چوہدری نثار نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے ساتھ اپنے تعلق پر میڈیا میں اظہار خیال کیا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ وہ پارٹی کے قائد کو خوش کرنے کے لئے اُن کے فیصلوں کی تعریف نہیں کرتے۔ اپنے لیڈر کو حالات کی صحیح تصویر دکھاتے ہیں اور یہی قیادت کے ساتھ وفاداری کا تقاضا ہے۔
شاید چوہدری نثار کا مقصد صرف اپنی شخصیت کے کھرے پن اور نواز شریف سے تعلق میں خلوصِ نیت کا اظہار ہو مگر یہ تاثر دے گئے کہ نواز شریف کے قریبی مصاحبین خوشامدی ہیں، اپنے قائد کو حقائق سے باخبر نہیں رکھتے، اور اُن کی وجہ سے نواز شریف نے اداروں کے ساتھ مخاصمت کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔
پاکستان میں خوشامد کا کلچر عام ہے، اسی لئے تعریف اور خوشامد کی حد بندی مشکل ہو گئی ہے۔ خاص طور پر جب انسان کی انا تسکین حاصل کر رہی ہو تو خیال ہی نہیں رہتا کہ کب اور کہاں جائز اور ناجائز کی درمیانی لکیر پار ہو چکی ہے۔ باہمی ربط و تعلق میں مبالغہ آرائی ہمارے مزاج کا حصہ ہے۔ مگر سارا قصور ہمارا نہیں، ہماری تہذیب اور تمدن کی بنیاد اپنے قائد کے ادب و احترام پر استوار کی گئی ہے۔ انگریزی زبان میں ہر چھوٹے بڑے کے لئے صرف یو (you) کا لفظ ہے جس کا متبادل اُردو زبان میں ''تم‘‘ ہے۔ مگر ہماری زبان کا دامن بہت وسیع ہے۔ آپ، جناب سے شروع ہونے والا طرزِ تخاطب، محترم اور مکرم کی سیڑھی چڑھتا ہوا، قبلہ اور کعبہ پر ختم ہوتا ہے۔ ہم بزرگوں کے سامنے نظر نیچی رکھتے ہیں اور احتراماً اُن کے گھٹنے چھوتے ہیں۔
جب زبان اور تہذیب ایک آڑ فراہم کریں تو چاپلوسی آسان ہو جاتی ہے۔ اقتدار کی شمع کہیں بھی فروزاں ہو اُس کی کشش خود غرض پروانوں کو کھینچ لاتی ہے۔ ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ 1980ء کی دہائی میں نواز شریف چیف منسٹر پنجاب تھے۔ ہیلی کاپٹر میں سفر کے دوران اُن کے ساتھ دو ایسے ممبران اسمبلی بھی تھے‘{ جو دل لبھانے کے فن میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ دونوں اِس تاک میں تھے کہ چیف منسٹر کی خوشنودی حاصل کی جائے۔ دوران سفر نواز شریف کھڑکی سے باہر دیکھتے رہے۔ سفر ختم ہوا تو سب ریسٹ ہائوس میں چائے پینے کے لئے رکے۔ اُن دنوں پنجاب حکومت کی توجہ کھیت سے منڈی تک سڑکوں پر تھی اور نواز شریف اس پر بہت فخر کرتے تھے۔ اُن میں سے ایک نے نواز شریف کا نئی بنی ہوئی سڑکوں سے عشق بھانپتے ہوئے کہا ''سر! آپ کے دورِ حکومت میں پنجاب میں اتنے ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے ہیں کہ شیر شاہ سوری کے بعد اب تک نہ ہوئے ہوں گے۔‘‘ دروغ برگردن راوی۔ نواز شریف اس مبالغہ آرائی پر خوش ہوئے اور پھر دوسرے فن کار کی طرف دیکھ کر کہا ''آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ دوسرے نے بے ساختہ کہا ''سر! اس نے بڑی بیوقوفانہ بات کی ہے۔ کہاں آپ کی شاندار کارکردگی اور کہاں شیر شاہ سوری۔ مجھے کہنے کی اجازت دیجئے کہ طوفان نوح کے بعد اگر پنجاب میں ترقی ہوئی ہے تو آپ کے دور میں‘‘۔ نواز شریف کھل کر ہنسے اور طوفانِ نوح کی مثال دینے والے ممبر اسمبلی سے کہا ''آپ نے میچ جیت لیا ہے‘‘۔
اِس بات کو تقریباً تیس سال گزر چکے ہیں۔ اِس دوران نواز شریف تین دفعہ وزیر اعظم بنے اور تین دفعہ مسند اقتدار سے اُتارے گئے۔ تلخ تجربات نے اُن کی حسِ مزاح کو متاثر کرنے کے ساتھ سنجیدگی میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ مگر سنا ہے کہ اب بھی اُن کی سیاسی ساتھیوں سے ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوتی ہے اور گفتگو میں ہلکی پھلکی لطیفہ گوئی کی حوصلہ شکنی نہیں ہوتی۔ وہ خوشامد کرنے والے کو نہیں روکتے‘ اُسے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کی پوری آزادی ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستانی کے سماجی تناظر میں، کیا ایسا طرزِ عمل سیاسی ضرورت ہے؟ ملکی سیاست میں قائد اور پارٹی کے دیگر اکابرین کا باہمی تعلق، وفاداری کے وعدوں پر استوار ہوتا ہے۔ بار بار مکمل وابستگی کا اعلان، اٹوٹ بندھن کا ذکر اور پرانے تعلق کا نبھاہ، ان سب کا اعادہ ہوتا ہے۔ اِس عمل میں چاپلوسی کا رنگ نمایاں ہو جاتا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس طرح کے مکالمے سے باہمی اپنائیت کا احساس بڑھتا ہے۔ پنجاب اور سندھ کے دیہاتی تمدن سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے باہمی روابط میں یہ طریقہ کار ذاتی تعلق کو مضبوط کرتا ہے۔ تعریف ہر کسی کو بھاتی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے بھی کہا تھا۔
سو کام نکلتے ہیں خوشامد سے جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندہ
اقتدار کی دیوی آپ پر مہربان ہو تو ہر کوئی اپنے طریقے سے تعریف یا خوشامد کرتا ہے۔ کچھ صاحبِ اقتدار اسے زیادہ پسند کرتے ہیں اور کچھ کم۔ اگر اندازہ لگانا ہو کہ کسی سیاسی لیڈر کے لئے تعریف و توصیف کتنی کشش رکھتی ہے تو اُس لیڈر کا اپنی ذات کے بارے میں تصور یا سیلف امیج (self image) دیکھیں۔ اپنے ہم عصر سیاست دانوں کے مقابلے میں نواز شریف کی سیاست کا ابتدائی دور عاجزی اور انکساری کا زمانہ تھا۔ وہ خوشامد کرنے اور سننے کے عادی نہیں تھے۔ جب پنجاب کے وزیر خزانہ بنے تو تقریر کرنے سے بہت گھبراتے تھے۔ پنجاب میں وزارت خزانہ کا قلم دان سنبھالنے کے بعد اُنہوں نے سیاسی خاندانوں سے اپنا ذاتی تعلق قائم کیا۔ اُن کے قریبی لوگ بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے بڑی محنت سے ہر سیاست دان کا نام اور اُس کے خاندان کے بارے میں معلومات حاصل کرکے اپنی یادداشت میں محفوظ کر لیں۔ پھر ضیاء الحق نے مارچ 1985ء میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے غیر جماعتی الیکشن کروائے۔ ہر کوئی ذاتی حیثیت سے الیکشن جیت کر اسمبلی میں پہنچا۔ اُن ممبران اسمبلی کو قابو میں رکھنے کے لئے نواز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ ہر ایک کے ساتھ اپنا ذاتی تعلق قائم کیا۔ اُنہوں نے سوچ سمجھ کر دیہی کلچر کے مطابق ممبران اسمبلی کے ساتھ رابطہ رکھا۔ چند سالوں میں اُنہوں نے اِس کام میں اتنی مہارت حاصل کر لی کہ جو مقتدر حلقے اُنہیں اقتدار میں لائے تھے اُن کے خلاف بغاوت کرکے وہ عوامی سیاست کرنے لگے اور آج تک اِس پر قائم ہیں۔
پاکستان میں بوجوہ سیاسی حکومت کبھی مستحکم نہیں رہی۔ جلد یا بدیر غیر سیاسی طوفان ٹھہرے پانیوں میں ہلچل مچا دیتے ہیں۔ سیاسی اثاثے دریا برد ہونے لگیں اور مرکزی کردار کو قومی تھیٹر سے فیڈ آئوٹ ہونے کا حکم ملے تو ملک میں سیاست کا مستقبل غیر یقینی ہو جاتا ہے۔ جنہیں حساس معلومات تک رسائی ہونے کا دعویٰ ہے، اُن تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ نواز شریف کی نااہلی کے فوراً بعد پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔ بیشتر ممبران اسمبلی اپنے دھڑے بنا لیں گے۔ ایسا نہیں ہوا کیونکہ جو ممبران اسمبلی آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ وہ ایک طرف پارٹی قائد کے ساتھ اپنے مراسم کو اہمیت دیتے ہیں اور دوسری طرف اندازہ لگاتے ہیں کہ قائد کی قومی مقبولیت اُنہیں کتنے ووٹ دلوائے گی۔ نواز شریف پہلے مرحلے میں کامیاب رہے۔ ممبران نے اُن کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اب دوسرا مرحلہ NA-120 میں الیکشن کا تھا۔ مسلم لیگ(ن) نے نامساعد حالات کے باوجود اس حلقے میں کامیابی حاصل کی۔ اب چوہدری نثار جیسے پُرخلوص مفاہمت پسند کو خدشہ لاحق ہو گا کہ عوامی تائید ملنے پر خوشامدی ٹولہ، نواز شریف کو اداروں سے مخاصمت پر مجبور کر دے گا۔
نواز شریف خوشامد پسند ہیں یا نہیں۔ اِس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ ایک تجربہ کار سیاست دان کی طرح وہ گہرے انسان ہیں اور اپنی مرضی کرتے ہیں۔ تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ کسی بھی سیاست دان کو عزت اور احترام کے ساتھ لحد میں اترنا قبول ہو سکتا ہے مگر رسوائی کی چادر اوڑھ کر سیاسی زندہ درگور ہونا منظور نہیں۔ نواز لیگ کے حامی یہ سمجھتے ہیں کہ اقامہ کے ذریعے ملنے والی رسوائی نہ صرف NA-120 کی پذیرائی میں دُھل گئی بلکہ آئندہ ہونے والے احتسابی عمل کی عوامی قبولیت پر بھی شکوک و شبہات کی بارش برسا گئی۔
نئی صورت حال میں اداروں کے درمیان مخاصمت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس کا علم نہیں مگر ملک کے مستقبل پر اُس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ بے بس عوام تو صرف ووٹ کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں یا گھر بیٹھے ملک کے لئے دُعا کر سکتے ہیں۔