"ZFC" (space) message & send to 7575

نیشنل ایکشن پلان اور ڈینگی مچھر

گزشتہ کالم میں تین مارچ 2009 ء کی بدقسمت صبح کا ذکر ہوا تھا۔ اُس روز سری لنکا کی کرکٹ ٹیم اور بین الاقوامی امپائروں کے قافلے پر درجن بھر دہشت گردوں نے بزدلانہ حملہ کیا۔ دل گرفتہ پاکستانیوں نے خون آلود مناظر ٹیلی ویژن پر براہ راست دیکھے۔ اس حملے کو چھ پولیس اہلکاروں اور دو شہریوں نے جان دے کر ناکام بنایا۔ حملہ آوروں کی چال ڈھال اور پھرتی سے معلوم ہوتا تھا کہ اُن سب کی عمر 20 اور 25 سال کے درمیان ہو گی۔ حملے کے بعد وہ اطمینان سے غائب ہو گئے۔ نہ فوری سراغ نہ فوری گرفتاری۔
سری لنکا کی ٹیم کے کھلاڑی اور دوسرے لوگ بھی دورہ ادھورا چھوڑ کر اپنے اپنے ملک کی محفوظ پناہ گاہ میں واپس ہوئے مگر یہ حملہ حیران و پریشان پاکستانیوں کے لئے بے شمار سوال چھوڑ گیا۔ یہ نوجوان کون تھے؟ کہاں سے آئے؟ اُن کا بچپن کہاں گزرا؟ اُن کی ذہنی تربیت کن لوگوں نے کی؟ لوگ سوچنے میں حق بجانب تھے کہ بے گناہ انسانوں کے قتل کی ترغیب ان نوجوانوں کو ماں کی گود سے نہیں ملی ہو گی۔ انہیں بھی شاید کسی مدرسے‘ مسجد یا مکتب میں انسان دوستی کا سبق پڑھایا گیا ہوگا۔ کیا ان کو معلوم نہیں تھا کہ دین اسلام کے مطابق ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے؟
اُن کے ذہنوں سے کس نے اسلامی تعلیم کو نکال کر زہریلے نظریات داخل کئے؟ وہ کب اور کیوں ایسے جنگجو بن گئے جو بے گناہوں کا قتل کرتے ہوئے کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے؟
پھر یہ سوال بھی واجب تھا کہ انہیں اسلحہ کس نے فراہم کیا اور اُسے چلانے کی تربیت کس نے دی؟ اس مہم جوئی کے لئے رقم کا ذریعہ کون بنا؟ کیا عوام دشمنی کی سرمایہ کاری مقامی ذرائع سے ہوئی یا یہ کوئی بین الاقوامی سازش تھی؟
آج اس واقعہ کو آٹھ سال گزر چکے ہیں۔ انسان ایک فطری کھوجی ہے۔ سوالات کے جواب چاہتا ہے۔ قارئین خود فیصلہ کریں کہ کیا انہیں ان سوالات کا شافی جواب ملا۔
اگر حکومت نے معلومات نہیں دیں تو کیا اہل صحافت نے مدد کی؟ کیا سوشل میڈیا نے رہنمائی کی؟ صحافی تو سیاست دانوں کے کردار میں چھپی تاریکیوں کا کھوج لگا لیتے ہیں۔ اس معاملے میں خاموش کیوں رہے؟۔ کوئی تفتیشی رپورٹ عوام کے سامنے کیوں نہیں آئی؟
سیاسی مخالفوں اور نظریاتی حریفوں کے بارے میں عوام کو باخبر رکھنے اور باشعور بنانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا جاتا۔ کرکٹ کے بارے میں ہر قسم کا مواد موجود ہے۔ کھلاڑیوں کی سلیکشن‘ جسمانی فٹنس‘ کپتانی کے جھگڑے‘ ہر چینل کو سب کی خبر ہے مگر جن لوگوں نے غیر ملکی ٹیموں کے لئے پاکستان کے دروازے بند کر دیئے‘ ان کا تذکرہ ہی نہیں۔ اگر یہ بات تسلیم ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ عوام کی مدد کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی تو پھر اس رزم حق و باطل میں عوام کو ایک حلیف کی حیثیت کیوں نہ ملی۔
عوام پر عدم اعتماد کا نوحہ لکھتے ہوئے خیال آیا کہ دہشت گردی کو روکنے کے لئے جو نیشنل ایکشن پلان بنا اُس کا تعلق عوام سے جڑ سکتا ہے اگر ڈینگی مچھر کے خلاف مہم کو ذہن میں رکھا جائے۔ جن دنوں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا اس سے کچھ پہلے ڈینگی مچھر کی پاکستان آمد ہوئی۔ جان لیوا ڈینگی بخار کی وبا تیزی سے پھیلی۔ ہمارے ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے پاس اس مرض کو روکنے اور علاج کا خاطر خواہ تجربہ نہ تھا۔ مریض بڑھتے جا رہے تھے اور ڈینگی بے قابو تھا۔ جن ملکوں میں یہ وبا بہت عرصے سے موجود تھی‘ اُن سے رابطہ ہوا۔ ماہرین درآمد کئے گئے۔ پاکستان میں ڈاکٹروں کی تربیت ہوئی اور علاج میں جو غلطیاں کی جا رہی تھیں اُن کی درستی کی گئی۔
اُنہی ماہرین نے یہ حوصلہ شکن خبر دی کہ ڈینگی جس علاقے میں داخل ہو جائے‘ وہاں سے جاتا نہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ڈینگی مچھر سیزن کے درمیان جو انڈے دیتا ہے‘ وہ دو سال تک زندہ رہتے ہیں۔ جب بھی پرورش کا مناسب ماحول ملے گا‘ مزید افزائش نسل ہو گی۔ 2013ء کے الیکشن قریب تھے۔ پنجاب حکومت کے سیاسی مستقبل کا سوال تھا۔ حکمران متحرک ہو گئے۔ ڈینگی سے نمٹنے کے لئے ایک جامع پلان ترتیب دیا گیا۔ یہ علم تھا کہ اس مچھر کے انڈے صرف صاف پانی میں بارآور ہوتے ہیں اور لاروا بھی صاف اور ساکت پانی میں پرورش پاتا ہے۔ ان دونوں کو انسانی آنکھ سے دیکھنا ممکن نہیں۔ محدب عدسے کی مدد درکار ہوتی ہے۔ مشکل یہ تھی کہ مچھر کی افزائش ممکنہ طور پر ہر گھر‘ دکان‘ فیکٹری اور محلے میں ہو سکتی تھی‘ اُسے ان جگہوں میں پرورش پانے سے کیسے روکا جائے۔ اسی غوروفکر میں یہ ادراک تو ہوا کہ عوام کی مدد کے بغیر افزائش کا تدارک ممکن نہیں۔ اس لئے ایک طرف تو انہیں پوری معلومات دے کر مدد کی درخواست کی جائے‘ دوسری طرف جہاں رضاکارانہ تعاون نہ ملے‘ سخت تادیبی کارروائی کی جائے۔
عبرت انگیز تادیبی کارروائی اور وبائی امراض کی روک تھام کے لئے 1958ء کا ایکٹ کارآمد ثابت ہوا۔ اس ایکٹ کے تحت مانیٹرنگ ٹیموں کو چار دیواری کے اندر رسائی اور بے خبر مکینوں کے خلاف گرفتاری تک کے اختیار دیئے گئے۔ تکنیکی معائنے میں اگر کسی چار دیواری کے اندر ڈینگی مچھر کا انڈا یا لاروا محدب عدسے کی مدد سے بھی دیکھا گیا ‘ تو مکین ذمہ دار اور قابلِ گرفتاری ٹھہرا۔
پرانے ٹائروں کے بارے میں معلوم ہوا کہ اُن میں ساکن پانی ڈینگی کی پرورش گاہ بنتا ہے۔ اس بارے میں سخت رویہ اپنایا گیا۔ ٹائروں کو تلف کریں ورنہ کاروباری لائسنس منسوخ۔
پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001ء کے تحت تعاون نہ کرنے والے کاروباری اور صنعتی اداروں کو سیل کرنے کے اختیار بروئے کار لایا گیا۔ سخت گیر حکمرانی کے ساتھ آگہی کی زبردست مہم چلی۔ عوام سے تعاون کی درخواست قبول عام ہوئی۔ اس وبا کی روک تھام کرنا ہر کسی کے مفاد میں تھا۔ تادیبی کارروائی کی ضرورت بھی کم رہی۔ دوسری طرف چیف منسٹر کی سربراہی میں کمیٹی نے ہر صبح مہم کا جائزہ لینا شروع کیا۔ اس کمیٹی کے علاوہ بہت سی کمیٹیاں قائم ہوئیں جن کا دائرہ کار ڈویژن اور ضلع کی سطح تک پہنچا دیا گیا۔
ڈینگی وبا کے خلاف اس ہمہ گیر مہم کے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے۔ صرف ایک سال میں ڈینگی کے متاثرین کی تعداد میں اس حد تک کمی آئی کہ بین الاقوامی ماہرین بھی حیران رہ گئے۔
آج مجھے اس مہم کے بارے میں لکھتے ہوئے بے چینی محسوس ہو رہی ہے۔ ذہن میں طرح طرح کے سوالات سر اُٹھا رہے ہیں۔ کیا ڈینگی مچھر‘ دہشت گردی کے عفریت سے زیادہ خطرناک ہے؟
بہت سی چار دیواریاں قابل تقدیس سمجھی جاتی ہیں۔ عوام کو شبہ ہے کہ اُن کے اندر دہشت گردی کے جرثومے پرورش پا رہے ہیں۔ کیا ان کا تکنیکی معائنہ ضروری نہیں؟ ڈینگی مچھر کو پنپنے میں نادانستہ معاونت بھی چاردیواری کے مکینوں کی گرفتاری کا سبب بن سکتی ہے مگر کیا فرقہ واریت کی پرورش کرنا کم خطرناک ہے؟ 
ایک طرف تو وبائی مرض کے بارے عوام کو تشہیری مہم کے ذریعے باخبر رکھا جائے اور ڈینگی کی پرورش گاہوں کی نشاندہی پر حکومت عوام کے تعاون کی طلب گار ہو۔ دوسری طرف اُنہیں حریف کی کمیں گاہوں کے بارے میں معلومات ہی نہ دی جائیں۔
آخر میں ایک سوال ہی باقی رہ جاتا ہے۔ ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ کیا ہم عوامی حمایت اور مدد کے بغیر یہ جنگ لڑنا چاہتے ہیں؟ اگر نہیں تو دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد انہی خطوط پر استوار کیوں نہیں ہوتا جن خطوط پر ڈینگی مچھر کے خلاف حکومت پنجاب نے مہم چلائی تھی؟۔

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں