جب برصغیر پاک وہند میں نجی سطح پر مدارس وجامعات کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا تو اس خطے کے معروضی حالات بدل چکے تھے‘ سلطنتِ مغلیہ زوال کے بعد قصۂ پارینہ بن چکی تھی اور برطانوی استعمار پورے برصغیر پر حاکم بن چکا تھا۔ انہوں نے اپنا نظامِ حکومت چلانے کیلئے اپنا نظامِ تعلیم رائج کر دیا تھا‘ اس کا مقصد اپنے انتظامی ڈھانچے کیلئے مقامی رِجال کار تیار کرنا تھا‘ جو نسلاً تو ہندی ہوں‘ مگر اُن کی فکر اور طرزِ زندگی برطانوی سانچے میں ڈھلی ہو۔ اس پس منظر میں مسلم مفکرین نے مناسب سمجھا کہ ریاستی سرپرستی اور تسلّط سے آزاد ہو کر دینی علوم اور اسلامی اقدار کا تحفظ کیا جائے‘ ایسا نہ ہو کہ غاصب حکمرانوں کے تسلّط کے سبب دینی علوم اور اقدار مٹ جائیں یا اُن میں تحریف کر کے اُن کا حلیہ بگاڑ دیا جائے اور مذہب کی روح کو مسخ کر دیا جائے۔ اس مقصد کیلئے دینی مدارس وجامعات وجود میں آئے‘ اُن کے سبب دینی علوم اور دینی اقدار و روایات کا تحفظ ہوا اور مسلمان اپنا تشخص قائم رکھنے میں کامیاب رہے۔ چونکہ اُس وقت برصغیر میں تقریباً نوّے فیصد مسلمان فقہ حنفی کے پیروکار تھے‘ اس لیے تعلیمی نصاب میں بھی یہی فکر رائج تھی۔ علومِ آلیہ کے ساتھ ساتھ حنفی فقہ واصولِ فقہ کی کتب بالاستیعاب پڑھائی جاتی تھیں اور آخری درجات میں تفسیر و حدیث کو شامل کیا گیا تھا۔ دنیا آج کی طرح سب کیلئے کھلی نہیں تھی‘ اس لیے اور تو چھوڑیے‘ بیرونی مسلم دنیا کے اثرات بھی زیادہ نمایاں نہیں تھے‘ البتہ فارسی زبان اور فارسی اُدبا و شعرا کا یقینا اثر تھا‘ یہ اثر ہمارے ادب اور شاعری پر بھی مرتب ہوا۔ افغانستان‘ ایران اور ترکستان سے آنے والے حکمرانوں کی زبان بھی فارسی تھی اور اس وقت کے برصغیر کی دفتری زبان بھی فارسی تھی‘ بعد کو اس کی جگہ انگریزی نے لے لی۔ فلسفۂ یونان کے تحت جو کلامی ابحاث وجود میں آئیں‘ وہ ہمارے علم الکلام کا حصہ بنیں۔ واضح رہے کہ علم الکلام کا تعلق ایمانیات و عقائد سے ہوتا ہے‘ نیز جو سیاسی اور اعتقادی گروہ قرونِ اُولیٰ میں وجود میں آ چکے تھے‘ وہ بھی نصاب کا حصہ تھے‘ اُن میں خوارج‘ نواصب‘ معتزلہ‘ قدریہ‘ جبریہ اور مرجئہ وغیرہ شامل تھے۔
ایک بار ڈاکٹر محمود احمد غازی نے اس نصاب کی ساخت پر تبصرہ کیا تھا: ''مروجہ درسِ نظامی میں فقہی‘ کلامی و اعتقادی مسائل پہلے پڑھائے جاتے ہیں‘ جب نظریات راسخ ہو جاتے ہیں تو اسکے بعد تفسیر و حدیث سرسری انداز میں پڑھائی جاتی ہیں‘ اُنکا بالاستیعاب مطالعہ فقہی و کلامی و اعتقادی کتب کی طرح نہیں ہوتا‘‘۔ یعنی اُن کے نزدیک قرآن و حدیث کا مطالعہ معروضی انداز سے نہیں ہوتا بلکہ موضوعی انداز سے ہوتا ہے۔ معروضی کے معنی ہیں: ''قرآن و حدیث کے نظریات کو اصالۃً قبول کیا جائے اور باقی سب کو اس کے تابع قرار دیا جائے‘‘ جبکہ موضوعی کے معنی ہیں: ''نظریات پہلے ذہنوں میں راسخ کر دیے جائیں اور پھر قرآن و حدیث کی اُس کے مطابق تفسیر و تشریح اور تحقیقی ابحاث کی جائیں‘‘۔ یہ بات پوری طرح تو نہیں‘ لیکن کسی حد تک درست ہے۔ پوری طرح اس لیے نہیں کہ فقہی و کلامی مسائل کا استنباط و استخراج قرآن و حدیث ہی سے ہوتا ہے اور ان مسائل پر بحث کرتے ہوئے قرآن و حدیث ہی کو اصل قرار دیا جاتا ہے۔ نیز مقابل فقہی و کلامی نظریات اور ان کے استدلال اور استشہادات بھی زیر بحث لائے جاتے ہیں۔ عربی شعرکا مفہوم ہے ''ہم (اپنے مخالفین) کی مذمت کرتے ہیں‘ حالانکہ انہی کے سبب ہم نے اپنے ممدوح کے فضل و کمال کو جانا اور چیزوں کے حسن و خوبی کا صحیح ادراک اُن کی ضد سے تقابل کرکے ہی ہوتا ہے‘‘۔ عربی مقولے کا مفہومی ترجمہ ہے ''اگر کسی کے نتیجۂ فکر کو پوری طرح حاصل نہ کیا جا سکتا ہو‘ تو جتنا حاصل کیا جا سکتا ہے‘ اُس کو تو نہ چھوڑا جائے‘‘۔
لہٰذا ہمیں اپنے درسیات کے نصاب میں یہ وسعت پیدا کرنی چاہیے کہ قرآنِ کریم اور کسی اہم تفسیر‘ اسی طرح احادیثِ مبارکہ اور بالخصوص کسی ایک جامع کتابِ حدیث مثلاً صحیح البخاری کو بالاستیعاب سبقاً سبقاً پوری گہرائی اور گیرائی کے ساتھ پڑھایا جائے۔ نیز ہم اپنے فضلا کو بتاتے ہیں ''درسِ نظامی کی تکمیل سے آپ یہ نہ سمجھیں کہ آپ علم کے مرتبۂ کمال کو پہنچ گئے ہیں‘ یہ درسی نصاب آپ کے اندر یہ استعداد پیدا کرتا ہے کہ تفسیر‘ حدیث اور فقہی مآخذ پر مبنی کتب کا مطالعہ کر کے اُن کے فہم اور تفہیم پر آپ کو قدرت حاصل ہو‘ اپنی علمی استعداد اور مطالعے کو بڑھانا یہ آپ کی اپنی ذمہ داری ہے اور یہ ایک مستقل جاری عمل کا نام ہے‘‘ آپ یہ سمجھیں ''آج سے آپ کے علمی سفر کا آغاز ہوا ہے اور جوں جوں آپ کا مطالعہ بڑھتا چلا جائے گا‘ آپ کے علم‘ تحقیق اور درپیش معاملات پر قرآن و سنّت کی نصوص کی تطبیق کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا‘‘۔ ہم انہیں بتاتے ہیں ''فقہی مسئلہ ہے: ٹھہرئے ہوئے پانی میں گرد و غبار بھی پڑتا ہے‘ جھاڑ جھنکار بھی آتے ہیں‘ بعض صورتوں میں ناپاکی بھی شامل ہوتی ہے اور وہ پانی گدلا اور حکماً ناپاک ہو جاتا ہے‘ اس کے برعکس ندی نالے اور دریائوں میں بہتا ہوا پانی پاک بھی ہوتا ہے اور دوسری چیزوں کو پاک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے‘ حالانکہ اُس میں بھی آلائشیں پڑتی رہتی ہیں‘ لیکن اُس کا جاری رہنا ان کے اثرات کا ازالہ کر دیتا ہے اور پانی پاک رہتا ہے۔ اسی طرح اگر عالم کا مطالعہ کسی انقطاع کے بغیر جاری رہے تو اس کے علم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور علمی ارتقا کا سفر رکتا نہیں ہے‘‘۔
نیز ہم اُن سے کہتے ہیں ''تدریس‘ تحریر یا خطاب کے دوران آپ کو کوئی اشکال پیش آئے‘ کسی مسئلے میں تشکیک یا ابہام پیدا ہو تو اپنی مادرِ علمی اور اپنے اساتذۂ کرام سے مسلسل رابطے میں رہیں‘ علم تواضع سکھاتا ہے‘ عالِم میں اگر عُجب و تکبر پیدا ہو جائے تو علم کا فیضان موقوف ہو جاتا ہے‘‘۔ نیز ہم اپنے اداروں کو مشورہ دیتے ہیں کہ کم از کم میٹرک تک سکول کی مروجہ تعلیم کا بھی انتظام کریں یا میٹرک پاس طلبہ کو داخلہ دیں‘ لیکن یہ اختیاری ہے‘ اِجباری نہیں ہے کیونکہ یہ تنظیم المدارس اہلسنّت پاکستان کے ساتھ ملحق ہر ادارے کی استعداد اور گنجائش پر موقوف ہے۔ ہمارے ملحق بعض ادارے تو متوازی طور پر گریجوایشن اور پوسٹ گریجوایشن کی سطح تک بھی اپنے طلبہ اور طالبات کو تعلیمی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں اب تک سکول کی بنیادی تعلیم لازمی نہیں ہے بلکہ جیسا کہ ہم نے پچھلے کالم میں لکھا ہے ''بعض اعداد و شمار کے مطابق تقریباً تین کروڑ تک بچے سکول نہیں جاتے‘‘ ایسے میں دینی مدارس و جامعات پر میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کی لازمی تعلیم کی پابندی کیسے عائد کی جا سکتی ہے۔ ہماری تنظیم سے ملحق بعض ادارے تخصصات کی بھی تعلیم دیتے ہیں‘ اُن میں تخصص فی التفسیر و الحدیث‘ تخصص فی الفقہ والافتاء شامل ہے۔ اسی طرح اسلامک فنانسنگ کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے: دینی مدارس و جامعات کے طلبہ و طالبات علومِ عربیہ تو پڑھتے ہیں‘ عربی تفاسیر‘ شروحِ حدیث اور فقہ و افتاء کی کتب پڑھتے بھی ہیں‘ انہیں پوری گہرائی اور گیرائی کیساتھ سمجھتے بھی ہیں‘ لیکن انہیں جدید عربی لکھنے اور بولنے پر قدرت نہیں ہوتی۔ نہ ہم اس کمزوری کا دفاع کرتے ہیں‘ نہ اس کا جواز پیش کرتے ہیں کہ ایسا ہونا چاہیے‘ لیکن انگلش میڈیم تعلیمی اداروں کے استثنا کیساتھ ہماری یونیورسٹیوں میں ایم اے انگلش کرنیوالوں کو بھی انگریزی لکھنے اور بولنے پر پوری قدرت حاصل نہیں ہوتی‘کیونکہ زبان و بیان پر عبور کا مدار ماحول پر بھی ہوتا ہے۔ غیر تعلیم یافتہ یا معمولی تعلیم حاصل کرنیوالے لوگ مغربی ممالک میں جاتے ہیں‘ وہ وہاں کے ماحول کی وجہ سے ضرورت کی حد تک انگریزی بولنے اور سمجھنے پر قادر ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ہماری یونیورسٹیوں سے ایم اے اردو کرنے والوں کو چونکہ بنیادی عربی اور فارسی کی شُدبُد نہیں ہوتی‘ اس لیے اُن کیلئے ہمارے ادبِ عالی یعنی علامہ اقبال‘ غالب‘ بیدل اور بہت سے شعرا کے کلام کو کماحقہٗ سمجھنا دشوار ہوتا ہے بلکہ صحیح تلفظ کے ساتھ قدیم شعرا کے کلام کو پڑھنے والوں کی تعداد بھی کم ہے‘ پورا ملکہ اور عبور تو بعد کی بات ہے۔ یہی حال ہمارے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں بعض نظامت کاروں کا ہے‘ وہ اردوزبان کا قتلِ عام کرتے ہیں۔