنوبی افریقہ سے چارٹرڈ طیارہ کروا کے ہی کیوں نہ منگوانی پڑے ۔ اسے یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑے کہ کون سا بوئنگ ، کس کریو کے ساتھ اسے لائے لے جائے گا اور کب تک خالی کھڑا کھڑا انجن سٹارٹ کرکے اونگھتا رہے گا۔اسے بلٹ پروف فلیٹ کی گنتی نہ کرنی پڑے ۔ اگر اس کے پھوپھی زاد بھائی کے چچا کے سسر کے بیٹے کے داماد کو کسی شادی میں بروقت پہنچنے کے لئے ہیلی کاپٹر کی ضرورت پڑ جائے تو پہلے بندوبست کیا جائے بعد میں کاغذی کارروائی کا پیٹ بھی بھر لیا جائے ۔
لوگ اس کے چہرے کے اتار چڑھائو دیکھ کے بات کریں مگر لجلجاتی مسکراہٹ چہرے پر سجا کے ، بھلے تین دن کے فاقے سے ہی کیوں نہ ہوں۔وی وی وی آئی پی جو چشمہ پہنے اس میں کم ازکم یہ خوبی ہونی چاہئے کہ جو بھی نظر آئے ہرا ہرا نظر آئے۔ اس کے کانوں میں وہ فلٹر نصب ہوتا ہے جو ‘نہیں، مگر، یہ ایسا نہیں، میری تجویز ہے، ذرا غور کیجے ، سب ٹھیک نہیں ، بحث ، یہ کام مشکل ہے، شائد ایسا نہیں جیسے الفاظ اور جملے دماغ تک پہنچنے سے پہلے ہی سنسر کردیتا ہے ۔
اے بھولے لوگو! تم اسی بات پر خوش ہوتے رہنا کہ تم نے رحمن ملک وغیرہ کو آف لوڈ کردیا۔تم نے وی آئی پی روٹ لگنے پر سڑکیں بند ہونے کے سبب ایک رکشے میں بچے کی پیدائش پر شور مچا دیا۔ایمبولینس میں پڑے مریض کی موت پر ہائے واویلا کردیا، ایرانی صدر احمدی نژاد کی فرش پر بیٹھ کے کھانا کھانے ، بولیویا کے صدر کے پھٹے جوتے سلوانے اور برطانوی وزیرِ اعظم کیمرون کے پھٹے موزے کی تصویریں فیس بک اور ٹوئٹر پر چلا دیں۔ 
مگر نہیں ! چینی کہاوت ہے کہ ہزار میل کا سفر پہلے قدم سے ہی شروع ہوتا ہے۔ لہٰذا فلائٹ پی کے تین سو ستر پر جو کچھ ہوا وہ اہم ہے ۔یہ نہ ہوتا تو یہ جملہ بھی ایک عام مسافر کے منہ سے نہ نکلتا کہ ہم اڑسٹھ سال سے یہ برداشت کررہے ہیں کیا اگلے اڑسٹھ سال بھی برداشت کریں... 
یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ گدائی 
زمانے کی پھٹ کار سرمایہ ان کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
نہ آرام شب کو نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو اک دوسرے سے لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مرجانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساسِ ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے 
(فیض) 
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجئے) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں