یہ تینوں آخر تین کیوں ہیں ؟

جماعت اسلامی کے تین روزہ مینارِ پاکستان عوامی کنونشن بعنوان '' اسلامی پاکستان خوشحال پاکستان ‘‘ میں امیرِ جماعتِ اسلامی سراج الحق نے عوامی منشور جاری کیا ہے ۔کچھ عرصہ پہلے اسی مینارِ پاکستان کے سائے تلے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری بعنوان '' کون بدلے گا نظام طاہر القادری اور عوام ‘‘ دس نکاتی انقلابی منشور جاری کرچکے ہیں ،اور ان سے بھی کہیں پہلے سے تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان '' بعنوانِ تبدیلی ‘‘ اپنا منشور شہر شہر پھیلا رہے ہیں ۔ تینوں منشوروں میں عبارتی و اصطلاحی فرق کے باوجود بنیادی روح ایک ہے ۔جماعتِ اسلامی اسلامی پاکستان ، طاہرِ القادری انقلابی پاکستان اور عمران خان نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں اورتینوں بظاہر الگ الگ مصروفِ جدوجہد ہونے کے باوجود ایک لاشعوری ربط میں بندھے ہوئے ہیں۔جیسے تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی خیبر پختون خوا میں حکومتی اتحادی ہیں مگر دھرنے میں نہیں ،جبکہ تحریکِ انصاف اور طاہر القادری اسلام آباد دھرنے میں ستر دن کی مشترکہ اننگز کھیلنے کے ساتھ ساتھ حسبِ ضرورت ڈی چوک کی پچ پر ایک دوسرے کے رنر بھی بنتے رہے ہیں۔
تینوں موجودہ نظام کی جگہ نیا ڈھانچہ بنانا چاہتے ہیں مگر بذریعہ بیلٹ بکس ۔تینوں نوجوانوں کو تبدیلی کی چابی سمجھتے ہیں۔تینوں پٹواری ، پولیس ، انتخابی نظام اور نظامِ احتساب میں بنیادی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں۔تینوں صحت مند بلدیاتی نظام کے حامی ہیں۔تینوں کرپشن ، عدم مساوات ، اقربا پروری ، بیرونِ ملک جمع دولت اور حکمران طبقوں کے عوام دشمن گٹھ جوڑ اور نورا کشتی کی سیاست کے سخت خلاف ہیں اور اس منحوس چکر کو توڑ کر معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کو صحت ، تعلیم ، روزگار اور انصاف سمیت بنیادی حقوق اور خودمختاری دینا چاہتے ہیں ۔
تینوں پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ان میں سے دو جماعتوں کے پیش ِ نظر ریاستِ مدینہ کا فلاحی ماڈل ہے اور تیسرا سکینڈے نیویا کے فلاحی ماڈل سے زیادہ متاثر ہے ۔تینوں کا عوامی منشور بائیں بازو کا رنگ لئے ہوئے ہے مگر نظریاتی جھکاؤ دائیں بازو کی جانب ہے مگر تینوں، ملحد چین کو پاکستان کا اہم شراکت دار سمجھتے ہیں۔تینوں میں سے دو کھلم کھلا اینٹی امریکن ہیں جبکہ تیسرا اس معاملے پر غیر واضح ہے مگر تینوں متفق ہیں کہ پاکستان کا خمیر سیکولر یا لبرل نظریے سے نہیں، اسلامی نظریے سے اٹھا ہے ۔تینوں یہی کہتے ہیں کہ ملک کی خارجہ پالیسی کسی کے تابع نہیں بلکہ آزاد ہونی چاہئے ۔تینوں کا خیال ہے کہ پاکستان اپنی مخصوص جغرافیائی پوزیشن کو ذہانت سے استعمال کرے تو جنوبی ، وسطی ، مشرقی اور مغربی ایشیا کے درمیان ایک اقتصادی پل اور منافع بخش راہداری بن سکتاہے ۔اگر ایسا ہوجائے تو پاکستان کے اقتصادی اور اسٹریٹیجک دلدر دور ہو سکتے ہیں۔تینوں کا خیال ہے کہ ملکی دفاع ناقابل ِ تسخیر ہونا چاہیے اور وہ اپنے انقلابی یا اصلاحاتی اہداف دفاعی بجٹ کو چھیڑے بغیر حاصل کرسکتے ہیں ۔
اگر جماعتِ اسلامی ، تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی ترجیحات اور نعرے بغور دیکھے جائیں تو جہاں وہ موجودہ فرسودہ نظام تبدیل کرکے ایک صحت مند انقلابی نظام لانے کی مشترکہ خواہش رکھتے ہیں ،وہیں بعض اہم معاملات پر ان کے مبہم موقف بھی مشترک ہیں۔جیسے تبدیلی و ترقی کے ایرانی ، سعودی اور ترک نظریاتی ماڈل میں سے کون سا ماڈل ان کے پروگرام کے قریب تر ہے ؟ القاعدہ ، طالبان اور داعش کے تجربات کو وہ کس زاویے سے دیکھتے ہیں ؟ اگر اس بابت جواب مانگنے کی بااصرار کوشش کی جائے تو تینوں ماحول کی نزاکت کے مطابق ایڈہاک نوعیت کے جوابات دیتے ہیں۔اندرونِ ملک جو تنظیمیں ریاست اور فرقوں کے خلاف مسلح جہاد کے نظریے پر کاربند ہیں اس جہادی نظریے کے بارے میں تینوں جماعتیں ٹھوس موقف اپنانے سے گریز کرتی ہیں۔
بلوچستان کے حالات کی ابتری کا کون ذمہ دار ہے ۔ اس کا حل کیا ہے اور حل کی چابی کس کس کے پاس ہے ؟ اس بارے میں بھی تینوں جماعتیں زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتیں۔اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بظاہر تینوں جماعتیں حامی ہیں لیکن اس تحفظ کو عملی شکل دینے کے لئے آیا مزید قانون سازی کی ضرورت ہے یا موجودہ قوانین میں ترمیم و تبدیلی کی ضرورت ہے یا کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ؟ اس بارے میں بھی تینوں جماعتوں کا موقف گول مول ہے ۔فوج کا ریاستی ڈھانچے میں کتنا روزمرہ اثر و نفوذ ہونا چاہئے ؟ کیا فوجی قیادت کو تمام داخلی و خارجی پالیسیوں میں شریک رکھنا ضروری ہے یااسے صرف پیشہ ورانہ و غیر جانبدار کردار ہی نبھانا چاہئے ؟ اس بارے میں بھی تینوں جماعتوں کا موقف تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کے اصول پر ہے ۔
تینوں جماعتیں کہتی ہیں کہ انہیں عوام اگر دو تہائی اکثریت دلوا دیں تو وہ تھوڑے ہی عرصے میں اپنے انقلابی پروگرام پر عمل درآمد کرکے ملک کو پاؤں پر کھڑا کردیں گی اور پاکستان عالمی برادری میں اقتصادی و سیاسی لحاظ سے ایسا باوقار اور خود کفیل ملک بن جائے گا کہ نہ صرف اس کے پاسپورٹ کی باقی دنیا عزت کرے گی بلکہ ایک خوشحال ایٹمی پاکستان اتنا طاقتوربنا دیا جائے گا کہ دیگر مسلمان ممالک بھی اس کی قیادت بخوشی قبول کرلیں۔
مگر تینوں جماعتوں کے یہ خواب حقیقت کیسے بنیں گے ؟ ایک ایسا عالمی سودی نظامِ معیشت کہ جس میں مسلمان ممالک تک ایک دوسرے کو بلاسود قرضے نہیں دیتے ،ایک ایسی دنیا جس میں سب ادارے اور ممالک شطرنجی چالوں کے اسیر ہیں ،ایک ایسی دنیا جس میں پاکستان اور اس کے ہمسائے باہمی تشکیک کا شکار ہیں ۔ایسا پاکستان خود کو ملکی ، علاقائی اور بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز کے مفاداتی پنجوں سے چھڑوا کر صرف اور صرف اپنے بنیادی مسائل حل کرکے نظام سیدھا کرنے پر کیسے مکمل توجہ دے پائے گا ؟ اس بارے میں تینوں جماعتوں کے پاس '' یہ کردیں گے تو وہ ہو جائے گا ‘‘ کی مبہم گردان سے ہٹ کے کوئی قابلِ عمل بلیو پرنٹ جزئیات سمیت تیار ہے یا نہیں ؟ اگر فی الوقت نہیں بھی تیار تو کیا تینوں جماعتوں کے تھنک ٹینک ( اگر کوئی ہیں ) اور ماہرین کوئی قابلِ عمل بنیادی خاکہ مصور کرنے میں مصروف ہیں یا پھر ان تینوں کے عظیم الشان انقلابی عزائم اس بنیاد پر کھڑے ہیں کہ جب پل آئے گا تب اسے پار کرنے کے بارے میں بھی سوچ لیں گے ؟
اگر تینوں ہی جماعتیں پاکستان میں انقلابی تبدیلی لانے کی سنجیدہ جدوجہد پر کاربند ہیں اور تینوں کے انقلابی نعرے اور نکات اپنے جوہر میں ایک ہی ہیں تو پھر تینوںانقلابی نتائج تیزی سے حاصل کرنے کی خاطر کوئی کم ازکم مشترکہ ایجنڈا ترتیب دے کر اپنی توانائی یکجا کرنے کے بجائے علیحدہ علیحدہ انقلابی جدو جہد میں کیوں تھک رہے ہیں ؟ 
وجہ شاید یہ ہو کہ تینوں جماعتوں میں سے صرف جماعتِ اسلامی بحیثیت تنظیم طویل عرصے سے بنیادی انقلابی تبدیلی کی لائن لئے ہوئے ہے اور اس کی اندرونی جمہوری روایات و خوداحتسابی کا ڈھانچہ اور ڈسپلن اب بھی خاصا مستحکم ہے ۔اس کے مقابلے میں دیگر دو انقلابی جماعتوں کی ایک تو عمر اور تجربہ کم ہے ،دوم یہ کہ اگر ایک میں سے عمران خان اور دوسری میں سے طاہر القادری کو منہا کر دیا جائے تو حاصل ضرب ''نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری‘‘نکلے گا۔جبکہ جماعتِ اسلامی سے اگر سراج الحق سمیت کسی کو بھی نکال دیا جائے تو جماعت کی صحت ، نظریے ، تجربہ کاری اور شجرۂ نسب پر کچھ بھی اثر نہ ہوگا۔لہٰذا مستقبل قریب میں بھی یہی نظر آتا ہے کہ تینوں جماعتیں قیادتی فرق کے سبب اپنے اپنے انقلاب کے ساتھ ہی مخلص رہیں گی۔مگر اس انقلابی دوڑ میں خرگوش کون ہے اور کچھوا کون ؟ اور اس دوڑ کو دلچسپی سے دیکھنے والوں میں شیر ، لگڑبگڑ ، بندر ، چیتا ، بچھو اور طوطا وغیرہ کون کون ہے ۔یہ آپ سوچیے ۔میں تو اگلے کالم میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا کہ پاکستان کی سب سے منظم جماعتِ اسلامی یونہی تھکتی رہے گی یا اپنا حتمی ہدف کبھی نہ کبھی حاصل کر لے گی۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجئے )

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں