راقم الحروف پیارے ملک پاکستان سے دور ایک دوسرے ملک کا عارضی رہائشی ہے - پردیس میں رہ کر واپسی کے دن گننا اور وطن عزیز میں آ کر وقت کے بے رحم چابک سہنا کہ دن رات کی رفتار ایک دم سے نہ جانے کیوں بڑھ جاتی ہے ،ایک معمول کی مشقت ہے - سچ کہتے ہیں کہ وقت کا تصور انسان کے جذبات و کیفیات سے براہ راست متعلق ہے - نیند کی وادیوں میں کھوئے ایک فرد کے لئے وقت کا تجربہ یقینا اس دوسرے فرد سے مختلف ہے جو اپنی معشوقہ کا اس امید و ناامیدی کی کشمکش میں منتظر ہے کہ جانے وہ آئے گی بھی یا نہیں اور اگر آئے گی بھی تو وصل کی اس انمول گھڑی کے انتظار میں اور کتنے جام الٹے جائیں گے ؟ع
مجھے چھیڑنے کو ساقی نے دیا جو جام الٹا
یہی کیفیت اور تجربہ دیار غیر میں رہنے والے تقریبا ہر فرد کو ہوتا ہے جو اپنا وجود کسی دوسرے مسکن میں لئے گھومتا ہے مگر اس کا دل اور دھیان اپنی جنم بھومی اور یار بیلیوں کے ساتھ بیتے سہانے لمحات کا طواف کررہے ہوتے ہیں۔
تین ہفتوں کے اس قیام کے دوران راقم کو تین یونیورسٹیوں، ایک کالج ، اور دو سول سوسائٹی کے فورمز میں تفصیل سے بات چیت کا موقع ملا - گفتگو میں بھی تنوع رہا - اگر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں مخاطب پی ایچ ڈی کے سکالرز تھے جن کا تعلق زبان و ادب کی جمالیات سے تھا تو ملتان سے ایک طویل مسافت پر قائم گجرات یونیورسٹی کے طلباء سے کارجوئی (Entrepreneurship)کے موضوع پر بات چیت ہوئی -سول سوسائٹی کے فورمز میں گفتگو کا موضوع عموماً جمہوریت اور شہریت کا حق انتخاب رہا۔
جس چیز نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا وہ تھی طلباء کا پورے انہماک سے مکمل بات سننا اور گہرے سوالات کی صورت میں مثبت فیڈ بیک دینا۔ یقینا علم کے سفر میں تشکیک اور سوالات اٹھانا ہی تلاش حق کی مؤثر راہبری اور رہنمائی ہے - سنجیدہ و ذہین سوالات اٹھانے والے
افراد ہی انسانیت کے محسن ہیں کیونکہ ان کی اس تعمیری جستجو کا نتیجہ ہمیشہ انسانیت کے بہترین مستقبل کے امکانات کی تسخیر ہوتا ہے۔ جس دور میں ہم رہتے ہیں یہ تخلیقی تنقید‘ دریافتوں اور ایجادات کا دور ہے۔ پیداواری عمل کو سب انسانی سرگرمیوں پر اس لئے سبقت حاصل ہے کہ ان سرگرمیوں کا مقصود ہی انسانوں کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ آسانی اور سہولیات بہم پہنچانا ہے۔ انسانیت کی بقا اور خوشحالی کا براہ راست تعلق ہماری انفرادی اور مجموعی پیداواری سرگرمیوں پر ہے۔ زرعی عہد نے پتھر کے عہد پر غلبہ پایا ، ہم نے زراعت کی سائنس و ٹیکنالوجی دریافت کی۔ آج ہم ان لوگوں کے نام نہیں جانتے جنہوں نے زراعت کی سائنس دریافت کی اور اس کے پھلنے پھولنے میں مرکزی کردار ادا کیا - حقیقت یہ ہے کہ وہ نسل انسانی کے اولین محسنوں میں سے تھے جن کی بدولت نسل انسانی اپنی بقا کی جدوجہد میں کامیاب ہوئی تب ہم اس قابل ہوئے کہ اپنی محنت بوئیں اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی برقرار رکھتے ہوئے اس کے ثمر پائیں۔
جب پتھر کا عہد پایا جاتا تھا تو وہ اپنے ساتھ اپنی مخصوص ثقافت بھی رکھتا تھا جب ہم انسان زرعی پیداواری عمل میں آئے تو اس عہدنے پتھر کے عہد کی ثقافت و اقدار کو ایک مسلسل ارتقائی عمل سے مٹا دیا اور اس کی جگہ اپنی ایک مخصوص ثقافت اور بنیادی اقدار کی اسطور (myth)کو بنیاد دی ۔ آج ہم صنعتی عہد میں رہتے ہیں جس کا آغاز صنعتی انقلاب سے ہوا اس انقلاب کا بھی ہمارے ارتقائی عمل پر اسی طرح کا اثر ہے جس طرح کا اثر ہم نے پتھر کے عہد سے زرعی عہد میں منتقلی سے بدلتی ہوئی ثقافتوں میں دیکھا اس نئے عہد نے بھی نئی ثقافت اور نئی اسطور کو جنم دیا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ ثقافت اور اخلاقیات بھی مادی اسباب کا نتیجہ ہوتی ہیں اور ہم اپنی انفرادی و اجتماعی اخلاقیات اس وقت تک بہتر نہیں بنا سکتے جب تک کہ ہمارے مادی حالات خوشحالی و کامرانی کی صورت میں نہیں بدل جاتے دور حاضر میں ہم مغربی سماج کی انسان دوستی اور بہترین اخلاقیات کے معترف ہیں سوال یہ ہے کہ کیا ان اقوام کی اخلاقی برتری ان کی معاشی ترقی سے قبل بھی پائی جاتی تھی ؟ تو جواب ملے گا نہیں مثال کے طور پر اٹھارویں صدی میں برطانیہ کی بیوروکریسی کو دنیا کی کرپٹ بیوروکریسی سمجھا جاتا تھا جبکہ انیسویں صدی میں یہی بیوروکریسی دنیا کی بہترین اور ایماندار بیوروکریسی قرار پائی - صنعتی انقلاب کے بھی بہت سارے گوشے ابھی تک تاریخ کے رازوں میں دفن ہیں اب بھی اس موضوع میں بہت سارے ابہام ہیں کہ آخر یہ انقلاب برطانیہ میں کیوں برپا ہوا جب کہ اس وقت دنیا کی کل پیداوار پر چین کو سبقت حاصل تھی ؟ یہ انقلاب ہندوستان میں کیوں نہ آیا جب کہ یہاں بھی کپڑا سازی کی صنعتیں قائم تھیں ؟ معاشی تاریخ کے ماہرین اس کے بہت سارے اسباب بتاتے ہیں جو یقینا قابل غور ہیں اسباب کی اس بحث میں یقینا اختلافات موجود ہیں مگر یہ بات ناقابل تردید ہے کہ دور جدید صنعتی پیداوار اور تمدن کا عہد ہے ۔
ہماری درس گاہوں کا بنیادی فریضہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنے عہد کو ایک تاریخی و ارتقائی تناظر میں سمجھیں اس کی ہیئت و نفسیات کا بنیادی علم حاصل کریں تنقیدی ذوق سے ہمارا طالب علم موجزن ہو تاکہ ہم انسانیت کے مشترکہ سرمایہ علم و خوشحالی میں اپنا تعمیری حصہ ڈال سکیں آج سے پچاس سال پہلے بقول آکسفورڈ یونیورسٹی کے معیشت دان Paul Collier دنیا کی پانچ ارب آبادی میں چار ارب انسان غربت کی چکی میں پس رہے تھے جبکہ آج سات ارب کی آبادی میں ان کی تعداد محض 9.6 فیصد ہے (ورلڈ بنک ) ہمارا طالب علم خوشحالی و کامیابی کی اس سائنس کو سمجھتا ہو کہ آخر اتنی بڑی آبادی غربت کے شکنجے سے کیسے نکلی- ضروری ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں کہ دنیا سے ہم پیچھے کیوں رہ گئے ہیں؟ وہ کون سے اسباب ہیں جن کی بدولت ہماری ایک تہائی آبادی ہنوز غربت و پسماندگی کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے ؟ یہ محض ہماری درس گاہوں کا فریضہ نہیں بلکہ ہم سب کو ان سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے مگر ہمارے تعلیمی اداروں کا تو یہی مقصد و جواز ہے ضروری ہے کہ ہم اپنے تعلیمی بیانیہ کا بھی محاسبہ کریں کہ کہیں ہم اپنے نصاب میں یا اساتذہ کے لیکچرز میں مایوسی و قنوطیت کی تعلیم تو نہیں دے رہے کیونکہ قیام پاکستان سے ہی ہمارا دانشورانہ مزاج ملکی و بین الملکی مسائل کے تجزیہ میں مزاحمت احتجاج انقلاب تحریک اور نفرت کی نفسیات کا اسیر رہا ہے اور ہم ناکام رہے ہیں کہ دنیائے علم و دانائی کا بامقصد اور تخلیقی مطالعہ کریں اور اس میں اپنا تعمیری حصہ ڈالیں اس نفسیات کو بدلنا ہو گا وگرنہ نم مٹی اور زرخیر زمین کے باذوق ساقی اس بنجر پن سے نہ نکل پائیں گے ۔
راقم الحروف بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو سمجھتے ہیں کہ ہمارے تعلیم اداروں کی خستہ حالی کی بنیادی وجہ ہمارے نااہل طلباء ہیں یہ مٹی ابھی نرم نہیں زمین بنجر ہے اور ساقی ان بدذوقیوں کے سبب مایوس ہیں اور یہ ملک چھوڑ کر پرائے دیس میں علم کی شجر کاری کرنا چاہتے ہیں مگر میرے حالیہ مشاہدہ کے نتائج ذرا مختلف ہیں جب میں نے طلباء کو توجہ اور دلچسپی سے بات سنتے دیکھا اور سوال و جواب کی ایک طویل نشست میں انتہائی متاثر کن سوالات سنے تو مجبور ہوا ہوں کہ اپنے سابقہ فہم پر نظر ثانی کروں - میں حیران رہ گیا جب ماسٹر کی ایک سٹوڈنٹ نے گورنمنٹ سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر کی ہیئت پر سوال اٹھایا اور پوچھا کہ وسائل کی تخلیقی تفویض کو ہمارے دانشورانہ مکالمہ میں کیوں زیر بحث نہیں لایا جاتا ؟ معاشی فلسفہ کا یہ یقینا انتہائی اہم سوال ہے جو بدقسمتی سے ہمارے دانشوروں کے ذوق و شوق کا منتظر ہے کہ پاکستان میں جاری معاشیات کی بحث میں اس کے اطمینان بخش جواب کی جستجو کریں ۔
مسائل کے اسباب پر تفصیل سے غور کرنے کی ضرورت ہے ایک مسئلہ جس پر میں نے گزشتہ کالم میں بات کی تھی یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام معاشی مواقع و ترقی سے مربوط نہیں ہے دوسرا ہم تعلیمی نصاب کی صورت میں طلباء کے ذہن میں جو بیج بو رہے ہیں وہ تنقیدی و تخلیقی شعور سے عاری ہے دیکھئے ٹیکسٹ بکس کا تعلیمی نظام میں یقینا ایک اہم کردار ہے جس کا مقصود زیر مطالعہ موضوع سے متعلق تمام اہم علمی مواد کا مختصر تعارف کروانا ہوتا ہے مگر جب اساتذہ بھی خود کو ٹیکسٹ بکس تک محدود کر لیں اور تحقیق و تنقید کی مشقتوں سے احتراز برتیں تو تصور کیا جا سکتا ہے کہ کلاس روم میں کس طرز کا مکالمہ رواج پاتا ہو گا سوم: زیر غور سوال یہ بھی ہے کہ ہمارے طالب علم تو سوالات اٹھاتے ہیں مگرانہیں جواب میں کیا ملتا ہے ؟ کیا سوالات اٹھانے کی مزید ترغیب اور تخلیقی جستجو ملتی ہے ؟ کیا ان کے لئے سوالات اٹھانے کی یہ مشقت مفید بھی رہتی ہے ؟کیا جواب میں انہیں معقول جواب بھی ملتا ہے یا خود ساختہ مفروضے سازشی نظریات اور انقلابی افسانے سننے کو ملتے ہیں ؟ یہ اور دیگر مسائل صرف اس وقت حل ہو سکتے ہیں جب ہم خود تعلیم کو ایک ذہین و سنجیدہ سائنس سمجھیں گے اور تعلیمی اداروں میں مکالمہ مواقع اور امکانات کی تسخیر کی آزادی دیں گے مسئلہ ہمارے طلباء میں نہیں مسائل اس ثقافت میں ہیں جس کا طلباء کو سامنا ہوتا ہے ہمیں ان مسائل کو حل کرنا ہے اور آگے بڑھنا ہے تاکہ ہم سب خوشحال و کامیاب ہوں ۔