ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

برطانیہ ایک بار پھر کوروناکی زد میں

تحریر: مارک لینڈلر

برطانیہ نے ایک خطرناک جوا کھیلا اور گزشتہ ماہ اپنے لاکھوں بچوں کو ویکسین لگائے اور ماسک پہنائے بغیر سکولوں میں بھیج دیا جبکہ ملک میں کوروناکی لہر ایک بار پھرشدت پکڑ رہی ہے۔منگل کے  روز محکمہ تعلیم نے تازہ ترین رپورٹ جاری کی ہے کہ اس کا پلان کیسا چل رہا ہے۔30ستمبر کوایک لاکھ چھیاسی ہزار ایسے بچے سکولوں سے غیر حاضر تھے جن میں کوروناوائرس کی تصدیق ہوچکی تھی۔یہ شرح 16ستمبر کو رپورٹ ہونے والے کیسز سے 78فیصدزیادہ تھی اور کووڈ دوبارہ پھیلنے کے بعد یہ کیسز کی سب سے بڑی تعداد ہے۔تاہم ہمیں ابھی والدین سے یہ بات سننے کا انتظار ہے کہ سب سے بڑا رسک تو اس وقت سامنے آئے گا جب بچوں کو ماسک پہننے یا گھروں میں رہنے کے لیے کہا جا ئے گا۔لندن میں نوٹنگ ہل پریپریٹری سکول سے جہاں کسی نے بھی ماسک نہیں پہنا ہوا تھا اپنی بیٹی کو لینے والی مورگین کارگا ڈورس کا کہنا تھا کہ یہ بچوں کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ بچے سب سے زیادہ لوگوں کے سامنے اظہار اور کنٹیکٹ کی مدد سے سیکھتے ہیں۔ 

ایسے ملک میں اس طرح کے جذبات کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے جہاں سماجی فاصلہ رکھنا ترک کر دیا گیا ہے ‘بھاری تعداد میں ویکسین لگا دی گئی ہے اور زندگی بڑی تیزی سے نارمل روٹین کی طرف لوٹ آئی ہے۔تاہم یہاں والدین ایک ایسی بحث میں الجھے ہوئے ہیں جو دنیا بھر میں مختلف نتائج دے رہی ہے ۔یہاں والدین اس مہلک بیماری کے حوالے سے بہت بڑا رسک لے رہے ہیں کیونکہ وہ بچوں کو گھر پر یا ایسے کلاس روم میں رکھ کر ایک خطرہ مول لے رہے ہیں جہاں ماسک اور دیگر حفاظتی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔

برطانیہ کی آزاد تجارت کی اپروچ کا دفاع کرنے والوں کا موقف ہے کہ انہوں نے طلبا کی اکثریت کو نارمل سکول کے تجربے کی طرف لوٹنے کا موقع دے دیا ہے۔تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ بچوں کو ناقابل قبول رسک کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ایک طرف کیسز 10فیصدسے بڑھ کر 19فیصدتک پہنچ گئے ہیں مگرفی الحال صورت حال کے ساتھ گزارا کرنے کی بات کی جا  رہی ہے۔زیادہ حساس والدین کے نزدیک یہی بات بے چینی کا باعث ہے کہ گزشتہ موسم بہار میں سکینڈری سکول کی سطح پر ماسک پہننا لازمی تھا مگر اب یہ شرط ترک کر دی گئی ہے ۔اگر کوئی بچہ بھی کوروناسے متاثر ہو گیا تو وہ پوری کلاس کو انفیکٹ کر دے گا۔حفاظتی اقدامات کے فقدان کے خلا ف ایک احتجاجی مہم کے طو رپر کئی والدین سوشل میڈیا پر مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں اپنے بچوں کو سکولوں سے ہٹانے کی اجازت دی جائے۔الیکس میتھیو‘ جن کی بیٹی کالویل پرائمری سکول لندن میں پڑھتی ہے کا کہنا ہے کہ یہ تو شدیدخوف پھیلانے والی بات ہے۔

سرکاری حکام کا اصرار ہے کہ ان کی خبردار کرنے والی اپروچ کے پیچھے کوروناکیسز کی تعداد ہے۔اگرچہ کورونا کی وجہ سے بچوں کی ایک بڑ ی تعداد غیر حاضر ہے مگر سرکاری سکولوں میں جانے والے 84ملین بچوں میں سے 90فیصدبچے آج سکول جارہے ہیں اور سکول بھی تقریباً اپنے معمول کے مطابق کا م کر رہے ہیں۔غیر حاضر رہنے والے بچے کووڈ سے زیادہ دیگر وجوہات کی بنا پر نہیں آرہے ۔یہ بات بھی واضح نہیں کہ 30ستمبر کو رپورٹ ہونے والے کیسز میں سے کتنے کیسز ایسے ہیں جو 16ستمبر کو بھی رپورٹ ہو چکے ہیں۔برطانیہ میں سامنے آنے والے روزانہ کے ہزاروں کیسزکی تعداد ستمبر کے شروع میں سکول کھلتے وقت والے کیسز سے کہیں کم ہے۔ ایسا صرف ا س لیے ممکن ہو سکا کیونکہ بالغ آبادی میں بھاری مقدار میں ویکسین تقسیم کر دی گئی تھی۔برطانیہ بہت سے ممالک کی فہرست میں کو ئی اکیلا ملک نہیں ہے جو کوروناکے بڑھتے ہوئے کیسز کے ساتھ چلنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ناقدین کا خیال ہے کہ متاثرہ بچوں میں سے کچھ کو لمبے عرصے تک کوروناکے اثرات کا سامنا رہے گا۔تاہم ہسپتال میں داخل ہونے والے بچوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے۔

ماسک پہننے کے حوالے سے برطانیہ کی اپروچ امریکہ سے یکسر مختلف ہے جہاں بچوں کے لیے سکول میں ماسک پہننا لاز می ہے۔مگر وہاں کے سیاسی دھڑے ماسک کے حامی اور مخالفین میں تقسیم ہیں اور ا س کے ساتھ ساتھ ریاستی اور فیڈرل اتھارٹیز کی شکل میں بھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔بوربیو ایک ڈیٹا سروس ہے جو بند ہونے والے سکولوں کو مانیٹر کرتا ہے اور اس کے مطابق امریکہ کے 200سب سے بڑے سکول ڈسٹرکٹس میں سے تین چوتھائی سکولوں میں ماسک پہننا لازمی ہے۔سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول نے حال ہی میں اپنی دو سٹڈیز شائع کی ہیں جن میں یہ شواہد فراہم کیے گئے ہیں کہ ماسک سکولوں میں بچوں کو کوروناوائرس سے بچاتے ہیں خاص طو رپر اس وقت بھی جب کمیونٹی میں کوروناکیسز کی تعداد بہت زیادہ ہواور ڈیلٹا ویرینٹ عام پھیل رہا ہو۔

برطانیہ میں اگر کسی بچے کا کوروناٹیسٹ مثبت آگیا ہو تو سکول اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ اس کے کلاس فیلوز کی فیملیز کو اس بارے میں آگاہ کریں۔ناقدین کے خیال میں یہ پالیسی دوسرے بچوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ایک طرف کنزرویٹو پارٹی کے ارکانِ پارلیمنٹ ماسک اور دیگر پابندیوں کے مخالف ہیں مگر امریکہ کے مقابلے میں برطانیہ میں یہ مسئلہ اس قدر سیاست زدہ نہیں ہے ۔ برطانیہ کی پالیسی اس امر کی عکاس ہے کہ بچے بہت جلد کووڈ کے اثرات سے نکل آتے ہیں اور ان میں سے ایک قلیل تعداد کو ہسپتال میں داخل کرانے کی نوبت آتی ہے۔اسی وجہ سے ابتدا میں حکومت 16سال سے کم عمرکے بچوں کی ویکسی نیشن کی مخالفت کررہی تھی۔ اب اس نے 12سال یا اس سے اوپر کے بچوں کو بھی ویکسین لگانا شروع کر دی ہے تاکہ نوجوان گروپ کو بھی انفیکشن سے بچایا جا سکے۔جب یہاں کووڈ انفیکشن میں اضافہ ہو چکا ہے اور منگل کے دن 33869کیسز سامنے آئے تھے مگر ہسپتالوں میں داخلے اور شرح اموات میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے۔اڈنبرا یونیورسٹی میں پبلک ہیلتھ پروگرام کی سربراہ ڈاکٹر دیوی سری دھر کا خیال ہے کہ بالغ افراد کے مقابلے میں بچے کم وائرس منتقل کرتے ہیں۔آپ نے شاید ہی کبھی دیکھا ہو کہ پورا کلاس روم انفیکشن کا شکار ہوگیاہو۔ڈاکٹر سری دھر کہتی ہیں کہ میں نے سکینڈری سکولز میں ماسک پہننے کی حمایت کی ہے کیونکہ اس طرح ہم سکول کے ماحول کو زیادہ محفوظ بنا سکتے ہیں۔تاہم ان کے خیا ل میں یہ دلیل قابل غور ہے کہ 12سال سے کم عمر کے بچوں کو ماسک پہنانے سے انہیں بات کرنے میں مشکل پیش آتی ہے ۔ناقدین کہتے ہیں کہ جو لوگ کلاس روم میں ماسک پہننے کے مخالف ہیں وہ کلاس میں بہتروینٹی لیشن جیسے دیگر اقدامات کی بھی مخالفت کر تے ہیں۔

کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اب عملی قدم اٹھانے کا وقت آگیا ہے۔شمالی انگلینڈ کی ایک ماں لزا ڈائز نے سوشل میڈیا پر سکولوں اور حکومت کے لیے ایک میسج مہم شروع کر رکھی ہے کہ وہ اور دوسری مائیں ان کی موجودہ اپروچ سے اتفاق نہیں کرتیں۔یہ ہمارے بچے ہیں محض کاغذ پر لکھی ہوئی کوئی تعداد نہیں ہے۔ والدین کی کثیر تعداد اس فیصلے کو محض جان چھڑانے سے تعبیر کرتی ہے۔رابرٹ لائنز جو اپنی بیٹی کو سکول سے لینے آئے تھے کا کہنا تھاکہ میں نے کسی ٹیچر کو ماسک پہنے نہیں دیکھا لیکن مجھے اس بات سے کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے کیونکہ اس طرح مجھے حالات کے نارمل ہونے کا احساس ہوتا ہے اور یہ اچھی بات ہے۔

(بشکریہ : نیویارک ٹائمز، انتخاب : دنیا ریسرچ سیل، مترجم : زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement