مئی 2009ء میں مجھے رابندر ناتھ ٹیگور کی شانتی نکیتن یونیورسٹی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔اب تو خیر یہ ایک عام سی یونیورسٹی ہے لیکن کبھی یہاں ہندوستان بھر کے امرا کے بچے معمولی پس منظر مگر غیر معمولی صلاحیت کے حامل بچوں کے شانہ بشانہ نہ صرف ہندوستان کے کونے کونے سے بلکہ یورپ ، لاطینی امریکہ اور ایشیائی ممالک سے بھی کھنچے چلے آتے تھے ۔اس دانش گاہ میں جرمن ، اطالوی ، فرانسیسی اور برطانوی اساتذہ بھی ایک معینہ مدت کے لئے پڑھانے آتے تھے ۔ ذرا سوچئے کہ جس درس گاہ نے اندراگاندھی جیسی شخصیت ، امرتیا سین جیسا نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معیشت اور ستیہ جیت رے جیسا فلم ساز پیدا کیا وہ کیسی درس گاہ ہوتی ہوگی۔لیکن رابندر ناتھ ٹیگور نے بس ایک روک لگا رکھی تھی۔کسی کا بھی بچہ ہو بغیر داخلہ ٹیسٹ کے شانتی نکیتن کی دہلیز پار نہ کرے گا۔
یہ بات 1938ء کی ہے ۔لاڑکانہ میں سینکڑوں بچوں نے انٹر میڈیٹ کا امتحان دیا ۔ان سینکڑوں بچوں میں سے ایک نے رابندر ناتھ ٹیگور کو یہ ٹیلی گرام بھیجا۔
مہان ٹیگور جی ! میں ایک شریف لڑکا ہوں اور پڑھائی میں بھی اچھا ہوں۔میری خواہش ہے کہ شانتی نکیتن میں پڑھوں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ لاڑکانہ میں میرے گاؤں سے شانتی نکیتن بہت دور ہے ۔فرض کریں میں وہاں پہنچ جاؤں لیکن آپ کے داخلہ ٹیسٹ میں کسی سبب سے فیل ہوجاؤں تو مجھے واپس گاؤں آنا بالکل اچھا نہیں لگے گا۔اگر آپ مجھے داخلہ ٹیسٹ سے مستثنیٰ قرار دے دیں تو میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو کبھی مایوس نہیں کروں گا۔آپ کا چاہنے والا ۔سوبھو گیان چندانی۔
جانے اس سیدھے سیدھے سے ٹیلی گرام میں ایسی کیا بات تھی کہ چند ہفتے بعد جوابی خط میں کہا گیا کہ آپ شانتی نکیتن آجائیں۔آپ کو داخل کرلیا جائے گا۔جب سوبھو لاڑکانہ کی چھبیس طالبات اور ایک اور طالبِ علم کے ساتھ شانتی نکیتن پہنچا تو ٹیگور نے سوبھو کو یہ کہتے ہوئے بلا بھیجا کہ ذرا موہن جو دڑو سے آنے والے لڑکے کی شکل تو دکھاؤ ۔اس کے بعد سے شانتی نکیتن میں سوبھو کا نام موہنجودڑو کا آدمی پڑگیا۔شانتی نکیتن میں ابھی سوبھو کو پڑھتے ہوئے دو برس ہی گذرے تھے کہ گھر سے بلاوا آگیا کہ ہم نے تمہاری شادی طے کردی ہے اس لئے فلاں تاریخ تک واپس آجاؤ اور پھر سوبھو ایسا گیا کہ سندھ کا ہی ہوگیا۔
سندھ واپسی پر سوبھو نے کمیونسٹ پارٹی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرلی اور کراچی میں تعلیم بھی جاری رکھی۔شانتی نکیتن میں اگر اس کا نام موہن جو دڑو کا آدمی پڑ گیا تھا تو کراچی میں اس کا تعارف تھا وہی سوبھو نا جو کتابی کیڑا ہے ۔دوسری عالمی جنگ عروج پر تھی ۔ 1943ء میں پٹنہ میں کمیونسٹ کنونشن ہوا،جس میں فیصلہ ہوا کہ اب جب کہ ہٹلر نے سوویت یونین پر حملہ کردیا ہے تو سامراجی لڑائی عوامی لڑائی میں بدل گئی ہے لہٰذا ہندوستانی کمیونسٹوں کو فی الحال سوویت اتحادیوں یعنی برطانیہ ، امریکہ وغیرہ کا ساتھ دینا چاہئے ۔ اس نئی نظریاتی لائن پر اجلاس میں ہنگامہ ہوگیا۔سوبھو اور اس جیسوں کا موقف تھا کہ کل تک ہم برطانوی سامراج مردہ باد کے نعرے لگاتے تھے ،اب کیا برطانوی سامراج زندہ باد کے نعرے لگائیں ؟ کمیونسٹ پارٹی نے تو بہرحال نئی لائن اختیار کرلی مگر سوبھو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ واپس کراچی پہنچا اور تین ہزار طلبا کے مجمع کو یقین دلایا کہ ہم آزادی کی تحریک سے انحراف نہیں
کرسکتے ۔اور اس کے بعد سوبھو اور اس کے طلبا ساتھیوں نے کانگریس کی ''ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک میں شمولیت اختیار کرلی۔ انٹیلی جنس پیچھے لگ گئی ۔سوبھو کو پہلے کراچی جیل میں بند کیا گیا اور پھر سکھر جیل بھیجا گیا ۔ جب مختصر عرصے کے لئے رہائی عمل میں آئی تو سوبھو اور دیگر زیرِ زمین چلے گئے ۔
جب کمیونسٹوں نے ہندوستان کی تقسیم کی حمایت کی تو سوبھو بھی اس لائن سے متفق تھے ۔بقول سوبھو جناح صاحب بذاتِ خود سیکولر آدمی تھے لیکن ان کو چاروں طرف سے یوپی کے قدامت پسند جاگیر دار طبقے اور پنجابی یونینسٹوں نے گھیرا ہوا تھا۔اردو کو قومی زبان بنوانے اور بنگالی کو نہ بنانے کا فیصلہ بھی جناح صاحب سے انہی عناصر نے دباؤ ڈال کر کروایا ورنہ جس رہنما کو خود اردو نہیں آتی تھی وہ کسی ایک زبان کی جانب اس قدر کیوں جھکتا۔
پارٹیشن کے موقع پر سندھ سے ہندوؤں کی نقلِ مکانی ہوئی ۔ سوبھو کے بھی بہت سے عزیز بھارت چلے گئے مگر سوبھو اور ان کے خاندان نے با ہوش و حواس فیصلہ کیا کہ کچھ بھی ہو جائے سندھ نہیں چھوڑیں گے ۔ملک میں پہلا مارشل لا ء لگنے تک سوبھو مسلم لیگ سے منحرف ہونے والے جی ایم سید اورکسان رہنما حیدر بخش جتوئی وغیرہ کے ساتھ مل کے ون یونٹ اور پاکستان کو مغربی اتحادوں سے نتھی کرنے کی کوششوں کے خلاف جدوجہد کرتے رہے ۔اس دوران گرفتاری و رہائی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔1959ء میں پہلے عام انتخابات ہونے تھے ،لیکن بقول سوبھو امریکی سی آئی اے کو اندازہ تھا کہ نئی اسمبلی میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ اور بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی واضح اکثریت لے جائے گی جبکہ نئی اسمبلی میں ملک کے دونوں حصوں سے لگ بھگ تیس نشستیں کمیونسٹ اور سوشلسٹ حاصل کرلیں گے ۔اور اگر موجودہ مجلسِ قانون ساز میں صرف ایک کمیونسٹ میاں افتخار الدین نے اتنا وختا ڈالا ہوا ہے تو تیس کمیونسٹ اور باقی نیشنلسٹ بھی اگر آگئے تو کیسا ادھم مچے گا۔چنانچہ امریکہ نے پاکستان پر ایوب خان کو مسلط کردیا۔مارشل لاء لگنے کے بعد کمیونسٹوں کی پکڑ دھکڑ حسب ِ سابق جاری رہی ۔
سوبھو 1959ء سے 1964ء تک گھر پر نظر بند رہے ۔انہیں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پیغامات آتے رہے کہ ملک چھوڑ دو تو کل ہی آزاد کردیں ۔اتنی طویل نظربندی کے دوران سوبھو جیسا کامریڈ مکھی پہ مکھی تو نہیں مار سکتا تھا۔لہٰذا انہوں نے دو کام کئے ۔ کتابیں پڑھنا اور زمین کو پڑھنا ۔سوبھو نے چاول کی نئی قسم کی کاشت شروع کی اور جو ایکڑ چار سو کلو گرام چاول پیدا کرتا تھا، اسی ایکڑ سے چوبیس سو کلو گرام چاول لے لئے ۔علاقے میں دھوم ہوگئی ۔کاشت کار پوچھنے آنے لگے ۔سوبھو کا جواب ہوتا میں تو اپنی قید کاٹ رہا ہوں، میرا زراعت سے کیا لینا دینا، ہاں جو بھی لینا دینا ہے وہ زراعت کرنے والوں کے استحصال سے ہے ۔
1971ء میں مشرقی پاکستان میں جب فوجی ایکشن شروع ہوا تو مغربی پاکستان کے نقار خانے میں جو چند طوطی اس ایکشن کے خلاف بلند آواز سے بول رہے تھے ان میں سوبھو بھی تھا۔نتیجہ پھر ایک مختصر قید کی شکل میں نکلا۔بھٹو صاحب اقتدار میں آنے کے بعد سوبھو کو پیغام بھیجتے رہے کہ میری پارٹی مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کے لئے ہے، لہٰذا تمہاری فطری منزل پیپلز پارٹی ہونی چاہئے ،مگر سوبھو کا ایک ہی جواب تھا۔انقلابی اور آمر میں بہت فرق ہوتا ہے ۔آپ نعرے کی حد تک انقلابی ہیں مگر اندر سے ایک روائتی آمر۔
1988ء میں سوبھو نے آزاد کمیونسٹ امیدوار کی حیثیت سے اقلیتوں کی ریزرو سیٹ پر زندگی کا پہلا اور آخری الیکشن لڑا ۔غیر سرکاری نتائج کے مطابق سوبھو گیان چندانی کامیاب ہوگئے ،لیکن جب سرکاری نتائج کا اعلان ہوا تو ان کی جگہ بھگوان داس چاولہ کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔معاملہ الیکشن ٹریبیونل میں گیا لیکن فیصلہ ہونے سے پہلے ہی 1990ء کے انتخابات کا اعلان ہوگیا اور معاملہ غتر بود ہوگیا۔اس کے بعد سوبھو اپنے پرانے انتخابی حلقے یعنی پڑھنے لکھنے کی جانب لوٹ گئے ۔2004ء میں انہیں سندھی لٹریچر میں نمایاں خدمات پر اکیڈمی آف لیٹرز نے کمالِ فن ایوارڈ دیا۔سوبھو آخری دم تک ( پچانوے سال ) کڑک دار آواز میں بولتے رہے ۔ان کی یہ امید کبھی نہ ٹوٹی کہ استحصالی نظام بھلے کیسے بھی ختم ہو مگر ہو کر رہے گا۔اب چاہے کمیونزم کا نام سوشل ڈیمو کریسی رکھ لو ، اسلامی سو شلزم کی پوشاک پہنا دو کہ ویلفئیر اسٹیٹ رکھ لو۔آنا اسی طرف پڑے گا۔کل بروز سوموار سوبھو آزاد ہوگیا۔بقول سوبھو میں تین سروں والا عفریت ہوں ۔سندھی ، ہندو اور کمیونسٹ ۔یہ عفریت شائد اگلے جہان میں بھی چین سے نہ بیٹھے ۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لئے bbcurdu.com پر کلک کیجئے )