طالبان وعدے پورے کریں، مخلوط حکومت بنائی جائے : 3 دہشتگرد گروپ اب بھی افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال کر رہے ہیں: عمران خان

طالبان وعدے پورے کریں، مخلوط حکومت بنائی جائے : 3 دہشتگرد گروپ اب بھی افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال کر رہے ہیں: عمران خان

طالبان کوبدنام کرنیکی کوششیں مسترد کریں، پنج شیر کا حل چاہتے ،پاکستان پشتون، تاجکستان تاجکوں پر اثرورسوخ استعمال کریگا،ایس سی او اجلاس سے خطاب،معاہدوں پر دستخط

دوشنبے ، اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک، وقائع نگار) وزیراعظم عمران خان نے کہا افغانستان کو تنہا چھوڑا تو مختلف بحران جنم لیں گے ،دنیا حقیقت تسلیم کرے ، 40سالہ جنگ کے خاتمے کا نادرموقع ہے ،طالبان بھی وعدے پورے کریں ، مخلوط حکومت بنائی جائے 3 دہشتگرد گروپ اب بھی افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال کررہے ہیں ،پچھلی حکومت 75فیصد امداد پر چل رہی تھی، بندش معاشی تباہی لائے گی،منجمد اثاثوں کی بحالی صحیح سمت میں اقدام ہوگا ، ان خیالات کا اظہار انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کے 20 ویں سربراہی اجلاس سے خطاب اور تاجکستان کے صدر کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے ۔وزیراعظم نے ایس سی او اجلاس میں کہا طالبان اور ہم سب کے مفاد میں ہے کہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ افغانستان دوبارہ کسی دہشت گرد تنظیم کی محفوظ پناہ گاہ نہ بنے اس سلسلہ میں طالبان کو اپنے وعدوں کی پاسداری کیلئے ہر ضروری قدم اٹھانا ہو گا، افغانستان میں جامع سیاسی ڈھانچے کی تشکیل کا وعدہ بھی پورا کیا جانا چاہیے ، قومی مفاہمت سے ہی امن کو تقویت ملے گی، اسی طرح طالبان کو بدنام کرنے اور داخلی کشیدگی کو ہوا دینے کی کوششوں کو بھی مسترد کیا جانا چاہیے ، بعض کی جانب سے اس طرح کی غیردانشمندانہ سوچ سے چیلنجز حل ہونے کی بجائے مزید گھمبیر ہوں گے ، عالمی برادری کو جنگ زدہ ملک کے عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے ،طالبان کے قبضے اور غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں ایک نئی حقیقت سامنے آئی،یہ سب کچھ خونریزی، خانہ جنگی اور پناہ گزینوں کے بڑے پیمانے پر ہجرت کے بغیر ہوا،بین الاقوامی برادری کے اجتماعی مفاد میں ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغانستان میں دوبارہ کوئی تنازع نہ ہو اور سکیورٹی کی صورتحال مستحکم ہو،انسانی بحران کو روکنا اور معاشی بحران کاحل یکساں طور پر فوری ترجیحات ہیں،ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سابق حکومت غیر ملکی امداد پر بہت زیادہ انحصار کرتی تھی اور اسے ختم کرنا معاشی تباہی کا باعث بن سکتا ہے ،ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ عالمی برادری کی مثبت مصروفیت انتہائی اہم ہے ،افغانستان میں 40 سال سے جاری جنگ کو بالآخر ختم کرنے کا ایک نادر موقع ہے ، اس لمحے کو ضائع نہیں کرنا چاہیے ،افغانستان کو تنہا چھوڑا تو مختلف بحران جنم لیں گے ،پائیدار بین الاقوامی معاونت اور اقتصادی تعاون سے وہاں زندگیاں بچائی جا سکیں گی اور استحکام پیدا ہو گا، افغانستان کے منجمد اثاثوں کو افغان عوام کی بہبود کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دینا بھی صحیح سمت میں قدم ہو گا، وزیر اعظم نے کہا جیسا کہ دنیا نے امریکا میں 11 ستمبر کے حملوں کی 20 ویں برسی منائی وہیں یہ یاد دلایا گیا کہ عالمی برادری کی بہترین کوششوں کے باوجود دہشت گردی کے خطرات اب بھی برقرار ہیں۔پاکستان کئی دہائیوں سے دہشت گردی کی وجہ سے نقصان اٹھا رہا ہے جو سرحد پار سے ریاستی اداروں کی طرف سے منصوبہ بندی، معاونت، مالی اعانت کے ذریعے انجام دی گئی تھی،تنازع زدہ علاقوں سے باہر کسی بھی دوسرے ملک نے پاکستان سے زیادہ نقصان نہیں اٹھایا، ہم نے 80 ہزار سے زائد ہلاکتیں اور 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان اٹھایا ہے ،اس کے باوجود ہمارا عزم مضبوط ہے ، ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں عالمی برادری کے قابل اعتماد اور رضاکار شراکت دار رہیں گے ،بین الاقوامی اور علاقائی امن کیلئے خطرات سے نمٹنا ایس سی او کیلئے اہم دلچسپی کا موضوع ہے ،ہم آزاد اور خودمختار فلسطین کی حمایت کرتے ہیں،مسئلہ کشمیراقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے ،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متنازعہ علاقوں کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات اس مقصد کے خلاف ہیں، ایسے اقدامات کی مذمت اور سختی سے مخالفت کی جانی چاہیے ،انہوں نے کہا افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام بالآخر خطے کو فائدہ پہنچائے گا،حکومت نے اپنی توجہ جیو پولیٹکس سے جیو اکنامکس پر منتقل کر دی ہے ،ہمارے نئے معاشی تحفظ کے نمونے کے تین بنیادی ستون امن، ترقیاتی شراکت داری اور رابطہ ہیں،پاکستان نے وسطی ایشیا میں اپنے بہت سے شراکت داروں کیلئے سمندر کا مختصر ترین راستہ پیش کیا۔انہوں نے جولائی میں تاشقند میں علاقائی رابطے پر ایک کانفرنس کی میزبانی کرنے پر ازبکستان کے صدر کی تعریف کی اور کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ ایس سی او خطے میں ریل، سڑک، سمندری اور ہوائی روابط کا جال بچھانے سے تجارت، توانائی کے بہاؤ اور لوگوں سے لوگوں کے تبادلے کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔انہوں نے کہا کورونا وائرس کی صورتحال کو سیاسی بنانے کی کوششوں سے گریز کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ ایسے وقت میں تقسیم ہے جب دنیا کو متحد ہونے کی ضرورت ہے ، وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کورونا ویکسین ہر ایک کو برابری کی بنیاد پر اور عالمی سطح پر عوام کی بھلائی کے لئے دستیاب ہونی چاہیے ۔ انہوں نے کہا ماحولیاتی تبدیلی دوسرا بڑا چیلنج ہے جو دنیا کو لاحق ہے ، ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے ہم نے بلین ٹری منصوبہ شروع کیا،وزیراعظم نے ایس سی او سربراہی اجلاس میں آگے بڑھنے کیلئے پانچ نکاتی راستے کی تجویز پیش کی۔چین کے صدر شی جن پنگ نے ویڈیو لنک خطاب میں کہا افغانستان میں پرامن اقتدار کی منتقلی کو یقینی بنائیں، شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو ایک جامع سیاسی ڈھانچہ تیار کرنے اور معتدل داخلی اور خارجی پالیسیوں پر عمل کرنے کیلئے افغانستان کی رہنمائی کرنی چاہیے ،افغانستان کی خود مختاری، آزادی اور جغرافیائی حدود کا احترام کیا جائے ، افغانستان کو مزید کھلے پن اور جامع حکومت کے قیام کی طرف بڑھنے دیا جائے ،افغانستان میں "متعلقہ فریقوں" کو دہشت گردی کا خاتمہ کرنا چاہیے ، بیجنگ کابل کو اپنی استطاعت کے مطابق مزید مدد فراہم کرے گا، کچھ ممالک کو افغانستان کے مستقبل کی ترقی کیلئے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں کیونکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان ایسے حالات میں چھوڑا کہ طالبان کیلئے کابل کے اقتدار پرقبضے کے دروازے کھل گئے ۔روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے ایس سی او افغان رابطہ گروپ اور کابل کے درمیان رابطوں کو دوبارہ شروع کرنے کی تجویز دی اور کہا کہ طالبان عملی طور پر پورے افغانستان کو کنٹرول کرتے ہیں اور انسانی حقوق کے تحفظ اور امن و استحکام کیلئے پرعزم ہیں، یہ بہتر ہوگا کہ نئے افغان حکام کو امن کی بحالی، روزمرہ کی زندگی کو معمول پر لانے اور سب کیلئے سکیورٹی فراہم کرنے کے حوالے سے اپنے وعدوں پر عمل کرنے کی ترغیب دیں، طالبان کی عبوری حکومت تمام طبقات کی نمائندہ نہیں لیکن ہمیں طالبان کے ساتھ کام کرنے اور ان سے مذاکرات کی ضرورت ہے ،انہوں نے امریکا اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان کے فنڈز کو آہستہ آہستہ بحال کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور کہا کابل کے ساتھ مذاکرات کیلئے روس ، چین ، پاکستان اور امریکا پر مشتمل گروپ کی شکل میں کام کیاجانا چاہیے ،ازبکستان کے صدر شوکت مرزیویف نے ممالک پر زور دیا کہ کابل میں طالبان کی حکومت سے مذاکرات کو یقینی بنانے کیلئے وہ غیر ملکی بینکوں میں افغانستان کے منجمد اثاثوں کو بحال کر دیں،اثاثوں کو غیر منجمد کرنے سے اہداف حاصل کرنے میں مدد ملی سکتی ہے ۔تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف نے کہا تمام فریقوں کی شرکت کے بغیر افغانستان میں کسی بھی حکومت کی تشکیل سے ملک کے حالات مزید خراب ہوں گے ۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا دنیا کو دہشت گردی کے خلاف اکٹھے لڑنے کی دعوت دیتا ہوں۔دریں اثنا وزیراعظم عمران خان کے اعزاز میں دوشبنے کے قصر ملت میں باضابطہ استقبالیہ تقریب ہوئی ، تاجک صدر امام علی رحمانوف نے وزیراعظم عمران خان کا پرتپاک خیرمقدم کیا،اس موقع پر گارڈ آف آنر پیش کیا گیااوردونوں ملکوں کے ترانے بجائے گئے ، تاجک صدر نے اپنی کابینہ کے ارکان سے وزیراعظم عمران خان کا تعارف کرایا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے تاجک صدر کو اپنے وفد کے ارکان سے ملوایا،ملاقات کے بعد وزیراعظم عمران خان اور تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف کی مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی،عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام نہ صرف پاکستان اور تاجکستان بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہے ، افغانستان میں ایسی جامع حکومت کے قیا م کی ضرورت ہے جس میں تمام گروپوں کی نمائندگی موجود ہو، افغانستان کے دوست کی حیثیت سے ہم پنج شیر کے معاملہ کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے خواہاں ہیں، پاکستان اس سلسلے میں پشتون گروپوں جبکہ تاجکستان تاجکوں پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرے گا۔افغانستان کی تاریخ میں یہ فیصلہ کن گھڑی ہے ، افغانستان میں پشتون 45 فیصد ہیں، اس کے علاوہ تاجک اور ہزارہ سمیت کئی اور گروپ بھی موجود ہیں، افغانستان میں جامع حکومت کے قیام کے ذریعے ہی پائیدار امن ممکن ہے ، اس سلسلہ میں ہم اپنی پوری کوششیں کریں گے ، افغانستان میں امن سے پاکستان کا امن بھی وابستہ ہے ، تین دہشت گرد گروپ اب بھی افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، افغانستان میں قیام امن جامع حکومت کے قیام سے ہی ممکن ہے ۔قبل ازیں دونوں ملکوں کے مابین وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے ،بعد ازاں وزیراعظم عمران خان نے پاکستان جبکہ صدر امام علی رحمانوف نے تاجکستان کی طرف سے مختلف شعبوں میں مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے اور دستاویزات کا تبادلہ کیا ۔دونوں ملکوں کے مابین خارجہ امور ، صنعتی تعاون ، دہرے ٹیکسوں سے بچائو ،منی لانڈرنگ ، دہشتگردوں کی مالی معاونت روکنے ، فنانشل انٹیلی جنس، سیاحت اور کھیل، اطلاعات سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لئے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے ۔ علاوہ ازیں تاریخی دستاویزات محفوظ بنانے ، لائبریریوں کی تعمیر اور مالی ٹیکس چوری کی روک تھام میں تعاون کے معاہدوں کی مفاہمتی یادداشتوں پر تاجکستان کے وزیر خارجہ سراج الدین مہرالدین اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دستخط کئے ۔ مزیدبرآں روسی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا امریکا کی طرف سے طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے سے مسائل بڑھیں گے ،پاکستان کو افغانستان میں ناکامی کا ذمہ ٹھہرائے جانے کا سننا ہمارے لیے بہت تکلیف دہ ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں