کی پرواہ ملنگاں نوں!

( فارسی کے کلیدی شاعر انوری کے ایک شعر کا مفہوم ہے: آسمان سے جو بلا اترتی ہے یہی پوچھتی ہے کہ خانۂ انوری کہاں ہے؟) 
انیس سو اکسٹھ میں پاکستان میں یو ایس ایڈ کی مدد سے ملیریا اریڈیکیشن پروگرام شروع ہوا تو اس منصوبے میں سینکڑوں ڈاکٹر اور پیرا میڈکس اور فیلڈ سٹاف بھرتی ہوا۔اسپرے کے آلات سے مسلح بیسیوں گاڑیاں قصبوں اور دیہات کے جوہڑوں اور گھروں میں ڈی ڈی ٹی کا مفت چھڑکاؤ کرنے لگیں۔ہدف یہ تھا کہ اگلے بیس برس یعنی انیس سو اکاسی تک پاکستان سے ملیریا کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ملیریا کا تو خیر کیا خاتمہ ہوتا سن ستر کے عشرے میں یو ایس ایڈ کی جانب سے ہاتھ کھینچے جانے کے بعد بھٹو حکومت نے ملیریا پروگرام ہی محکمہ صحت کے بلیک ہول میں ضم کردیا۔ آج آپ کسی سے پوچھ لیں کہ ملیریا ایریڈیکیشن پروگرام کا کبھی نام سنا ؟ جو بھی جواب ملے مجھے ضرور بتائیے گا۔
انیس سو اکسٹھ سے دو ہزار چودہ آگیا۔ آج پاکستان میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق سالانہ تین سے ساڑھے تین لاکھ لوگ ملیریا سے متاثر ہوتے ہیں۔مگر یہ تعداد بہت کم لگتی ہے کیونکہ ملیریا کے اسی فیصد مریض سرکاری شفا خانوں کے بجائے نجی ڈاکٹروں اور اسپتالوں میں جاتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر سال شاید ایک ملین تک پاکستانی ملیریا کا نشانہ بنتے ہیں۔
انیس سو چورانوے میں ایڈز کے وائرس اور انتظامات پر بی بی سی اردو سروس کے لئے ہیلتھ سیریز بنانے جب میں پاکستان آیا تو اسی سال نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام بھی قائم ہوچکا تھا اور اس کا تخمینہ تھا کہ پاکستان میں کم ازکم چالیس ہزار لوگ ایچ آئی وی پازیٹو ہیں۔ میں نے دو ہزار تیرہ میں اسی نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے ایک اہلکار سے پوچھا کہ آج کتنے پاکستانی ایڈز کے وائرس سے متاثر ہوں گے ؟ اس نے کہا لگ بھگ چالیس ہزار ؟ قوی امید ہے کہ دو ہزار اٹھارہ میں بھی اس سوال کا یہی جواب ملے گا۔وہ محکمہ ہی کیا جو زبان سے ایک بار نکلے اعداد و شمار سے ہر سال پھر جائے ۔
پولیو میں بہت پیسہ ہے ۔کیونکہ پوری دنیا چاہتی ہے کہ کسی طرح پاکستان ، افغانستان اور نائجیریا بھی پولیو فری فہرست میں شامل ہوجائیں اور یہ وائرس اس کرہِ ارض سے دفان ہوجائے۔ سن اٹھاسی سے اب تک کیا عالمی ادارہِ صحت ، کیا یورپی یونین اور کیا امریکہ، سب ہی طرف سے پولیو کے خاتمے کے نام پر پاکستان میں کروڑوں ڈالر آئے اور ویکسین کی سپلائی میں بھی وقفہ نہیں آیا۔انیس سو اٹھاسی میں پاکستان میں پولیو کے دو ہزار سے زائد کیسز سامنے آئے مگر دو ہزار پانچ میں جب یہ تعداد صرف اٹھائیس تک رہ گئی تو یوں لگا گویا پاکستان بھارت سے بھی پہلے پولیو فری کلب میں شامل ہوجائے گا۔لیکن پھر پولیو ہاتھ سے پھسلنے لگا۔
سن دو ہزار چودہ کے خاتمے میں ابھی دو ماہ باقی ہیں لیکن پاکستان میں اب تک کے دس ماہ کے دوران پولیو کے دو سو چودہ نئے کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ افغانستان میں اسی مدت کے دوران بارہ اور نائجیریا میں چھ نئے کیسز دریافت ہوئے۔ گو پاکستانی شہری پولیو ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ کے بنا عالمی سفر نہیں کرسکتے لیکن اس پابندی کے باوجود حکومت اب تک کوئی ایسی حکمتِ عملی وضع نہیں کرپائی جس کے نتیجے میں پولیو ورکرز تحفظ کی فضا میں کام کرسکیں۔جان کے خوف کے علاوہ ایک مسئلہ قلیل معاوضے اور اس کی بروقت ادائیگی کا بھی ہے۔ بلاشبہ جو پولیو ورکرز تین ساڑھے تین سو روپے کی دہاڑی کے لئے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کے بھی بچوں تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں وہ قومی ہیرو ہیں۔
سرکار کا دعوی ہے کہ پاکستان کے نوے فیصد بچوں تک پولیو ویکسین کی رسائی ہو چکی ہے لیکن غیر سرکاری حلقے کہتے ہیں کہ آج بھی پولیو ویکسی نیشن کی موثر کوریج صرف ساٹھ فیصد آبادی تک ہے ۔ایک اور مشکل ویکسی نیشن کے فالو اپ اور خود ویکسین کے موثر ہونے کی بھی ہے کیونکہ دیہی علاقوں تک رسائی کے دوران بالخصوص کولڈ چین بار بار ٹوٹنے کے سبب پلائے جانے والے قطرے موثر نہیں رہتے ۔
سوال یہ ہے کہ آخر افغانستان میں پاکستان سے کم پولیو کیسز کیوں ہیں جبکہ وہاں بھی امن و امان اور دربدری کے حالات پاکستان جیسے ہی ہیں۔ نائجیریا کیسے پولیو کے کیسز دو ہزار تیرہ کے تریپن سے گھٹا کے اس سال چھ تک لے آیا جبکہ وہاں بھی بوکو حرام نے جینا حرام کررکھا ہے ۔
غفلت کیوں ہے اور کس کی ہے ؟ اس بارے میں تاقیامت بحث ہوسکتی ہے ۔ پر مشکل یہ ہے کہ پولیو وائرس دلیل اور ردِ دلیل نہیں جانتا ۔اب تو بین الاقوامی مانیٹرنگ پروگرام نے بھی تصدیق کردی ہے کہ پاکستان میں انسدادِ پولیو کا منصوبہ بے ترتیبی اور نیم دلی کا شکار ہے؛ لہٰذا اس مقصد کے لئے دی جانے والی امداد کی پہلے سے کڑی پڑتال ہونی چاہئے ۔
کیا آپ کو اندازہ ہے کہ افریقہ سمیت بدیس کے وائرس پاکستان کیسے پہنچتے ہیں اور پھر یہاں مستقل قیام پذیر کیوں ہوجاتے ہیں ؟ اس معاملے کی جڑیں ایئرپورٹوں، بندرگاہوں اور زمینی سرحدی چوکیوں تک پھیلی ہیں۔وہاں امیگریشن کا عملہ تو دستاویزات کی جانچ کے لئے مستعد ہے مگر مسافر کا اندرونی حال جاننے کے ذمہ دار محکمہ صحت والے عین کونے میں ایک چھوٹا سا کاؤنٹر بنا کر کسی بھی اونگھتے پارٹ ٹائمر کو بٹھا دیتے ہیں۔ جو مسافر اس ہیلتھ کاؤنٹر تک خود آجائے اس کا بھی بھلا، نہ آئے اس کا بھی بھلا۔
بیرونِ ملک سے آنے والے ہر طیارے میں لینڈنگ سے کچھ دیر پہلے مسافروں میں ہیلتھ کارڈ بانٹے جاتے ہیں۔ ان پر نام، پاسپورٹ نمبر، فلائٹ نمبر، کہاں سے آ رہے ہو کہاں جا رہے ہو، کوئی مرض؟ افریقہ اور جنوبی امریکہ کا آخری سفر کب کیا؟ (اللہ جانے یہ سوال کسی افریقی یا جنوبی امریکی کو کیسا لگتا ہوگا) اور پھر یہ ہیلتھ کارڈ مسافر امیگریشن افسر کے حوالے کردیتا ہے اور وہ افسر کسی اور کے حوالے کردیتا ہے اور وہ کہیں کسی ڈبے میں ڈال آتا ہے ۔تو یہ ہے آپ کا ہیلتھ کنٹرول ۔
جس زمانے میں برڈ فلو عالمی وبا کے طور پر پھیلا تو قاہرہ ایئرپورٹ پر بھی اس وبا سے متاثر ممالک کے مسافروں کو علیحدہ امیگریشن کاؤنٹرز پر بلایا جاتا تھا۔ ایک ماسک پہنا ڈاکٹر مسافروں سے ان کی صحت کے بارے میں بنیادی سوالات کرتا اور رینڈم بلڈ سیمپل بھی لیا جاتا۔ مجھ سفید خون کا بھی بلڈ سیمپل لیا گیا ، جانے کیوں؟ 
آج کل جو مسافر بھی ایبولا وائرس سے متاثر مغربی افریقی ممالک سے یورپ ، امریکہ ، مشرقِ وسطیٰ وغیرہ کا سفر کررہے ہیں انہیں امیگریشن کنٹرول پر ماہرین صحت کے اضافی سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔اس قدر احتیاط کے باوجود امریکہ میں دو اور جرمنی اور برطانیہ میں ایبولا کا ایک ایک کیس سامنے آچکا ہے۔ پاکستان نے حسبِ عادت اعلان کردیا ہے کہ ایئرپورٹس اور سرحدی چوکیوں پر ایبولا الرٹ جاری کردیا گیا ہے فکر کی کوئی بات نہیں ( یہ الگ سوال ہے کہ ایبولا کی تشخیص کا سازو سامان اور تربیت یافتہ عملہ اگر ہے تو کن کن اسپتالوں میں ہے ) ۔
بالکل ایسا ہی اعلانِ بے نیازی ماضیِ قریب میں ایچ آئی وی، ڈینگی، نگلیریا، کانگو وائرس وغیرہ کے بارے میں بھی سننے میں آتا رہا اور پھر ان وائرسوں کو بھی یہاں کی اعزازی شہریت مل گئی ۔اب ایبولا سے نمٹنے کے لئے بھی اللہ خیر کرے فول ساز ہیلتھ بیورو کریسی فول پروف انتظامات پر کمر بستہ ہے ۔ایسی فول پروفی پر پنجابی میں کہتے ہیں، کی پرواہ ملنگاں نوں، بھاویں کتے پے جان جنگاں نوں۔ 
( ضروری تصحیح: بائیس اکتوبر کے کالم میں جو شعر عزیز حامد مدنی سے منسوب کیا گیا وہ دراصل ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر کا ہے۔ جبکہ اٹھائیس اکتوبر کے کالم میں یومِ کشمیر پانچ جنوری لکھا گیا۔ اسے پانچ فروری پڑھا جائے۔ توجہ دلانے والے مشفقوں کا نہائت شکرگزار ہوں)۔ 
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجئے) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں