آخر ہم لٹھا کیوں ایکسپورٹ کرتے ہیں؟

محسوس کرو گے تو گزر جاؤ گے جاں سے
وہ حال ہے اندر سے کہ باہر ہے بیاں سے 
جب میرے باپ کا انتقال ہوا تو لگا اس سے بڑے کرب سے کوئی بیٹی کیسے گزر سکتی ہے۔ پھر طالبان نے میری سوچ بدل دی۔
کوئی ایسی دوا ، ایسا طریقہ ، جس سے آنسو رک سکیں ؟
ماں آج گھر لوٹوں تو مجھے اچھی طرح تیارکرنا
اور بہت سا پیار بھی کرنا ، جیسے اسکول جاتے وقت کیا تھا
ماں، میرے یونیفارم پر ذرا سا خون گرگیا، پلیز ڈانٹنا مت ، داغ تو اچھے ہوتے ہیں
خبردار ! کسی نے میرے پھولوں کے لئے سوگ کا نام لیا 
سوگ مناؤ اپنی غیرت کا‘ اپنے احساس کا‘ اپنے ایمان کا اورآزادی کا
گر قاتل کی تلاش ہو تو آؤ میں بھی آئینہ دیکھوں تُم بھی دیکھو۔۔۔۔! 
تو کیا اب بھی مجھے خودکشی کی اجازت نہیں۔۔۔؟
آج ہی وہ خوش خوش اپنی اسکول یونیفارم پر پہلی بار بیج لگا کے گیا تھا۔ ' آئی شیل رائز اینڈ شائن ‘۔۔۔۔۔ اور پھر اس کی دعا فوراً قبول ہوگئی۔کہتے ہیں بچوں کی دعا فوراً قبول ہوتی ہے ۔
اور پھر انھوں نے ہمیں کلمہ پڑھنے کو کہا کیوں کہ وہ یقین کرنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں ہی کو مار رہے ہیں۔ 
وہ کہتے ہیں ، ہم ان کا جینا حرام کر دیں گے
ان کی دہشت گردی مٹا دیں گے
زبانی جمع خرچ میں کیا جاتا ہے
آج جب کل بن جاتا ہے
مرنے والوں کا خون زمین سے پیوست ہوجاتا ہے
اور کل جب دانت نکالے کھڑا ہوجاتا ہے
تو وہ بھی دہشت گرد کی بغل میں جا کھڑے ہوتے ہیں
موت کے پیچھے کھڑے ہوجاتے ہیں
اور تھوتھنی نکال کے کہتے ہیں
ہم سوگ مناتے ہیں
ان کا جو مرگئے
پھرخود کو قائم رکھنے کے لئے
کھاتے ہیں ہمارے بچوں کا تازہ گوشت
پیتے ہیں ہمارے بچوں کا تازہ خون
موت ان کی پشت پناہ جو ٹھہری۔۔۔ !
ہر تیرگی میں تو نے اتاری ہے روشنی
اب خود اترکے آ کہ سیاہ تر ہے کائنات
بارِ الہا ! کتنے پہر رہ گئی ہے رات
سب سے چھوٹا تابوت سب سے بھاری ہوتا ہے
جانے ہم لٹھا کیوں ایکسپورٹ کرتے ہیں ، توکیا پاکستان کی مانگ پوری ہوگئی ؟
ڈیئر ملالہ ، آئندہ عالمی یومِ خواندگی 16 دسمبر کو منانا کیسا رہے گا؟ ہیلو۔۔۔۔۔کیا تم سن رہی ہو۔۔۔۔؟
دو ٹانگوں والی فوٹوکاپی مشینوں سے قے کی طرح نکلنے والے مذمتی بیانات پرکیا مستقل پابندی نہیں لگ سکتی ؟
سب بولنے والے ہیں ،کوئی سننے والا نہیں ،کوئی بھی نہیں۔
سیاہی سے باہر نکلنے کے سب رستے سرخ ہوتے ہیں۔
اشرافیہ سے سکیورٹی چھین لو، عوام کو تحفظ ملے گا۔۔۔۔ ' اٹ از ویری سمپل ‘ ،
' نوکلیئر سٹیٹ اینڈ ان کلیئر سٹیٹ ‘۔
آج بھی غیب سے امداد اتر آئی ہے
خوش ہوئے آج بھی تابوت بنانے والے
ایک کافور ہی آتا ہے تمہیں سب میں پسند
عنبر و عود سے، لوبان سے ڈر لگتا ہے
ذرا دیر اور رو لو ، پھر تمہیں کام پر بھی تو جانا ہے
کیا ان میڈیائیوں کے منہ میں انہی کا مائک کوئی نہیں گھسیڑ سکتا جو گیٹ کے باہر کھڑی ہر ماں سے پوچھ رہے ہیں : اس وقت آپ کیسا محسوس کررہی ہیں۔۔۔۔؟
کیا دکھ سے زیادہ چھوٹا ، گھٹیا ، بے توقیر لفظ کوئی ہے؟
ماں جلدی سے ناشتہ دو، مجھے سکول پہنچ کر شہید بھی ہونا ہے۔
زمین نے کتنے سکون سے اپنے ہی بچے پھر سے پیٹ میں رکھ لئے۔۔۔۔۔
دنیا کا سب سے خوش گمان شخص وہ سپیرا ہے جسے پکا یقین ہوکہ دودھ پلانے والے ہاتھ کو سانپ نہیں ڈستا۔
بموں اورگولیوں سے اب نئی دنیا اگائے گی میری دھرتی
ہوا مُردہ ، گَلے جسموںکی بُو میں لڑکھڑائے گی
ڈری سہمی ہوئی مائیں ، اب اپنے وقت سے پہلے زمانے جننا سیکھیں گی
کھلی آنکھوں میں حیرانی سمیٹے میرے بچے
پہلی بولی درد سے،آہوں سے اور چیخوں سے سیکھیں گے
عقوبت خانوں میں بے داغ جسموں پر زمانے چڑھ گئے توکیا 
ہم ایور یوتھ کریموں سے ہر اک سلوٹ چھپا لیں گے
کلوننگ کے لیے خلیے ملیں گے، فرد ہم پھر سے بنا لیں گے
زمیں پہ بجھ گئی توکیا
نئے سیارے پہ جا کے نئی دنیا بسا لیں گے
داؤد دیر سے اٹھا اس لیے اسکول نہ پہنچ سکا۔ جانے یہ اچھا ہوا کہ برا۔ پیرکو جب داؤد اسکول جائے گا تو ساتھ کی چھ خالی کرسیاں آخرکب تلک تکے گا۔
اسی پشاور میں پچھلے سال 22 ستمبرکو آل سینٹس چرچ پر حملے میں 127کرسچن ہلاک اور 250 کے لگ بھگ زخمی ہوئے ۔ اگر قوم تب بھی اتنی ہی جذباتی ہو جاتی جیسی آج ہے تو شاید141 بچے اور اساتذہ ہمارے درمیان ہی ہوتے۔۔۔۔شاید۔۔۔۔
شالا دکھ نہ ملے کہیں کوں۔۔۔۔۔
اور ان کے بچوں کو نہ مارنا اور ان کی عورتوں اور بوڑھوں سے احترام سے پیش آنا اور ان کے پھل دار درخت مت کاٹنا ۔
خارجی بھی تو کلمہ گو تھے ، جانے کیوں انہیں مارا گیا ؟
ماں کا چاند دیکھتے ہی دیکھتے تارہ ہوگیا ۔
اوباما اور مودی کا پرسہ تو مل گیا ، ذ را دیکھنا سعودی عرب سے بھی کوئی نہ کوئی پرسہ ضرور آیا ہوگا۔۔۔۔! 
خون می دمد از خاکِ شہیدانِ وطن ، وائے 
اے وائے وطن، وائے وطن، وائے وطن ، وائے
میں کبھی بتلاتا نہیں 
پر اندھیرے سے ڈرتا ہوں میں ماں
بھیڑ میں ، یوں نا چھوڑو مجھے
گھر لوٹ کے بھی آ نہ پاؤں ماں
(آج جو کچھ بھی اس کالم میں ہے سب یہاں وہاں سے جمع کیا ہے ۔اس میں سے کچھ بھی میرا نہیں۔ ایک لائن بھی نہیں۔ دماغ شاید آنکھوں کے راستے فرار ہو گیا۔ ایسا لگ رہا ہے۔) 
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجئے) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں