کئی مثالیں اور کئی کہانیاں

گزشتہ کالم (تیئس ستمبر) میں آپ نے خونی اور مخملیں آزادی حاصل کرنے والے چار ممالک کی مثالیں ملاحظہ کیں۔ایک قاری نے تبصرہ کیا کہ مجھے بوسنیا ، مشرقی تیمور اور فلسطین کیوں یاد نہیں رہا۔عرض یہ ہے کہ بوسنیا میں آباد سرب ، کروش اور مسلمان نسلی گروہوں میں جو خانہ جنگی ہوئی وہ یوگوسلاویہ کا وفاق ٹوٹنے کے بعد کا شاخسانہ ہے اور اس خانہ جنگی کے بعد تینوں نسلی گروہوں نے ایک ساتھ رہنا سیکھ لیا۔مشرقی تیمور کو پرتگال سے آزادی ملتے ہی انڈونیشیا نے اچک لیا حالانکہ ثقافتی و مذہبی اعتبار سے تیمور ایک علیحدہ خطہ تھا ۔ چنانچہ اسے ایک نہ ایک دن آزاد ہونا ہی تھا ۔یہ الگ بات کہ انڈونیشیا نے پہلے نسل کشی کے ذریعے مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کی اور اس میں ناکامی کے بعد اسے اقوامِ متحدہ کے تحت ریفرنڈم قبول کرنا پڑا جیسا کہ بعد میں جنوبی سوڈان میں ہوا ۔فلسطین کا معاملہ البتہ مختلف ہے ۔یہ اسرائیل سے فلسطین کی آزادی کا جھگڑا نہیں بلکہ زمینی ملکیت کا جھگڑا ہے ۔یہ جھگڑا تب ہی ختم ہوسکتا ہے کہ یا تو تسلیم شدہ بین الاقوامی قوانین کے تحت ان میں سے ایک مالک کا تعین ہو یا پھر دونوں اس زمین کو باہمی تسلی بخش طریقے سے بانٹ سکیں۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ بین الاقوامی مفادات کا شطرنجی مہرہ بن گیا ہے‘ ورنہ ایک آزاد فلسطینی مملکت کے قیام کی‘ سوائے اسرائیل موجودہ دنیا میں کوئی بھی اصولی مخالفت نہیں کرتا۔لیکن محض اصولی حمایت سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا جب تک عملی حمایت میسر نہ ہو۔
جو سماج جمہوریت یا وفاقی نظامِ ریاست پر یقین نہیں رکھتے ان کی جانب سے مختلف نسلوں اور طبقات کو ایک مخصوص جغرافیائی دائرے میں مارپیٹ کر کے جبری طور پر یکجا رکھنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن جن ممالک نے ایک طویل خونی یا سیاسی جدوجہد کے بعد سامراج سے آزادی حاصل کی وہ جب اپنے ہی آزاد ملک میں کسی قومیت ، نسل یا سیاسی گروہ کے ساتھ وہی نوآبادیانہ سلوک کرتے ہیں جسے ماضی میں بذاتِ خود بھگت چکے ہوں تو یہ دو عملی اور تضاد نظریاتی کھوکھلے پن کو ظاہر کرتا ہے ۔
وفاقی نظام اور شادی کم و بیش ایک ہی طرح کا عمل ہے۔ دونوں خوش اسلوبی سے چل سکتے ہیں یا نہیں چل سکتے۔ میاں بیوی اور وفاقی یونٹ کو مار پیٹ سے ، یا ڈرا دھمکا کر ، یا خوشامد درآمد ، یا طفل تسلیوں سے طلاق حاصل کرنے سے روکا تو جاسکتا ہے لیکن کیا ایسی شادی کو ہم خوشگوار شادی اور ایسے وفاق کو مثالی وفاق کہہ سکتے ہیں ؟ 
سری لنکا کی سنہالی اکثریتی حکومت نے تامل اقلیت کو مار پیٹ کر بظاہر سیدھا تو کرلیا لیکن کیا ہم اسے امن کہیں یا اگلے بحران سے پہلے کا سکوت ؟ کشمیر میں ریفرنڈم کا اصول بھارت اور پاکستان اقوامِ متحدہ کے فورم پر سڑسٹھ برس پہلے مان چکے ۔لیکن پاکستان اور بھارت میں کیا اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ وہ جموں ، لداخ ، وادی ، آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان پر مشتمل سابق ڈوگرہ ریاست کے مستقل باشندوں کو دو سوالات پر مبنی ریفرنڈم بیلٹ پکڑا سکیں کہ تم ایک آزاد ریاست بننا چاہتے ہو یا بھارت اور پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ رہنا چاہتے ہو ؟ 
ایسا نہیں کہ مغرب میں یہ مسئلہ نہیں۔اسپین میں باسک علیحدگی پسند تحریک بہت پرانی ہے ۔قبرص میں ترک اور یونانی ایک ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ بلجیم میں فلیمش اور فرنچ کمیونٹیز اپنا اپنا بلجیم الگ کرنا چاہتی ہیں۔لیکن جن ممالک میں وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے نظام کے اعتبار سے ایک انصاف پسند اداراتی اعتماد پیدا ہوگیا ہے وہ بلا خوف و خطر علیحدگی پسند جذبات کو اپنے اظہار کا موقع دے رہے ہیں۔
وہی امریکہ جو انیسویں صدی میں وفاق پرست اور علیحدگی پسند ریاستوں کے مابین ایک چار سالہ خون آشام خانہ جنگی سے گزرا۔ اسی امریکہ میں آج اگر کوئی ریاست وفاق سے اکتا کر الگ ہونا چاہے تو طے شدہ آئینی طریقِ کار کے مطابق الگ ہوسکتی ہے ۔مگر امریکی معیشت اور کثیر النسلی سماج پچھلے ڈیڑھ سو برس میں کم ازکم اتنا ضرور گتھ چکا ہے کہ کسی کو علیحدگی کا سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔بلکہ خانہ جنگی کے بعد تو مزید کئی نئی ریاستیں اس وفاق کا حصہ بنیں۔
وہی برطانیہ جو بیسویں صدی کے شروع تک آئر لینڈ کے علیحدگی پسندوں کو سلطنت کے باغی گردان کر سرکوبی اور مار پیٹ پر یقین رکھتا تھا اور جس نے 1922ء میں آئرلینڈ کی آزادی کو زہر کا پیالہ سمجھ کر قبول کیا ۔اسی برطانیہ میں تین سو برس سے ساتھ رہنے والے سکاٹ لینڈ کے پیٹ میں آج آزادی کا مروڑ اٹھتا ہے تو شاہی حکومت سکاٹش حکومت کو ریفرنڈم منعقد کروانے کی بخوشی اجازت دیتی ہے۔ سکاٹش آزادی کے حق میں اور خلاف جلسوں میں دھواں دار دلائل پیش کئے جاتے ہیں۔ مرکزی حکومت میں شامل تمام جماعتیں بشمول حزبِ اختلاف سکاٹش محرومیوں کو برملا تسلیم کرکے مزید خودمختاری کا مشترکہ وعدہ کرتی ہیں مگر آخری فیصلہ بیلٹ بکس پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ووٹر بیلٹ پیپر پر کراس لگانے سے پہلے ایک لمحے کو آزادی یا ساتھ رہنے کے فوائد تولتا ہے اور پھر بیلٹ پیپر موڑ کر بکس میں ڈال دیتا ہے۔نتائج آتے ہیں۔پچپن فیصد سکاٹ برطانیہ میں رہنا چاہتے ہیں پینتالیس فیصد نہیں رہنا چاہتے ۔ برطانیہ نواز جشن مناتے ہیں اور آزادی پسند اگلی بار پھر سہی کا عزم کرتے ہیں۔ اللہ اللہ خیرسلّا... 
کینیڈا کے نو میں سے آٹھ صوبے انگریزی بولنے والے ہیں اور ایک یعنی کوبک فرانسیسی نژاد ہے ۔جب بھی کوبک والے شور مچاتے ہیں کہ ہمیں آزادی چاہیے باقی کینیڈا کہتا ہے بسم اللہ‘ ریفرنڈم کروائیں اور آزاد ہوجائیں۔ پہلا ریفرنڈم 1980ء میں ہوا مگر ساٹھ فیصد فرانسیسی نژاد کیوبکان نے متحدہ کینیڈا میں ہی رہنے کو ترجیح دی۔دوسرا ریفرنڈم 1995ء میں ہوا تو اس میں بھی علیحدگی پسند ہار گئے ۔
تو کیا برطانیہ والوں کو برطانیہ ٹوٹنے کا صدمہ نہ ہوتا ؟ کیا کوبک اگر کینیڈا سے علیحدہ ہوجائے تو کینیڈا کو بحیثیت ریاست دھچکا نہیں لگے گا ؟ مگر دونوں ممالک کے فیصلہ ساز شاید یہ راز پا گئے ہیں کہ ؎
جو کہیں پابند نہ ہو، ایسی آزادی کہاں
خود میری خواہش سے نکلا سلسلہ زنجیر کا 
(علیم) 
کیا ترکی ، عراق اور ایران میں کردوں کو وفاق میں رہنے یا نہ رہنے کا آپشن مستقبلِ قریب میں مل سکتا ہے ؟ کیا پاکستانی ریاست مشرقی پاکستان کے تجربے سے کچھ سیکھی ؟ کیا وہ بلوچستان میں ریفرنڈم کروا کے علیحدگی پسندوں کے دعوے کی قلعی کھولنے اور وفاق پرستی ثابت کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے ؟ کیا بھارت اپنی شمال مشرقی ریاستوں (میزورام، منی پور، ناگالینڈ وغیرہ) اور کشمیر میں بلٹ کو ریفرنڈمی بیلٹ میں تبدیل کرکے خود کو واقعی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ثابت کرنے کا بوتا رکھتا ہے ؟ 
آپ کی طرح مجھے بھی ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کی کوئی جلدی نہیں!! 
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجئے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں