محترم چچا جان! آداب۔ دل تو چاہتا تھا کہ آپ کو السلام علیکم کہوں۔ اس لئے کہ مجھے، ہائے یا ہیلو کہنے کی عادت نہیں۔ السلام علیکم اس لئے نہیں کہا کہ آپ اسے ایک پاکستانی کی شدت پسندی پر محمول نہ کر لیں۔ ویسے بھی مجھے آپ کی سلامتی بارے فکر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کا انتظام آپ بخوبی کر سکتے ہیں۔ مگر خیر، ہمارے ہاں آداب کہنا یا آداب بجا لانا بھی اچھی تہذیب کی علامت ہے۔
انکل سام! میرے پہلے خط میں منٹو کا بہت ذکر تھا۔ وہ کبھی امریکہ نہ آیا اور نہ کبھی آپ نے اُسے اپنے ہاں بلایا۔ وہ یہاں آتا تو اُس کی غلط فہمی دُور ہو جاتی۔ اِسی غلط فہمی کی بنیاد پر اُس نے آپ کے لئے افسانے نہیں لکھے۔ اُس کا بھی قصور نہیں، اُسے ایک افسانہ لکھنے کے چالیس پچاس روپے ملتے تھے اور آپ کے نمائندے نے پانچ سو روپے کی پیش کش کر دی۔ حساس لکھاری تھا۔ سمجھا کہ اُسے خریدا جا رہا ہے۔ بدک گیا۔ اُسے پتا نہ تھا کہ آپ کے ہاں اہل قلم کی قدر کی جاتی ہے۔ اُنہیں بھوک سے مارا نہیں جاتا۔ آپ کے ملک میں دولت زیادہ ہے، محنت کا معاوضہ بھی اُسی لحاظ سے ملتا ہے۔
انکل سام! ہو سکے تو منٹو کو معاف فرما دیں۔ بہت بڑا افسانہ نگار تھا۔ اور اُس کی دیوانگی میں فرزانگی تھی۔ اُسے الہام ہوتا تھا یا اُس کی نظر بہت دُور رس تھی۔ ہمیشہ دُور کی کوڑی لاتا تھا۔ اُسے علم تھا کہ انگریزوں کی عالمی طاقت کا سورج غروب ہو رہا ہے اور آئندہ کرۂ ارض پر صرف آپ کا طوطی بولے گا۔ اُس کے ایک خط کا ذکر کروں جو اُس نے آپ کو پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرنے پر لکھا۔ وہ اظہارِ مسرت کرتے ہوئے لکھتا ہے ''ہمارے ساتھ فوجی امداد کا معاہدہ بڑے معرکے کی چیز ہے، اس پر قائم رہئے گا۔‘‘ پھر وہ آپ کو مشورہ دیتے ہوئے کہتا ہے ''اُدھر ہندوستان کے ساتھ بھی ایسا ہی رشتہ استوار کر لیجئے۔ دونوں کو پرانے ہتھیار بھیجئے کیونکہ اب تو آپ نے وہ تمام ہتھیار کنڈم کر دیئے ہوں گے جو آپ نے پچھلی جنگ میں استعمال کئے تھے۔ آپ کا فالتو اسلحہ ٹھکانے لگ جائے گا اور آپ کے کارخانے بھی بیکار نہیں رہیں گے۔‘‘
منٹو کو خبر تھی کہ ہندوستان اور پاکستان کی دشمنی آپ کے لئے، دونوں کو خوش رکھنے کا بہترین موقع پیدا کرے گی۔ آپ سے بہتر اور کون جانتا تھا کہ دونوں ملکوں کی قیادت کا معیار اتنا پست ہے کہ اُن کے لیڈر مانگے تانگے ہتھیار لے کر اِتراتے پھریں گے اور پھر غریبوں سے جمع کئے ہوئے ٹیکس کی رقم عوام پر خرچ کرنے کے بجائے غیر ملکی اسلحے کی منڈی بن جائیں گے۔
انکل سام! ویسے تو آپ کو ہر بات کا علم ہے مگر آج میں آپ کو راز دان بنا کر ایک بات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔ ہم جس خطے میں رہتے ہیں اُس میں کوہ ہندوکش سے لے کر بنگال کی کھاڑی تک جو قومیں بستی ہیں اُن میں بحیثیت مجموعی، عقل کی شدید کمی ہے۔ آپ اِسے کرۂ ارض کا ''کوچۂ بے عقلاں‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی میں عیاری اور قومی حمیت سے غداری ہمارے ڈی این اے کا حصہ ہے۔ دربار کی ریشہ دوانیاں ہوں یا میدانِ کارزار، جنگ میں شیوا جی کا طرزِ عمل ہو یا ابراہیم لودھی کے حلیفوں کا کردار، سازش کی بُو چاروں طرف محسوس ہوتی ہے۔ رام چندر جی کے بن باس سے شروع ہونے والی داستانوں میں بھائیوں، رشتہ داروں اور بااعتماد دوستوں کے درمیان، میر جعفر اور میر صادق جیسے لوگوں کی کمی نظر نہیں آتی۔ تخت و تاج کے لئے نیک نام اور خدا ترس بادشاہوں نے بھائیوں کے گلے کاٹے اور والدین سے جو شرم ناک سلوک کیا، دنیا میں اُس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ پتا نہیں تاج محل بنا کر ''غریبوں کی محبت کا مذاق‘‘ اڑانا مقصود تھا یا نہیں، مگر ہماری تاریخ میں کسی راجے مہاراجے، بادشاہ، شہنشاہ یا کسی دوسرے حکمران نے عوام کی فلاح و بہبود کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ اِس کے باوجود وہ ہمارے ہیرو ہیں۔
انکل سام! آپ کو پورے برِصغیر میں عالی شان عبادت گاہیں، مضبوط قلعے، خوبصورت محل اور یاد گار مقبرے ہی نظر آئیں گے۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے حکمران ایک طرف اپنے جاہ و جلال کی عکاسی چاہتے تھے، دوسری طرف عوام کو یہ گمراہ کُن تاثر دیتے تھے کہ اُنہیں مذہب سے بہت لگائو ہے۔
انکل! تاریخ بہت بے رحم ہے۔ وہ سب کچھ کھول کر رکھ دیتی ہے۔ جب دہلی میں خاندان غلاماں کا قابلِ فخر سپوت، قطب الدین ایبک، قطب مینار کی تعمیر کروا رہا تھا تو انگلستان میں کیمبرج یونیورسٹی بن چکی تھی اور آکسفورڈ یونیورسٹی بنانے کی تیاریاں جاری تھیں۔ اگر اُسے حصولِ علم سے محبت ہوتی تو اُسے بھی درس گاہ بنانے کا خیال آتا مگر اُسے سطوتِ شاہی کا نشان زیادہ عزیز تھا۔
انکل! ہمارے ہندوستان میں دینی مدارس بھی بنائے گئے مگر وہاں بھی تحقیق و تدریس اور دوسرے دنیاوی علوم کے لیے دروازے بند رکھے گئے۔ پاٹھ شالہ، مندروں اور گردواروں کے بارے میں میری معلومات محدود ہیں۔ مگر یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان اداروں نے رواداری، انسانیت اور وُسعت خیال کی ترویج کے بجائے گروہی مفادات کو آگے بڑھایا۔ دوسری طرف اگر ہمارے بعض علما نے کسی حدیث پر عمل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تو وہ حصولِ علم سے متعلق ہے۔ اسلام میں تو حکم دیا گیا تھا کہ علم حاصل کرنے کے لئے چین بھی جانا پڑے تو جائو۔ مگر ہمارے علماء نے دنیاوی علوم سیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ آپ کو تو علم ہے کہ چین جانے کا مقصد دین کی تعلیم حاصل کرنے سے نہیں بلکہ دنیاوی علوم سیکھنے سے ہے۔
انکل سام! ہارورڈ یونیورسٹی آپ کے ملک کی شان ہے۔ دنیا بھر میں درس گاہ کے طور پر اُسے اولین درجہ دیا جاتا ہے۔ پاکستان 1947ء میں بنا۔ اُس وقت سے لے کر اب تک ہمارے ملک سے تعلق رکھنے والے صرف ایک اہلِ علم نے نوبل انعام جیتا مگر ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والے 45 اہلِ علم، نوبل انعام جیت چکے ہیں۔ مگر انکل، پاکستان میں بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ اس یونیورسٹی کو شروع کرنے والا، مسٹر ہارورڈ ایک پادری تھا۔ اُس نے گرجا گھر میں اِس یونیورسٹی کو شروع کیا۔ وہ عیسائی مذہب کا مبلغ تھا اور اس درس گاہ کو بنانے میں اُس کا مقصد تھا کہ مذہب کی تبلیغ کرنے والوں کو علم کی روشنی سے مالا مال ہونا چاہیے۔ گرجا گھر سے شروع ہونے والے اِس ادارے کے بورڈ کی اولین میٹنگ میں جو مقصد بیان کیا گیا وہ برِصغیر کے مذہبی رہنمائوں کے لئے چشم کشا الفاظ کا مجموعہ ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے مستقبل کے بارے میں اُن کی خواہش کا اظہار اِن الفاظ میں لکھا ہے ''جب ہم نے امریکہ میں سویلین حکومت قائم کر لی ہے اور خدا کی عبادت کے لئے مناسب بندوبست ہو چکا ہے تو ایک کام، جس کی ہم سب خواہش رکھتے ہیں اور اِس ضمن میں پیش رفت کر چکے ہیں، علم کا حصول ہے۔ اُسے ابد تک قائم رکھنے کی تمنّا ہے‘ کیونکہ ہمیں یہ خوف ہے کہ کہیں گرجا گھروں میں کم علم پادری براجمان نہ ہو جائیں۔
انکل سام! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں آپ کے ساتھ پاک و ہند کے تاریخی المیے لے کر بیٹھ گیا ہوں۔ آپ کے ملک آیا ہوں۔ سیروتفریح کروں، آپ کی عظمت کے گن گائوں اور ہالی وڈ کی فلمیں دیکھوں۔ مگر انکل، جس بات نے مجھے یہ خط لکھنے پر مجبور کیا وہ آپ کے نئے صدر کا عزم ہے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ وہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تمام تنازعات طے کروانا چاہتے ہیں۔ نئے صدر کی پالیسیوں کو بہت لوگ پسند نہیں کرتے، مگر صدر ٹرمپ کو اِس بات کا احساس ہے کہ پاک و ہند کے لوگ اپنے معاملات خود حل نہیں کر سکتے۔ ایسے ملکوں کو اپنے فائدے کی بات سمجھنے کے لئے بھی بیرونی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔
انکل سام! اگر ہم میں تھوڑی سی سوجھ بوجھ ہوتی تو کیا ہم اپنے مسائل حل کر کے اچھے ہمسائیوں کی طرح نہ رہتے۔ ہمارے ہاں کتنے لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ کتنے کروڑ انسان لکھ پڑھ نہیں سکتے۔ اکثر لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہیں اور رات کو فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں۔ کتنے گھرانوں میں معاشی بدحالی کی وجہ سے، جھگڑے خودکشیوں میں بدل جاتے ہیں۔
آپ کے نئے صدرکا بیان بہت خوش آئند ہے۔ ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ اللہ بے نیاز ہے۔ وہ اپنے بندوں کی بخشش کے لئے نئی نئی راہیں نکال کر اُنہیں مواقع فراہم کرتا ہے۔ کیا معلوم صدر ٹرمپ کی کون سی ادا پسند آئی کہ اللہ نے اُن کے دل میں یہ نیک خیال ڈال دیا۔ مجھے تو خوش گمانی ہے کہ روزِ محشر صدر ٹرمپ کی بخشش کے لئے قدرت نے یہ راہ دکھائی ہے۔ ہماری مخلصانہ دُعا ہے کہ وہ کامیاب ہوں۔ اگر وہ اِس کوشش میں سر خرو ہوئے تو ہم انکل سام کے ساتھ صدر ٹرمپ زندہ باد کا نعرہ لگائیں گے۔