نصاب تو یہی رہے گا

کراچی کا ہر شخص جانتا ہے کہ جب بھی کوئی تیز رفتار مسلح موٹرسائیکل سوار آپ کی چلتی کار کے بالکل برابر آ کر کہے ، نکال۔تو یہ نکال سنتے ہی آپ کا ہاتھ خود بخود پتلون کی پچھلی جیب میں پڑے بٹوے کی جانب چلا جانا چاہئے ۔بصورتِ دیگر عجلتی ڈاکو آپ کو اس جہان سے نکال کر خود اسی موٹر سائیکل پر اطمینان سے نکل لے گا۔واردات کے بعد اگر روتے پیٹتے کسی باوردی کے پاس شکایت لے کے جانا چاہیں تو سو بسم اللہ ۔مگر وہ بھی یہی کہے گا کچھ نکال ۔ ٹریفک سگنل پر کھڑے فقیر سے لے کر کسی بھی محکمے کے ادنیٰ و اعلیٰ ترین اہلکار اور ان کے بچولیوں تک کسی کے منہ سے کسی بھی وقت لا نکال نکل سکتا ہے ۔
اگر کسی طرح نکال سے بچ بھی گئے تو اس دو لفظی جملے سے کیسے بچیں گے ؟ بند ہے ۔ کسی بھی شاہراہ پر اچانک کہیں سے ایک ڈنڈا بردار نمودار ہو کر بس اتنا کہے گا، آگے بند ہے یعنی بلا ہچر مچر واپس پلٹ جا۔ہمت ہے تو پوچھ لیں کہ بھائی کیوں بند ہے ۔اس بند کا کچھ بھی مطلب ہوسکتا ہے ۔ سڑک کے بیچ لگا ہوا کسی مقامی مسٹنڈے کے بیٹے کی تقریبِ ختنہ کا شامیانہ یا چوک کے عین بیچوں بیچ دو جلتے ہوئے ٹائر کہ سڑک کے آرپار رسی تانے چار لمڈے یا پھر گلی کے منہ پر قطار میں رکھے گئے چار بڑے پتھر۔ آپ آگے نہیں جاسکتے ۔آپ کو الجھے ، جھنجھلائے، زیرِ لب بڑبڑائے اور ماتھے پر ایک بھی لکیر ڈالے بغیر واپس پلٹنا ہوگا۔کراچی اور حیدرآباد میں جب ایم کیو ایم یا اندرونِ سندھ جئے سندھ کہتی ہے بند تو پھر سارا شہر اس کا ایک ہی مطلب لیتا ہے ۔ کوئی دوسرا مطلب نکالنا ممکن ہی نہیں۔
اب یہ نہیں معلوم کہ بند کا لفظ حکومت نے نجی گروہوں سے سیکھا یا نجی گروہوں نے حکومت سے ۔مگر حکومت یہ اصطلاح نافذ کرنے میں سب پر بازی لے گئی ہے ۔ کسی بھی چلتی شاہراہ پر بس دو ضبط شدہ ٹرک آڑے ترچھے ہی تو کھڑے کرنے ہیں ۔ عوام نامی نیم انسانوں کے لئے اپنی گاڑیوں ، ایمبولینسوں اور موٹر سائیکلوں کا رخ تنگ گلی کوچوں میں گھسانے کے لئے اتنا اشارہ بہت ۔حفاظت اور مفادِ عامہ کے نام پر کوئی بھی انتظامی اہل کار کسی بھی ہدائیت کار کی جنبشِ ابرو پر کسی بھی چھوٹے سے شہر یا قصبے کو کنٹینروں سے سی سکتا ہے ۔کیونکہ انہیں یقینِ کامل ہے کہ دو ٹانگوں پر چلنے والے لاکھوں کے ریوڑ کو ہنکانے کے لئے بس ایک گڈریا کافی ہے ۔ 
لاہور ، کراچی ، پشاور اور کوئٹہ کی اہم شاہراہوں سے کوئی نہ کوئی معمولی یا غیر معمولی فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت بارہا گزرتا ہے ۔ ایک سائرن کی آواز اور آگے آگے چلنے والی پائلٹ جیپ پر کھڑے بندوق کی نال ہلاتے محافظوں کی ایک گالی عام راہ گیروں کو چیونٹیوں کی قطار کی طرح راستہ بدلوانے کے لئے شافی ہے ۔ائیرپورٹ پر جب کوئی معمولی یا غیر معمولی فرعون دھمکتا ہے تو ہر وہ دروازہ جس سے چڑیا بھی نہیں گزر سکتی ،ان عقابی چونچوں کے لئے کھل جا سم سم ہوجاتا ہے ۔
کسی بھی سڑک پر کوئی بھی یہ شارعِ عام نہیں ہے لکھ سکتا ہے ۔ گیٹ یا بیرئیر لگا کر ایک شارعِ عام کو اپنے ادارے ، تنظیم ، گینگ یا کاروبار کی پارکنگ میں بدل سکتا ہے ۔کسی بھی گلی میں کوئی بھی مقامی کن ٹٹا ہر دو گز پرسپیڈ بریکر بنا سکتا ہے ۔کسی رستم و سہراب میں ہمت ہے تو مزاحمت کر لے ۔بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے متعدد علاقے غیر ملکیوں اور غیر ملکیوں کی طرح سوچنے والے ملکیوں کے لئے بند ہیں۔کس قانون کے تحت بند ہیں ؟ کب سے کب تک بند ہیں ؟ اس بحث میں ہرگز نہ الجھئے گا ورنہ آپ کے بارے میں بھی اگلے روز کوئی خبر چھپ سکتی ہے ۔
یہ راز ہر ایک پر کھل چکا ہے کہ پاکستان کی قومی زبان نہ اردو ہے نہ انگریزی، صرف طاقت ہے ۔لاکھوں کا شہر بند کروانے کے لئے صرف ایک سو ٹیڑھی آنکھ والے لڑکے درکار ہیں۔کوئی نہیں پوچھے گا کہ ایسا کیوں کیا جارہا ہے ۔کروڑوں کا نقصان منظور ، کام کے ہزاروں گھنٹے ضائع کرنا قابلِ قبول ۔لاکھوں بچوں کے ایک اور تعلیمی دن کی قربانی جائز ، میڈیکل سٹوروں اور پٹرول پمپوں کی چھٹی بھی حلال مگر پلٹ کے کسی سے نہ پوچھئے گا کہ آخر کیوں ؟ ہم ہی کیوں ؟
کبھی یہ قوم بھی مختصر وقت کے لئے ہی سہی ایسی الہڑ دوشیزہ ہوا کرتی تھی جسے اٹھلانے ، کھلکھلانے ، آئینے کے روبرو کھڑے رہنے ، اپنی ہی زلفوں کی لمبائی ناپتے رہنے اورذرا سی ناگوارِ خاطر بات پر واویلا مچا دینے سے ہی فرصت نہ تھی اور پھر وقت پر کمند ڈالنے کے ماہروں نے اس قوم کو منٹو کے افسانے'' کھول دو‘‘کی سکینہ بنا ڈالا۔ایک سے دوسرا ، دوسرے سے تیسرا اور تیسرے سے اللہ جانے آٹھواں کہ بارہواں بردہ فروش کبھی منہ بولا بھائی ، تو کبھی باپ ، تو کبھی چچا ، تو کبھی پرہیز گار ہمسائے کا روپ دھارے اس سکینہ کو ایک سے دوسرے کو سونپتا چلا گیا۔بچانے والے سے لے کے پناہ دینے والے تک ، کھانا کھلانے والے سے لے کے پانی کے کنوئیں تک پہنچانے کا جھانسہ دینے والے تک ، اکلِ حلال کی روزی کا فریب دینے والے خضر صورت سے لے کے مظلوم صورت ظالم تک ایک سے ایک نویکلا فنکار بردہ فروش اس سکینہ کوکھدیڑتا رہا اور اتنا کہ اب اس بے حس و بے جان سکینہ کی یادداشت میں ایک ہی جملہ اٹکا رہ گیا ہے '' کھول دو‘‘۔یہ دو لفظ کسی کے بھی منہ سے سنتے ہی سکینہ کے نیم مردہ جسم میں ہلکی سی جنبش ہوتی ہے اور ہاتھ خود بخودنیچے چلا جاتا ہے بلاچون و چرا حکم بجا لانے کے لئے ۔
عمران خان نے جانے کیوں اتنے لوگ اسلام آباد کی سردی میں جمع کرکے تین شہر اور پھر ملک بند کرنے کے پلان سی کا اعلان کیا۔یہ سکینہ سماج تو بس ایک پریس ریلیز کی مار ہے ۔بھلے وہ کسی سیٹیلائٹ فون پر نامعلوم مقام سے کوئی نامعلوم فرد جاری کرے کہ کوئی جانا پہچانا رہنما۔سب کا اثر یکساں اور موثر ہے ۔لگتا ہے عمران خان نے منٹو کا افسانہ کھول دو اب تک نہیں پڑھا ورنہ تو اتنی لمبی تقریر کی ضرورت ہی نہ تھی۔بند تو پھر بند ...
کیا یہ قوم '' کھول دو‘‘کی نفسیات سے کبھی آزاد ہو سکتی ہے ؟ 
اس بابت ایک قصہ سن کے خود ہی فیصلہ کرلیجئے ۔
ایک صاحب نے اپنے نونہال کو ایک مدرسے میں داخل کروایا۔کچھ دنوں بعد بچے نے گھر پہ بتایا کہ ایک استاد مجھ سے ناقابلِ برداشت حد تک بے تکلف ہونے کی کوشش کرتا ہے ۔ مشتعل باپ بچے کو لے کر اسی وقت پرنسپل کے پاس پہنچا اور سارا ماجرا سنانے کے بعد کہا کہ میں اب اپنے بچے کو آپ کے مدرسے میں ایک منٹ نہیں رکھوں گا۔پرنسپل صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا آپ بے شک برخوردار کو کہیں اور داخل کروا دیں مگر نصاب سب جگہ ایک ہی ہے ۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لئے bbcurdu.comپر کلک کیجئے )

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں