قیمتی سرکاری زمین کوڑیوں کے مول بیچنے کا انکشاف
کراچی (رپورٹ:آغا طارق) کراچی میں 20 ارب روپے مالیت کی قیمتی سرکاری زمین کو غیر قانونی طور پر صرف 62 کروڑ روپے میں دینے کا انکشاف کے بعد سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کی سربراہی میں بورڈ آف ریونیو کے فل بورڈ کی عدالت نے 15 ایکڑ متنازع زمین کی غیرقانونی الاٹمنٹ کو منسوخ کر دیا۔
یہ زمین سابقہ لینڈ یوٹیلائزیشن کے ممبران نے بلڈرز کو حوالے کی تھی۔ تفصیلات کے مطابق کراچی میں اربوں روپے مالیت کی سرکاری زمینوں کی سسٹم کے نیٹ ورک کے ذریعے غیرقانونی الاٹمنٹ کا سلسلہ جاری ہے ۔ بورڈ آف ریونیو کے فل بورڈ کی عدالت نے ضلع شرقی کے ڈی سی کی جانب سے لینڈ یوٹیلائزیشن کے سابقہ ممبر شمس الدین سومرو کی کی گئی الاٹمنٹ کے خلاف دائر اپیل منظور کرتے ہوئے آرڈر جاری کر دیا ہے ۔ اس فیصلے کے مطابق 2018 اور 2022 میں جاری کردہ نوٹیفکیشنز کے تحت غیرقانونی طور پر الاٹ کی گئی 15 ایکڑ قیمتی زمین کی الاٹمنٹ غیرقانونی قرار دی گئی ہے ۔ اس لیے ریونیو ریکارڈ میں زمین کی ملکیت سے متعلق تمام اندراجات منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ فل بورڈ کی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ چونکہ یہ زمین کمرشل ایریا میں واقع ہے ، اس لیے یہ صرف نیلامی کے ذریعے فروخت کی جا سکتی تھی، لیکن اسے غیرقانونی طریقے سے انتہائی کم قیمت پر الاٹ کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے 2010 میں از خود نوٹس لیتے ہوئے قیمتی زمین کم قیمت پر دینے کے خلاف حکم جاری کیا تھا، جس کے تحت سندھ حکومت کو ہدایت دی گئی تھی کہ بورڈ آف ریونیو کے سابق کنسلٹنٹ نظر محمد لغاری کی رپورٹ کی روشنی میں کارروائی کی جائے ۔ لیکن اس کے باوجود دوبارہ زمین الاٹ کر دی گئی۔ لینڈ یوٹیلائزیشن ڈپارٹمنٹ کے افسران نے سپریم کورٹ کے احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے شہر کے وسط میں موجود سرکاری زمین کو صنعتی مقاصد کے لیے سمری کے ذریعے پیش کیا، اور پھر اس سمری میں جعلسازی کرتے ہوئے صنعتی کا لفظ حذف کر کے اس میں کمرشل اور رہائشی مقاصد کے الفاظ شامل کیے گئے ۔ حالانکہ یہ سرکاری زمین نیلامی کے بغیر کمرشل مقاصد کے لیے دی ہی نہیں جا سکتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود تقریباً 20 سے 25 ارب روپے مالیت کی سرکاری زمین کو انتہائی کم قیمت پر دے دیا گیا، جس کے بعد اس زمین پر رہائشی اور کمرشل پراجیکٹس پر کام بھی شروع ہو چکا ہے ۔