"ZFC" (space) message & send to 7575

ایک شہرِ معاش کا نوحہ

یہ 2007ء کا واقعہ ہے۔ شوکت عزیز پرائم منسٹر تھے اور مجھے سیکرٹری ٹیکسٹائل تعینات ہوئے بہت کم عرصہ گزرا تھا۔ اکنامک کوآرڈی نیشن کمیٹی، یعنی کابینہ کے سب سے طاقتور ادارے کا اجلاس تھا۔ پہلی بار کا خوف دامن گیر تھا۔ شوکت عزیز خوشگوار موڈ میں تھے۔ میرے اندر داخل ہوتے ہی فرانسیسی میں مجھے مخاطب کیا ''موسیو!‘‘ پھر کہنے لگے۔ ''میں آپ کا کیس پڑھ چکا ہوں مگر دوسرے ممبرز کی اطلاع کے لیے آپ مختصراً اس منصوبے کی تفصیل اور اپنی تجویز بتائیں‘‘۔
یہ وہی منصوبہ تھا جو آج کل وفاقی حکومت اور صوبہ سندھ کے درمیان متنازع ہے۔ میں یہ بھی اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ شاید اُس روز میری دی ہوئی تجاویز کی وجہ سے ہی یہ منصوبہ آج تک مکمل نہیں ہوا۔ اِس شہر معاش کی کہانی اُن وجوہات کی بھی عکاسی کرتی ہے جو بتدریج کم ہوتی ہوئی برآمدات کا محرک ہیں۔ 
2005ء میں حکومت نے فیصلہ کیا کہ برآمدات کو ترقی دینے کے لیے کراچی میں ایک ٹیکسٹائل سٹی بنایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ایک کمپنی بنی جس میں وفاقی حکومت کے تقریباً پچاس فیصد اور باقی حصص حکومتِ سندھ، پورٹ قاسم اتھارٹی اور دوسرے مالیاتی اداروں کے تھے۔ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین پرائیویٹ سیکٹر سے لیے گئے۔ انتظامی امور چلانے کے لیے مارکیٹ سے موزوں شخص چنا گیا۔ اُس کی تنخواہ اور دیگر مراعات بھی پرائیویٹ سیکٹر کے مطابق طے کی گئیں۔ زمین پورٹ قاسم سے خریدی گئی اور منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے نیسپاک کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جب میں پہلی دفعہ ایک رُکن کی حیثیت سے بورڈ کی میٹنگ میں شریک ہوا تو زمین ہموار کرنے کا ٹھیکہ دیا جا چکا تھا اور نیسپاک نقشہ بنا چکی تھی‘ جس میں سڑکیں اور مختلف سائز کے پلاٹ شامل تھے۔ کمپنی کے پاس بہت کم رقم باقی تھی۔ بورڈ کے سامنے تجویز کیا گیا کہ پلاٹوں کی نیلامی سے رقم حاصل کرکے بائونڈری وال اور سڑکیں تعمیر کی جائیں۔ مجھے اتفاق نہ تھا۔ وجہ بہت بنیادی تھی۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری دھاگے سے شروع ہوکر تیار اشیا پر ختم ہوتی ہے۔ کئی مراحل شامل ہوتے ہیں۔ دھاگے کو کاتنے، رنگ دینے، کپڑا بننے اور دوسرے کیمیائی مادوں سے گزارا جاتا ہے۔ ہر ایک کے لیے مختلف عمل درکار ہوتا ہے۔ سب کی ضروریات الگ الگ ہیں۔
پاکستان میں پالیسی رہی ہے کہ انڈسٹریل اسٹیٹ میں پلاٹ بنا کر صنعت کاروں کو صرف جگہ دی جائے۔ باقی سہولیات کا انتظام اس کی اپنی ذمہ داری۔ اگر پانی کی کمی ہے تو صنعت کار واٹر ٹینکر کا بندوبست کرے۔ اگر بجلی کی فراہمی لوڈ شیڈنگ کا شکار ہے تو بڑے بڑے جنریٹر خریدے۔ اگر کیمیکل کے استعمال سے زہریلا پانی خارج ہوتا ہے تو اس کے لیے اپنا ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے۔ لیبر فورس کی ٹریننگ کا بندوبست اور اگر مشینری میں خرابی آئے تو فنی ماہرین کا انتظام بھی خود کرے۔ اِن تمام سہولیات کا انتظام لاگت میں اضافہ کرتا ہے اور مصنوعات عالمی منڈی میں مقابلہ نہیں کر سکتیں۔
چین کی ترقی سب کو مسحور کرتی ہے۔ گزشتہ دہائی میں اُس کی برآمدات بہت تیزی سے بڑھیں۔ اُس کی ایک اہم وجہ صنعت کاروں کو ایک منفرد انڈسٹریل اسٹیٹ میں جگہ کی فراہمی تھی۔ اُن کی حکومت تو صنعت کار کے لیے تمام سہولتیں فراہم کرنے کے بعد زمین کی قیمت بھی نہیں لیتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ کمائی سے ادائیگی کی سہولت ہے۔ میں چین کے نظام سے واقف تھا۔ خیال تھا کہ ہمارے صنعت کاروں کو عالمی مارکیٹ میں مقابلے کی صلاحیت ملے۔ بورڈ کو تجویز دی کہ ٹیکسٹائل کے لیے یہ شہرِ معاش گزشتہ پالیسی سے ہٹ کر بننا چاہئے۔ جو فیکٹریاں اس مجوزہ ٹیکسٹائل سٹی میں لگائی جائیں، اُن کی بہتر کارکردگی کے لیے کم از کم پانی اور بجلی مستقل طور پر مہیا ہو۔ مضرِ صحت پانی کے لیے کیمیکل ٹریٹمنٹ پلانٹ کا بھی انتظام کیا جائے۔
مسٔلہ یہ تھا کہ کمپنی کے حصص کے لیے جو سرمایہ وفاقی حکومت، صوبہ سندھ اور دوسرے اداروں نے فراہم کیا تھا وہ صرف ایک ارب روپے کے لگ بھگ تھا۔ اتنی رقم میں کچھ پلاٹ بیچ کر چار دیواری اور سڑکیں بنائی جاتیں اور پھر باقی پلاٹ نیلام کرکے قرضے ادا ہوتے اور منافع شراکت داروں میں تقسیم کر دیا جاتا۔ 
ہمارا خیال تھا کہ اِس صورت میں صنعت کار جگہ خرید لیں گے مگر ایسے ٹیکسٹائل سٹی کا کیا فائدہ جہاں فوری سرمایہ کاری نہ ہو۔ سرمایہ کاری سہولیات کی فراہمی سے مشروط ہوتی ہے۔ بورڈ کو بتایا گیا کہ دنیا میں انڈسٹریل پارک کے اندر پانی، بجلی، کیمیکل ٹریٹمنٹ پلانٹ کے علاوہ افرادی قوت کے لیے ٹریننگ، لیبر کالونی، مشینری کی فوری مرمت کے لیے ورکشاپس، مالیاتی اداروں کی شاخیں اور کہیں کہیں تو باہر سے آنے والے گاہکوں کے لیے گیسٹ ہائوس بھی بنائے جاتے ہیں۔ فیصلہ ہوا کہ تمام سہولتیں فراہم کرنے سے پلاٹوں کی قیمت بڑھ جائے گی۔ حصہ داروں کے منافع میں بھی اضافہ ہو گا اور ساتھ ہی ساتھ فوری سرمایہ کاری بھی ممکن ہو گی۔
مسٔلہ یہی تھا کہ زائد سرمایہ کہاں سے آئے۔ نیشنل بینک کے صدر بورڈ کے ممبر تھے۔ اُنہوں نے مزید قرض دینے کی ہامی نہ بھری تو فیصلہ ہوا کہ شراکت داروں سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنا ادا شدہ سرمایہ دگنا کر دیں۔ یعنی وفاقی حکومت پچاس کروڑ اور اسی شرح سے باقی شراکت دار اضافی رقم کا بندوبست کریں۔ سب سے بات ہوئی، وہ اس شرط پر رضامند ہوئے کہ وفاقی حکومت پہل کرے۔ یہ تجویز لے کر میں کابینہ کمیٹی میں پیش ہوا۔ مجھے سنا گیا اور شوکت عزیز نے تائید کرتے ہوئے اظہار کیا کہ سیکرٹری صاحب ایکسپورٹ بزنس کے اسرارورموز سمجھتے ہیں اور ٹیکسٹائل انڈسٹری جو ہماری ایکسپورٹ کا ساٹھ فیصد ہے، اُسے ایک Efficient Infrastructure دینا چاہتے ہیں۔ اُنہوںِ نے یہ بھی کہا کہ اگر صنعت کار کو یہ ساری سہولتیں مل جائیں تو اس کی پیدواری لاگت کم ہو جائے گی اور پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات عالمی منڈی میں مقابلہ کر سکیں گی۔
مختصراً عرض ہے کہ ای سی سی نے تجویز قبول کی اور پرائم منسٹر نے مطلوبہ رقم کی فوری فراہمی کے لیے واضح ہدایات دیں۔ مجھے اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے میں کوئی مُفر نہیں کہ کئی ماہ تک فنانس منسٹری کے چکر لگائے مگر رقم نہ ملی۔ کچھ عرصے بعد میری تبدیلی ہوگئی۔ اس بات کو دس سال گزر چکے ہیں۔ کئی سیکرٹری ٹیکسٹائل آئے مگر ای سی سی کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہوا۔آج صورتِ حال یہ ہے کہ نہ پانی کی پائپ لائن بچھی، نہ بجلی کا انتظام ہوا۔ سندھ واٹر بورڈ نے ابتدائی تخمینے سے بہت زیادہ رقم مانگی ہے۔ فیصلہ سازی میں تساہل کی وجہ سے یہ منصوبہ حالت نزاع میں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بیسیوں آڈٹ پیرے پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹ کمیٹی میں جانے کے منتظر ہوں گے۔ 
سننے میں آرہا ہے کہ منصوبے کو ترک کرکے زمین پورٹ قاسم اتھارٹی کو واپس دینے کی تجویز زیرِ غور ہے۔ سندھ حکومت ایک شراکت دار کی حیثیت سے چاہتی ہے کہ ایسی صورت میں ٹیکسٹائل سٹی کو سندھ کے حوالے کر دیا جائے۔ سندھ حکومت کی خواہش شاید اس دلکشی کی بدولت ہو کہ زمین کی جو قیمت 2005ء میں ادا کی گئی تھی وہ کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ اندازہ ہے کہ مستقبل قریب میں یہ معاملہ طے نہیں ہو گا۔ اس دوران ہماری برآمدات یورپی یونین کی رعایت کے باوجود کم ہو رہی ہیں۔ برآمدات کو بڑھانے کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے مگر اُس کے لیے مالی وسائل مختص کرنا ہوں گے۔ ایکسپورٹرز کی مشکلات کا اندازہ اسی بات سے ہو جاتا ہے کہ اس وقت سیلز ٹیکس ریفنڈ کی مد میں اُن کے اپنے تین سو ارب روپے واجب الادا ہیں۔ حکومت سمجھتی ہے کہ برآمدات بڑھانا صرف خرم دستگیر کا مسئلہ ہے۔ وہ جتنا بھی قابل ہو، سرتوڑ محنت بھی کر لے مگر کسی وزیر کے پاس کرشماتی طاقت نہیں ہوتی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں